درگاہ بھٹائی پر فوٹو گرافروں کے2گروہوں میں تصادم6افراد زخمی
جھگڑا خواتین زائرین کی تصویریں بنانے پر ہوا، ایک دوسرے کے کیمرے، کمپیوٹر اور پرنٹر توڑ دیے، درگاہ میدان جنگ بن گئی
درگاہ شاہ عبداللطیف بھٹائی پر خواتین زائرین کی زبردستی تصویریں بنانے پر فوٹو گرافروں کے 2 گروہوں میں جھگڑا، 6 افراد زخمی، کمپیوٹر کیمرے اور 6 پرنٹر توڑ دیے گئے۔
پولیس بھاگ کھڑی ہوئی، نوجوان ایک دوسرے پر تشدد کرتے اور سامان توڑتے رہے، درگاہ میدان جنگ بن گئی، گدی نشین کے بیٹے پر 35 لاکھ روپے ٹھیکے کی مد میں لینے کا الزام، زائرین کا اظہار برہمی۔ تفصیلات کے مطابق درگاہ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی پر 2 ٹھیکیداروں اشرف رنگ اور اکبر رنگ کے 42 فوٹو گرافروں میں زائرین خواتین کے زبردستی فوٹو بنانے پر جھگڑا ہوگیا، پوری درگاہ میدان جنگ بن گئی، فوٹو گرافروں نے ایک دوسرے کے کیمرے، کمپیوٹر، پرنٹرز اور دیگر اشیا توڑ پھوڑ دیں، متحارب گروہ ایک دوسرے کو درگاہ پر گھسیٹتے رہے، جھگڑے میں شوکت، ساجد، اصغر اور دیگر زخمی بھی ہوئے۔ اسی دوران درگاہ پر تعینات 27 پولیس اہلکاروں میں سے صرف 2 موجود تھے جو جھگڑا روکنے کی بجائے فرار ہوگئے۔
جھگڑے کے باعث فریقین کو لاکھوں کا نقصان ہوا۔ اس دوران ایڈمنسٹریٹر اوقاف عبدالرحمن چنہ بھی اوقاف آفس میں موجود تھے لیکن ان کے سامنے اوقاف ملازم اور ٹھیکیدار تاجو رنگ ایک دوسرے کو مغلظات بکتے رہے۔ بعدازاں گدی نشین کے فرزند خاور شاہ نے فریقین کا جھگڑا ختم کرایا اور ایک گروپ کے فوٹو گرافر پر پابندی عائد کر دی اور انھیں درگاہ سے نکال دیا، بعد میں فوٹو گرافروں نے کہا کہ گدی نشین کا بیٹا سالانہ ٹھیکے کے 35 لاکھ روپے بھی لے چکا ہے جبکہ خاور شاہ نے کہا کہ انھوں نے اتنے پیسے نہیں لیے۔ دوسری جانب درگاہ کے ولی عہد سید وقار حسین شاہ نے کہا کہ لوگوں نے درگاہ کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے یہاں پر روحانی سکون کے لیے بہت کم لوگ آتے ہیں جو آتے ہیں انھیں بھی پریشان کیا جاتا ہے۔
پولیس بھاگ کھڑی ہوئی، نوجوان ایک دوسرے پر تشدد کرتے اور سامان توڑتے رہے، درگاہ میدان جنگ بن گئی، گدی نشین کے بیٹے پر 35 لاکھ روپے ٹھیکے کی مد میں لینے کا الزام، زائرین کا اظہار برہمی۔ تفصیلات کے مطابق درگاہ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی پر 2 ٹھیکیداروں اشرف رنگ اور اکبر رنگ کے 42 فوٹو گرافروں میں زائرین خواتین کے زبردستی فوٹو بنانے پر جھگڑا ہوگیا، پوری درگاہ میدان جنگ بن گئی، فوٹو گرافروں نے ایک دوسرے کے کیمرے، کمپیوٹر، پرنٹرز اور دیگر اشیا توڑ پھوڑ دیں، متحارب گروہ ایک دوسرے کو درگاہ پر گھسیٹتے رہے، جھگڑے میں شوکت، ساجد، اصغر اور دیگر زخمی بھی ہوئے۔ اسی دوران درگاہ پر تعینات 27 پولیس اہلکاروں میں سے صرف 2 موجود تھے جو جھگڑا روکنے کی بجائے فرار ہوگئے۔
جھگڑے کے باعث فریقین کو لاکھوں کا نقصان ہوا۔ اس دوران ایڈمنسٹریٹر اوقاف عبدالرحمن چنہ بھی اوقاف آفس میں موجود تھے لیکن ان کے سامنے اوقاف ملازم اور ٹھیکیدار تاجو رنگ ایک دوسرے کو مغلظات بکتے رہے۔ بعدازاں گدی نشین کے فرزند خاور شاہ نے فریقین کا جھگڑا ختم کرایا اور ایک گروپ کے فوٹو گرافر پر پابندی عائد کر دی اور انھیں درگاہ سے نکال دیا، بعد میں فوٹو گرافروں نے کہا کہ گدی نشین کا بیٹا سالانہ ٹھیکے کے 35 لاکھ روپے بھی لے چکا ہے جبکہ خاور شاہ نے کہا کہ انھوں نے اتنے پیسے نہیں لیے۔ دوسری جانب درگاہ کے ولی عہد سید وقار حسین شاہ نے کہا کہ لوگوں نے درگاہ کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے یہاں پر روحانی سکون کے لیے بہت کم لوگ آتے ہیں جو آتے ہیں انھیں بھی پریشان کیا جاتا ہے۔