سندر پچائی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی کا سی ای او

انڈیا کے پسماندہ ترین علاقے سے تعلق رکھنے والا انجینئر گوگل کا سی ای او اور ارب پتی کیسے بنا؟

انڈیا کے پسماندہ ترین علاقے سے تعلق رکھنے والا انجینئر گوگل کا سی ای او اور ارب پتی کیسے بنا؟ ۔ فوٹو : فائل

اگر دنیا کی سب سے طاقتور شخصیات کی فہرست مرتب کی جائے تو وہ 'سندر پچائی' کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہو گی۔

انڈیا کے ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے سندر پچائی آج گوگل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ سندر پچائی کی دولت کا تخمیہ 2022 میں 1.367ارب ڈالر لگایا گیا ہے، یعنی یہ نہ صرف دنیا کے امیر ترین انسانوں کی فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں، بلکہ انہیں دنیا کا سب سے زیادہ تنخواہ لینے والا انسان ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

ان کی ماہانہ تنخواہ 242ملین ڈالر یعنی پاکستانی 19ارب روپے سے بھی زائد ہے۔ یہ بات جان کر یقینا آپ بھی حیران ہوں کہ آخر کسی شخص کی تنخواہ اتنی زیادہ کیسے ہو سکتی ہے اور یہ شخص اتنی زیادہ دولت کا آخر کرتا کیا ہو گا؟، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ انڈیا کے ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان آخر کس طرح آج اس مقام پر پہنچا کہ اس کے ماتحت ڈیڑھ لاکھ سے زائد ملازمین کام کر رہے ہیں۔

سندر پچائی 10جون 1975کو چنائی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد رگو ناتھ ایک پرائیویٹ کمپنی میں جونیئر الیکٹریکل انجینئر تھے۔ اس خاندان کے پاس کل ملا کر دو کمروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا گھر تھا، اس گھر میں سے بھی ایک کمرہ سندر پچائی کے والد نے کرائے پر دے رکھا تھا جبکہ دوسرے کمرے میں پورا خاندان رہا کرتا تھا۔

ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے سندر پچائی کو ہمیشہ سے اخراجات کے مسائل کا سامنا رہا، لیکن کیونکہ سندر پڑھائی میں اچھے تھے، اس لیے اِنہیں پہلے ایک اچھے کالج اورپھر آئی آئی ٹی کھڑگ پوریونیورسٹی میں بھی سکالر شپ مل گئی۔

یہاں سے انہو ںنے بہترین نمبروں کے ساتھ فرسٹ ڈویژن میں بی ٹیک میٹل لورجیکل انجینئرنگ کی۔ جس کے بعد وہ وقت آ گیا جس کا سندر کوہمیشہ سے انتظارتھا، انہیں امریکا کی سٹینڈ فورڈ یونیورسٹی میں فل سکالرشپ مل گئی۔

اچھی بات یہ تھی کہ سٹینڈ فورڈ یونیورسٹی سندر کے کھانے اوررہائش کے اخراجات سمیت تمام تعلیمی اخراجات اٹھا رہی تھی، لیکن امریکا آنے جانے کا ٹکٹ اور ویزے کا خرچ سندر نے خود ہی برداشت کرنا تھا۔ اب سندر کے والد جو 2ہزا ر روپے ماہوارپر نوکری کرتے تھے اور بمشکل گھریلو اخراجات پورے کرتے تھے، وہ آخر کیسے بیٹے کو امریکا بھیج سکتے تھے۔

ایسے میں سندر کے والد نے اپنی کمپنی کے مالک سے بات کی اور ان سے اپنے بیٹے کی ٹکٹ کیلئے رقم ادھار دینے کی درخواست کی۔

سندر کی قسمت اچھی تھی کہ اِن کے والد رقم کا بندوبست کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ سندر پچائی چاہتے تھے کہ وہ اپنی والدہ کو اپنے ساتھ امریکا لے جائیں، لیکن صرف ایک ٹکٹ کے پیسوں کا بندوبست ہونے کی وجہ سے وہ اپنی والدہ کوساتھ نہ لے جا سکے۔ اس وقت سندر کے والد نے امریکا جانے والی فلائیٹ کی ٹکٹ کے لیے اپنی سال بھر کی کمائی خرچ کر دی تھی، اور آج سندر پچائی کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ پوری ایئرلائن خرید سکتے ہیں۔

بہرحال اپنی امریکا کی فلائیٹ سے قبل جب سندر پچائی نے سٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کی شرائط و ضوابط کو دیکھا تو اس میں لکھا تھا کہ طالب علم کو اپنے تعلیم سے متعلق چند مخصوص سٹیشنری ، کتابیں اوردیگر سامان ساتھ لے کر آنا تھا، سندر کے والد نے اپنی پوری ایک ماہ کی تنخواہ بیٹے کی چیزوں کو مکمل کرنے میں خرچ کر دی۔

