زندگی میں اصلی تبدیلی آگئی ہے

جب سرسید احمد خان ہندوستان کے مسلمانوں کو ماڈرن زندگی کی طرف بلا رہے تھے‘ تو ان کے خلاف کفر کے فتوے لگائے گئے

jamilmarghuz1@gmail.com

احمد ندیم قاسمی صاحب نے کیا خوب کہا ہے۔

؎یہ ارتقاء کا چلن ہے' کہ ہر زمانے میں
پرانے لوگ 'نئے آدمی سے ڈرتے ہیں

ہمارے قدامت پرست لیڈر اپنی تقاریر میں پرانے زمانے کی خوبیاں اورنئے زمانے اور مغربی تہذیب کی خامیاں اور برائیاں بیان کرتے نہیں تھکتے 'یہ پرانے لوگ ابھی تک نئے آدمی سے ڈرنے کے باوجود 'اتنا نہیں سمجھتے کہ وہ بھی نئے آدمی کا چلن اختیار کر رہے ہیں'بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ زوال پذیری کی رفتار کو تیز سے تیز کررہے ہیں۔

پوری دنیا میں اپنے اپنے حساب سے پرانے نظریات و افکار زوال پذیر ہیں یا اختتامی مراحل سے گزر رہے ہیں ' قدیم رواج' عقائد 'ثقافتوں اور تہذیبوں کو نئے زمانے کے حقائق غیرمحسوس انداز میں نگل رہے ہیں۔

میں 1950میں پیدا ہوا، جب سے ہوش سنبھالا ، دنیا بدلتے دیکھتا رہا ہوں'یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان ستر برسوں میں صدیوں کا سفر طے ہو گیا' اس دوران کئی پرانی چیزیں، رواج اور نظریات معدوم ہو گئے ہیں، اگر ماضی کا کوئی انسان قبر سے اٹھ کر واپس آجائے آجائے تو اسے اپنے علاقے کی زبان سمجھ آئے گی اورنہ آج کا انسان اپنے جیسا نظر آئے گا، اسے لگے گا کہ وہ کسی اور دنیا میں آگیا ہے۔

چند دہائیاں تک قبل تک تار کول کی پکی سڑکیں نہیں تھیں' بلکہ کچے راستے تھے جن پر ٹانگے' گدھے' گھوڑے اور پرانے ٹم ٹم والی گاڑیاںچلتی تھیں'آج آپ کو ٹانگہ کہیں نظر نہیں آئے گا'یہ الگ بات کہ کسی ستم ظریف نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ ''ٹانگہ ایسوسی ایشن نے اپنے ایک اجلاس میں حکومت کا شکریہ ادا کیا ہے'کہ انھوں نے پٹرول اتنا مہنگا کردیا ہے کہ ٹانگوں کا کاروبار دوبارہ چل پڑا ہے''۔ پھر وقت آگے بڑھا تو چنیوٹ کی باڈی والی فورڈ بسیں مشہور ہوئیں۔

اب تو پک اپ ' اے سی والی فلائنگ کوچ اور بسیں 'بلٹ ٹرین' میٹرو بس اور ٹرین'رکشے اور موٹر سائکلیں دوڑتی ہوئی نظر آرہی ہیں'آج سڑکیں کھلی اور کشادہ ہیں لیکن چمچماتی گاڑیوں، رکشوں اور موٹرسائیکلوں کے بے ہنگم رش کی وجہ یہ سڑک بھی چھوٹی نظر آتی ہے اور اسے پیدل کراس کرنا مشکل ہوتا ہے 'پھر موٹر ویز کے اپنے مزے ہیں۔

ذرایع آمد ورفت کاکیا کہنا'میرے دادا کوئی تیس سال قبل حج پر جارہے تھے'گاؤںسے ریل گاڑی میں بیٹھ گئے اور تین دن کے سفرکے بعد کراچی پہنچ گئے 'دس دن کراچی میں رکے اور بحری جہاز کے ذریعے مہینوں کے بعد جدہ پہنچے '2018میںمیری امی عمرے پر جا رہی تھی' نو گھنٹے کے بعد مدینہ سے ان کا فون آگیا۔

