پاکستانی سائنسدانوں نے چائے کی استعمال شدہ پتی سے ماحول دوست کوانٹم ڈاٹس بنالیے
گرافین کوانٹم ڈاٹس کو حیاتیاتی اور ماحولیاتی نظام میں بطور سینسر استعمال کیا جاسکتا ہے
پاکستانی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے استعمال شدہ چائے کی پتی سے روشنی دینے والے گرافین کوانٹم ڈاٹس بنائے ہیں جنہیں مختلف کیفیات میں لوہے کی موجودگی یا اس کے ذرات کی نشاندہی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
برطانیہ میں نیوکاسل یونیورسٹی سے وابستہ پی ایچ ڈی اسکالراورآکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے ماحول دوست طریقے سے گرافین کوانٹم ڈوٹس (جی کیو ڈی) بنائے ہیں جو نہ صرف پانی بلکہ پارکنسن اور الزائیمر کے مریضوں میں لوہے کی موجودگی شناخت کرسکتے ہیں۔ اس طرح انہیں سینسر کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے جن میں کئی طبی اطلاقات بھی شامل ہیں۔
ماہرین نے بہت ہی باریک ذرات گرافین نامی مٹیریئل سے بنائے ہیں جو 2004 میں دریافت ہوا تھا۔ گرافین عام کاربن کی بہروپی (الوٹروپ) شکل ہے۔ انگوٹھی میں ہیرا اور انگیٹھی کا کوئلہ ، دونوں ہی کاربن پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن ان کے درمیان اشکال اور ایٹموں کی ترتیب کا فرق ہوتا ہے۔ یعنی اگر آپ گریفائٹ کی ایک ٹکڑے سے ٹیپ چپکاکر اسے اٹھائیں تو ٹیپ پر گرافین چپکی مل جائے گی۔
حیرت انگیز طور پر گرافین کی دریافت کو نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ تب سے اب تک مٹیریئل سائنس، طب، اسے ادویہ سازی اور دیگر شعبوں میں آزمایا جارہا ہے۔ دنیا بھر کے سائنسداں اور انجینیئر گرافین کو جادوئی شے قرار دیتے ہیں اور اسے حسبِ ضرورت تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ مارچ 2018 میں میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے سائنسداں، پابلو ہاریلو ہریرہ نے دریافت کیا کہ اگر گرافین کی صرف ایک ایٹم موٹی چادر دوسری ایسی ہی پرت پر خاص زاویئے سے ترچھی کرکے رکھی جائے توحیرت انگیز طور پر سپرکنڈکٹوٹی (موصلیت) پیدا ہوجاتی ہے۔ عین اسی طرح پاکستانی سائنسدانوں کی ٹیم بھی جی کیو ڈی میں دمک یا روشنی پیدا کرنا چاہتی تھی۔
یہ گرافین کوانٹم ڈاٹس میں چمک کی سعی کی تاہم گرافین میں 'بینڈ گیپ' اور توانائی گیپ نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ان میں چمک پیدا نہیں ہوتی۔ عنبر عباس اور ان کے ٹیم نے اس کے لیے کئی تدابیر آزمائیں۔
'ایک بڑا چیلنج یہ تھا کہ گرافین میں صفر بینڈ گیپ کی وجہ سے اس میں بصری اخراج (آپٹیکل ایمیشن) نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ اس میں کوئی چمک پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے لیے ہم نے گرافین شیٹ کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اور یوں ان میں بینڈ گیپ بن گیا۔ اس کے نتیجے میں گرافین کے چھوٹے ٹکڑوں سے روشنی خارج ہونے لگی،' عنبر عباس نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم یہ جدید مادہ بہت ہی کم خرچ طریقے سے بنانا چاہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے 'سیاہ چائے کا استعمال شدہ پھوگ' آزمایا ہے۔