سندر پچائی کے والد بتاتے ہیں کہ ان کے بیٹے کوشروع سے ٹیکنالوجی میں کافی دلچسپی تھی اور تین چیزوں نے سندر کی زندگی بدل دی ،جو ہیں ٹیلیفون ، فریج اور سکوٹر۔ سندر نے بچپن میں اس بات پر غور کیا کہ ان کے والد پیدل چل کر کال کرنے کے لیے شہر جایا کرتے تھے، لیکن جب ان کے گھر میں ٹیلی فون کا کنکشن آگیا تو یہ پیدل چلنے کی محنت اور ٹائم دونوں بچ گئے۔

اسی طرح انہوں نے دیکھا کہ ان کی والدہ گھر کی صفائی ستھرائی کے کام میں مصروف ہونے کے ساتھ ساتھ بار بار باہر جا کر کھانے پکانے کا تازہ سامان لاتیں، اور اسے پکاتی۔ فریج نہ ہونے کی وجہ سے چیزوں کی تازگی برقراررکھنا کیونکہ مشکل ہوتا تھا، اس لیے بازار سے تازہ چیزیں ہی خریدنا ممکن تھیں، لیکن جب ان کے گھر فریج آیا تو یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا اور اب سندرکی والدہ کو باربار گھر سے باہر نہیں جانا پڑتا تھا ۔

اسی طرح جب انہوں نے دیکھا کہ والد کے پاس سکوٹر آنے کے بعد انہیں دفتر آنے جانے میں کافی آسانی ہوتی ہے تو انہیں بچپن میں ہی اس بات کا ادراک ہو گیا کہ ٹیکنالوجی انسانی زندگی میں نہ صرف آسانیاں لا سکتی ہے، بلکہ وقت کوبچانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آج گوگل کا سی ای او بننے کے بعد سندر پچائی کہتے ہیں کہ ''ہم گوگل میں ایسی پروڈکٹ بناتے ہیں جو وقت بچاتی ہے۔'' یعنی انہوں نے اپنے بچپن کے تجربے کی بنیاد پر گوگل میں نئی ٹیکنالوجیز ڈیزائن کیں۔

سندر پچائی سے متعلق ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے جب گوگل جوائن کیا تو اسی دوران بل گیٹس کی کمپنی مائیکرو سافٹ بھی ان پر نظر رکھے ہوئے تھی۔

مائیکروسافٹ کی جانب سے 2010 میں سندر پچائی کو آفر کی گئی کہ وہ ان کی کمپنی کے سی ای او بن جائیں، سندر پچائی گوگل میں اپنے باس کے پاس آئے اورانہیں بتایا کہ مائیکرو سافٹ انہیں سی ای او بنانا چاہتا ہے۔

ان کے باس نے سوچا کہ کہیں سندر انہیں دھمکی تو نہیں دے رہا، تو اس مسئلے کے حل کے طور پر انہوں نے گوگل کے دنیا بھرمیں موجود مختلف آفیسز میں سندر پچائی سے متعلق ایک سروے کروایا، جس میں پوچھا گیا کہ کیا گوگل کمپنی سندر کے بغیر چل سکتی ہے۔

اس زمانے میں 1لاکھ 35ہزار ملازمین میں سے 1لاکھ 34ہزار نے کہاکہ سندر کے بغیر کمپنی کا چل پانا مشکل ہے۔ اس سروے کا مکمل ہونا تھا، گوگل نے نہ صرف سندر پچائی کو گوگل کا سی ای او بنا دیا،بلکہ انہیں 50ملین ڈالرز بطور انعام بھی دیے۔


سندر پچائی بتاتے ہیں کہ میں جتنی بار گوگل سے استعفیٰ دیتا تھا اور کسی اور کمپنی میں جانے کا ارادہ کرتا تھا، وہ اتنی ہی مرتبہ مجھے آفس میں ترقی دے دیتے اور میری تنخواہ بڑھا دیتے، جس کی وجہ سے میں کبھی گوگل چھوڑ ہی نہیں پایا۔

ویسے میں پڑھنے والوں کو مشورہ دوں گا کہ آپ ایسا ہر گز نہ کریں، یہ سوچ کر کہ سندر پچائی استعفیٰ دے رہا ہے تو ہم بھی کوشش کرتے ہیں، بھئی! پہلے سندر پچائی بننا پڑتا ہے، پھر جا کر بندہ کسی کمپنی کا سی ای او بنتا ہے۔ آج سندر پچائی کو گوگل کی جانب سے اتنی زیادہ تنخواہ دی جا رہی ہے کہ کوئی اور کمپنی تو سندر پچائی کواپنے ہاں ملازمت پر رکھنے کے حوالے سے سوچ بھی نہیں سکتی۔