وہ کہہ رہی تھی کہ بیٹا مجھے تو پتہ بھی نہیں لگا اور جہاز مدینے پہنچ گیا' پیغام رسانی پہلے گھوڑوںاور خچروں کے ذریعے ہوتی تھی، انگریز نے ڈاک کا نظام متعارف کرایا، خط اور تار نے پیغام رسانی کو آسان اور تیز رفتار کیا، پھر ٹیلی فون ، ٹیلی گراف 'ٹیلی پرنٹر اور فیکس کے ساتھ پیجر متعارف ہوا، اب سیل فون ہمارے ہاتھ میں ہے۔


اب تو مسافری اور سفر کا مزا ہی ختم ہوگیا ہے کیونکہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہر وقت سامنے بیٹھ کر باتصویر بات ہوتی ہے۔

گندم کی فصل کٹنے کے بعد گندم کے خوشوں کو بیل جوت کر سہاگے(لکڑی کا پھٹا) کے ذریعے دانے اور توڑی(بھوسا) الگ کیے جاتے تھے'سخت دھوپ کے باوجود کسانوں کے لیے یہ خوشی کا موقع ہوتا تھا،گاؤں کے نوجوان اس میں فرض سمجھ کر ہاتھ بٹاتے تھے۔

بساکھی کا تہوار اسی خوشی کا اظہار ہے۔ اسی طرح مکئی کی فصل تیار ہونے کے بعد مکئی کے سٹوں کو لکڑی کے ڈنڈوں سے مارمار کر دانے الگ کیے جاتے 'لوگ جمع ہوتے اور خوشیاں مناتے 'اس اس اجتماعی کام میں بھی گاؤں کے نوجوان شامل ہوتے ، اس عمل کو پشتو میںغوبل کہتے ہیں جب کہ پنجابی میں ''ونگار'' کہتے ہیں' کھانے میں دیسی گھی کے پراٹھے، لسی اور مکھن وغیرہ ہوتے 'ان خوشگوار محفلوں اور تہوار کو تھریشر اور ٹریکٹر کھا گئے۔

عید کے موقع پر عید کارڈ آتے 'اب سارے کام موبائل نے سنبھال لیے ہیں'شادی کارڈ بھی واٹس اپ کے ذریعے آتے ہیں۔پرانے پروفیشن خواب و خیال لگتے ہیں مثلاًہاتھیوں کے مہاوت'دلہن کی ڈولی اور ڈولی اٹھانے والے کہار، دریاں اور چٹائیاں ' لالٹین اور دادی جان یا امی کی لوریاں'پانی کے لیے گھڑے' پانی لانے یا چھڑکاؤ کے لیے ماشکی' روئی کے کے لیے پینجے، بلوارے اور جلاہے'یہ سب کچھ اتنی جلدی ختم ہوگئے کہ ہمیں پتہ بھی نہیں چلا۔ ذاتیں تبدیل ہوگئیں، سلسلہ ہائے نسب تبدیل ہوگئے ، موجودہ صدی کے اختتام تک سائنس اور ٹیکنالوجی ' آج کے نظریات' تہذیبوں اور ثقافتوں کے ساتھ کیا سلوک کرے گی، اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔

میرے ایک دوست کاملازم بڑی مزے کی باتیں کرتا ہے۔نورے نام ہے ۔ایک دن کہنے لگا کہ صاحب جی! ہم موٹروںاورجہازوں میں سفر کرتے ہیں۔گرمیوں میں پنکھے، کولرز اور ائر کنڈیشنرزاستعمال کرکے ٹھنڈے رہتے ہیں۔سردیوںمیں ہیٹر اورگیس کے ذریعے گرم ہوتے ہیں۔

ٹی وی، فیس بک، ٹوئٹر، وٹس ایپ استعمال کرتے ہیں اور موبائل فون استعمال کرتے ہیں'یہ تمام چیزیں غیرمسلم سائنسدانوں کی ایجادات ہیں 'ہمارے بڑے کہتے ہیں کہ ہم سب سے ذہین اور ایماندار ہیں'تومیں سوچتاہوں کہ آخر ہم کیوں انسانیت کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والی چیزیںنہیں بناتے؟میرا پاس اس کا دو الفاظ والا جواب نہیں تھا۔

بس ادھر ادھر کی کہانی سنا کر اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی لیکن وہ قائل نہ ہوا۔ہمارے سامنے دو راستے ہیں۔اول سائنس اور ٹیکنالوجی کو مسترد کرکے صحراؤں'جنگلوں کی طرف نکل جائیںاور اپنی الگ دنیا آباد کریں، دوسری صورت ' جدید دور کے تقاضوں کو سمجھیں ، اگر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنانا ہے 'تو اس سے جڑی تہذیب و ثقافت سے بھی مفر ممکن نہیں۔

شاہد ہم نے کبھی نہ سوچنے 'سمجھنے اور سیکھنے کا فیصلہ کررکھا ہے 'حالانکہ ہم غیرمحسوس انداز میں اپنی بہت سی پرانے رسوم و رواج چھوڑ چکے ہیں'مثلاً لاؤڈ اسپیکر سے لے کر فوٹو تک 'انجکشن سے لے کر خون اور اعضاء کے ڈونیٹ کرنے تک'میڈیکل کالجز میں ڈائی سیکشن اور پھر پرنٹنگ پریس تک۔بچوں،بڑوں کے پہناوے تبدیل ہوچکے ہیں، آج کل ٹی وی پروگرامز میں علماء کرام خواتین کے ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں تو دل خوش ہو جاتا ہے۔

جب سرسید احمد خان ہندوستان کے مسلمانوں کو ماڈرن زندگی کی طرف بلا رہے تھے' تو ان کے خلاف کفر کے فتوے لگائے گئے لیکن آج ہم سب اپنے بچوں کو مہنگے انگریزی میڈیم اسکولزمیں داخل کراتے ہیں، انھیں اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ اور امریکا بھیجنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کرتے۔ نام نہاد دانشور اور پڑھے لکھے لوگ لارڈ میکالے کودن رات گالیاں دی جاتی ہیں حالانکہ یہ لوگ جن اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں اپنے بچے پڑھاتے ہیں، وہ لارڈمیکالے کے نظام تعلیم کی بنیاد پر قائم ہیں۔

آج اچھے اور معیاری انگلش میڈیم اسکولوں کے مالکان اسلامی جمعیت طلبہ یا جماعت اسلامی میں رہے ہیں اور میکالے کی برائی بھی وہی کرتے ہیں۔ ہمارا مذہبی اور قدامت پرست طبقہ اپنے ارد گرد نظر دوڑائے، اپنے لباس اور گھر میں موجود سہولیات کا جائزہ لیں تو ہر طرف جدیدیت کے نمونے نظر آئیں گے۔ہمارے گھر سیمنٹ کے بنے ہیں۔

وہاں پر بجلی اور اس پر چلنے والے فریج'ائر کنڈیشنڈ ' ہیٹر 'ٹی وی'استری 'پنکھے'کمپیوٹر 'پانی گرم کرنے والے گیزر 'کھانا مائیکرو اوون' بستر پر بچھانے والے فوم 'دنیا بھر سے رابطہ رکھنے والی موبائل ٹیلی فون یا عام ٹیلی فون اور وقت دیکھنے والی گھڑی غرض کون سی ایسی چیز زیر استعمال ہے جو ہم نے ایجاد کی ہو یا بنائی ہو'حتی کہ جائے نماز اورتسبیح بھی چائنا کی استعمال ہو رہی ہیں۔
Load Next Story