اب آپ کو مشاہدے observationکی اہمیت کے حوالے سے بتاتا ہوں کہ زندگی میں یہ چیز کتنی اہمیت رکھتی ہے۔ اور اس صلاحیت کے بل بوتے پر سندر پچائی نے گوگل میں ایسی ایسی حیران کن ایجادات کیں کہ آج پوری دنیا ان سے مستفید ہو رہی ہے۔

سندر ایک دن امریکا کی سیلی کان ویلی میں اپنے کسی دوست کے ہاں تقریب میں شرکت کے لیے جا رہے تھے، ان کی بیوی تقریب میں پہلے ہی پہنچ چکی تھی، لیکن آفس سے واپسی پر سندر راستہ بھٹک گئے اورتقریب میں بر وقت شرکت نہ کر سکے۔

اب جب یہ تقریب میں پہنچے تو تقریب کو ختم ہوئے دو گھنٹے گزر چکے تھے اور ان کی اہلیہ بھی اوبر کے ذریعے گھر پہنچ چکی تھیں، جب یہ گھر آئے تو ان کی بیوی ان پر خوب غصہ ہوئی، جس کے بعد یہ اسی رات گھر پر رکنے کے بجائے اپنے آفس میں چلے گئے۔

یہاں آکر انہوں نے سوچا کہ میں راستہ کیوں بھٹک گیا اور میری طرح دنیا میں کئی لاکھ یا کروڑوں لوگ روزانہ راستہ بھٹک جاتے ہوں گے۔

اگلی صبح انہوں نے اپنی پوری گوگل ٹیم کو بلا لیا اور ان سے کہا کہ کیا ہم کچھ ایسا کر سکتے ہیں کہ آن لائن نقشہ بنا کر لوگوں کی مدد کر سکیں۔ سندر نے آن لائن نقشہ بنانے کیلئے باقاعدہ ایک ٹیم تشکیل دی اور جب اس ویب سائٹ کی کوڈنگ وغیرہ مکمل ہوئی تو 2005میں آن لائن نقشہ فراہم کرنے والی اس سروس کو ''گوگل میپ'' کا نام دیا گیا۔ جو آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی ایپلی کیشنز میں سے ایک ہے، حال ہی میں گوگل کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ گوگل میپ 1ارب سے زائد لوگ استعمال کر رہے ہیں۔

اسی طرح ایک روز سندر پچائی اخبار پڑھ رہے تھے کہ ان کی بیٹی ان کے پاس ایک پھول لے آئی اور پوچھا کہ اس کا نام کیا ہے، سندر نے جواب دیا کہ وہ نہیں جانتے، ان کی بیوی نے دوسرا پھول سامنے رکھا اور پوچھا کہ چلیں اس کا نام بتا دیں، سندر پھر لاجواب۔۔ بیٹی نے بڑا سخت جواب دیا کہ کہنے کو تو آپ آئی آئی ٹی اور سٹینڈ فورڈ سے پڑھے ہیں، لیکن آپ کو پھولوں کا بھی نہیں پتا۔ بیٹی کے اس جواب پر سندر نے سوچا کہ وہ اتنے پڑھے لکھے ہونے کے باوجود ان سوالوں کا جواب نہیں جانتے تو عام لوگوں کا کیا بنے گا۔

بس اسی روز انہوں نے گوگل میں 20 لوگوں کی ایک ٹیم بنا ئی اور کہا کہ ایک ایسی ایپلی کیشن بناتے ہیں جس کے ذریعے کسی بھی چیز کو سکین کیا جا سکے اور پھر موبائل میں اس چیز سے متعلق تمام معلومات سامنے آ جائے۔ آگے چل کر گوگل لینز اس قدر کامیاب ہوا کہ آج اس کے دنیا بھر میں کروڑوں صارفین موجود ہیں۔

آج سندر پچائی نے گوگل کو اس قدر طاقتور بنا دیا ہے کہ وہ یہ بات دعویٰ کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر آپ نے کوئی چیز گوگل پر سرچ کی اور اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز انٹرنیٹ پر موجود ہی نہیں ہے۔

سندر پچائی کو اُن کی زندگی کا سب سے بڑا بریک تھرو اُس وقت ملا، جب انہوں نے 2008گوگل کروم لانچ کیا۔ گوگل کروم کو سندر پچائی کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں نہ صرف امریکا، بلکہ دنیا بھر میں غیر معمولی مقبولیت ملی۔ سندر کی جانب سے گوگل کروم کے لانچ کیے جانے کے بعد سے اب تک گوگل کروم دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن رہا ہے۔

لیکن ایسا نہیں ہے کہ سندر کو یہ تمام کامیابی راتوں رات مل گئیں، بلکہ انہیں بہت سی ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔2005میں جب انٹرنیٹ ایکسپلورر Internet Explorer اور اس میں استعمال ہونے والا سرچ انجن بینگBingدنیا میں سب سے زیادہ مقبول براوزر اور سرچ انجن ہوا کرتے تھے، تو اس وقت سندر کی گوگل کمپنی میں یہ ذمہ داری تھی کہ وہ مارکیٹ میں پہلے سے موجود انٹرنیٹ ٹیکنالوجیز کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے حل تجویز کریں۔ مائیکروسافٹ کمپنی کے انٹرنیٹ ایکسپلورر کا مقابلہ کرنے کے لیے سندر پچائی نے مشورہ دیا کہ ''گوگل ٹول بار' کے نام سے ایک ایسا سافٹ ویئر متعارف کرایا جائے جسے انٹرنیٹ براؤذر میں ڈائریکٹ انسٹال کیا جا سکے۔

یہ سافٹ ویئر بنا بھی لیا گیا اور اسے لانچ بھی کر دیا گیا، لیکن یہ صارفین میں مقبولیت نہیں پا سکا۔ سندر پچائی کیلئے یہ کسی صدمے سے کم نہ تھا، کیونکہ جس پروجیکٹ پر انہوں نے اتنی محنت کی تھی اور جس پر اُن کی نوکری کا مکمل انحصار تھا، وہ مارکیٹ میں بری طرح پٹ گیا تھا۔ لیکن سندر نے ہار نہ مانی، بلکہ جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔

دوسری طرف گوگل نے بھی سندر کو ایک اور موقع دینے کافیصلہ کیا۔ اس مرتبہ سندر ایک بڑے منصوبے کے ساتھ واپس آئے۔ سندر نے گوگل کمپنی کے اُس وقت کے سی ای او ایرک کو مشورہ دیا کہ کیوں نہ گوگل کا اپنا براؤزر بنا لیا جائے، جو دیگر تمام براؤزرز کا مقابلہ کر سکے۔ اس فیصلے کو گوگل کے بیشتر ملازمین اور یہاں تک کہ کمپنی کے سی ای او نے بھی مسترد کر دیا۔ کیونکہ یہ اربوں روپے کا پروجیکٹ تھا اور بیک وقت رسکی بھی تھا۔

اب یہاں کوئی عام بندہ ہوتا تو وہ ہار مان کر بیٹھ جاتا کہ کمپنی کے سی ای اونے ہی ایک پروجیکٹ مسترد کر دیا ہے تو اُس پر کام کرنے کا سوچنا ہی بے وقوفی ہے، لیکن یہ سندر پچائی تھے، جنہوں نے ہمت سے کام لیااور براہ راست گوگل کے بانی لیری پیج اور سرگے برین سے رابطہ کیا اور آخر کار 2008 میں سندر پچائی کو لیری پیج کی جانب سے گوگل کے اپنے ذاتی براؤزر کے منصوبے پر کام کرنے کی اجازت مل گئی۔

سندر پچائی نے 2008 میں ہی انٹرنیٹ ایکسپلورر کے مقابلے میں گوگل کروم کو کامیابی سے لانچ کیا ۔ اور آج دنیا نے یہ وقت بھی دیکھ لیا ہے کہ 'انٹرنیٹ ایکسپلورر' کو صرف 'گوگل کروم' کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ نتیجہ ہوتا ہے ، ہمت ، عزم اورکبھی ہار نہ ماننے کا۔

سندر پچائی کہتے ہیں کہ ناکامی اُس وقت کافی فائدے مند ثابت ہوتی ہے جب آپ اُس سے کوئی سبق سیکھتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ ناکامی اُس وقت تک بہترین چیز ہے جب تک آپ اِسے اپنی عادت نہ بنا لیں۔

وہ کہتے ہیں کہ بڑے خواب دیکھنا کامیابی کی کنجی ہوتا ہے، لیکن اِن خوابوں کوحقیقت کے سانچے میں ڈھالنے کیلئے کوشش نہ کرنا، منزل کے حصول کو نا ممکن بنا دیتا ہے۔یاد رکھیں کہ کامیابی ہمیشہ اُن لوگوں کو ملتی ہے جو سخت محنت کرتے ہیں، نا کہ انہیں جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے درست وقت کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
Load Next Story