گرافین کوانٹم ڈاٹس کی تیاری
اسکالروں نے سب سے پہلے استعمال شدہ چائے کی پتی کو 500 درجے سینٹی گریڈ پر گرم کیا اور جس سے وہ بھسم ہوکر سوختہ ہوگیا۔ اب یہ ایک بایوچار کی صورت میں تبدیل ہوگیا جسے بلند دباؤ کے ایک بند نظام میں 200 سے 250 درجے سینٹی گریڈ پر مزید گرم کیا گیا لیکن اس میں ایک قسم کا کیمیکل (آکسون) بھی ملایا گیا۔ جب ری ایکشن مکمل ہوگیا تو اسے فلٹر سے گزارا گیا جس میں گرافین کے چھوٹے ٹکڑے بن گئے۔ فلٹر شدہ مائع میں نینوجسامت کی گرافین پرتیں بنیں جن سے روشنی خارج ہورہی تھی جو اس بات کا ثبوت تھے کہ گرافین میں بینڈ گیپ بن چکا ہے۔ اس طرح سائنسدانوں نے گرافین کوانٹم ڈوٹس کو ایک طرح کے سینسر میں تبدیل کردیا۔
اگلے مرحلے میں کوانٹم ڈاٹس کی جسامت، ساخت، معیارات اور دیگرکیفیات کو نوٹ کیا گیا ۔ جدید ترین آلات مثلاً ٹرانسمیشن اور ہائی ٹرانسمیشن الیکٹرون مائیکرواسکوپ (ٹی ای ایم)، اٹامک فورس مائیکرواسکوپی (اے ایف ایم) اور فوریئر ٹرانسفارم انفراریڈ (ایف ٹی آئی آر) اسپیکٹرواسکوپی (طیف نگاری) سے مدد لی گئی۔
نیلی روشنی اور سینسر
تمام معیارات اور آلات سے ثابت ہوا کہ بننے والا ایک ڈاٹ یا ذرہ 1 سے 5 نینومیٹر جسامت کا تھا جس کی موٹائی ایک نینومیٹر نوٹ کی گئی۔ یہ ذرات اتنے باریک ہے کہ اگر ایک کے بعد ایک قطار میں ایک ارب ڈاٹس رکھے جائیں تو وہ مل کر ایک میٹر لمبی لکیر بنائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی جسامت کے نقاط نینومیٹرذرات بھی کہلاتے ہیں۔ کیونکہ ان کی جسامت ایک میٹر کے اربویں حصے کے برابر ہوتی ہےاور اسی مناسبت سے انہیں نینومیٹر یا نینوذرات کہا جاتا ہے۔
اس کیفیت میں بنائے گئے جی کیو ڈی لوہے یا اس کی مختلف حالتوں کی موجودگی کا پتہ دے سکتےہیں کیونکہ ہر ذرے سے نیلی روشنی پھوٹتی ہے اور یوں انہیں سینسر کی شکل میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ جیسے ہی ان کے گرد لوہے کے سالمات لائے جاتے ہیں ان کی روشنی بند ہوجاتی ہے۔
گرافین کوانٹم ڈاٹس کو 17 مختلف دھاتوں کے آئن پر آزمایا گیا جنہیں پانی میں گھولا گیا تھا۔ تاہم لوہے کی موجودگی میں ان کی روشنی یا دمک سے سے زیادہ بند ہوگئی اور اسطرح ہرذرہ ایک سینسر بنایا جاسکتا ہے جو لوہے کی موجودگی ثابت کرتا ہے کیونکہ انہوں کوانٹم ڈاٹس نے سب سے زیادہ ردِ عمل لوہے کی موجودگی میں ہی ظاہر کیا ۔ اس طرح حیاتیاتی اور ماحولیاتی نظام میں موجودگی کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔
حال ہی میں لندن کے زیرِ زمین ریلوے اسٹیشن کے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ وہاں مختلف دھات کے انتہائی باریک ذرات موجود ہیں جو وہاں کی فضا میں شامل ہوچکے ہیں اور انسانی جسم میں سرایت کرسکتے ہیں۔ ان میں سے نصف ذرات لوہے پر مشتمل ہیں اور اس تناظر میں یہ اہم ایجاد ان کی شناخت میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ دماغی و اعصابی خلیات میں لوہے کی موجودگی سے اکتسابی صلاحیت کم ہوتی ہیں جو آگے چل کر الزائیمر اور ڈیمنشیا کی وجہ بھی بن سکتی ہیں۔ دوسری جانب ماحول، فضا اور آبی ذخائر میں بھی لوہے کے ذرات کئی طرح کی پیچیدگیوں اور امراض کی وجہ بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نئی ایجاد لوہے کی شناخت کرسکتی ہے اور اس کے کئی اہم استعمال بھی کئے جاسکتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستانی ماہرین نے کم خرچ، آسان، اور انتہائی ماحول دوست طریقے سے جی کیو ڈی بنائے ہیں۔ اس کی تیاری میں پہلے تیزاب استعمال کیے جاتے تھے جن کی اب کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ ان کا خام مال استعمال شدہ چائے کی شکل میں دنیا بھر میں عام دستیاب بھی ہے۔ یہ تحقیق ایک اوپن سورس جنرل نینومٹیریلز میں شائع ہوئی ہے۔
سائنسدانوں کی اس ٹیم کےدیگر اراکین میں چیجی لیانگ، سلیم عباس، مریم لیاقت، شبنم رباب اور تنویر تابش شامل ہیں۔
برطانیہ میں نیوکاسل یونیورسٹی سے وابستہ پی ایچ ڈی اسکالراورآکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے ماحول دوست طریقے سے گرافین کوانٹم ڈوٹس (جی کیو ڈی) بنائے ہیں جو نہ صرف پانی بلکہ پارکنسن اور الزائیمر کے مریضوں میں لوہے کی موجودگی شناخت کرسکتے ہیں۔ اس طرح انہیں سینسر کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے جن میں کئی طبی اطلاقات بھی شامل ہیں۔
ماہرین نے بہت ہی باریک ذرات گرافین نامی مٹیریئل سے بنائے ہیں جو 2004 میں دریافت ہوا تھا۔ گرافین عام کاربن کی بہروپی (الوٹروپ) شکل ہے۔ انگوٹھی میں ہیرا اور انگیٹھی کا کوئلہ ، دونوں ہی کاربن پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن ان کے درمیان اشکال اور ایٹموں کی ترتیب کا فرق ہوتا ہے۔ یعنی اگر آپ گریفائٹ کی ایک ٹکڑے سے ٹیپ چپکاکر اسے اٹھائیں تو ٹیپ پر گرافین چپکی مل جائے گی۔
حیرت انگیز طور پر گرافین کی دریافت کو نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ تب سے اب تک مٹیریئل سائنس، طب، اسے ادویہ سازی اور دیگر شعبوں میں آزمایا جارہا ہے۔ دنیا بھر کے سائنسداں اور انجینیئر گرافین کو جادوئی شے قرار دیتے ہیں اور اسے حسبِ ضرورت تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ مارچ 2018 میں میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے سائنسداں، پابلو ہاریلو ہریرہ نے دریافت کیا کہ اگر گرافین کی صرف ایک ایٹم موٹی چادر دوسری ایسی ہی پرت پر خاص زاویئے سے ترچھی کرکے رکھی جائے توحیرت انگیز طور پر سپرکنڈکٹوٹی (موصلیت) پیدا ہوجاتی ہے۔ عین اسی طرح پاکستانی سائنسدانوں کی ٹیم بھی جی کیو ڈی میں دمک یا روشنی پیدا کرنا چاہتی تھی۔
یہ گرافین کوانٹم ڈاٹس میں چمک کی سعی کی تاہم گرافین میں 'بینڈ گیپ' اور توانائی گیپ نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ان میں چمک پیدا نہیں ہوتی۔ عنبر عباس اور ان کے ٹیم نے اس کے لیے کئی تدابیر آزمائیں۔
'ایک بڑا چیلنج یہ تھا کہ گرافین میں صفر بینڈ گیپ کی وجہ سے اس میں بصری اخراج (آپٹیکل ایمیشن) نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ اس میں کوئی چمک پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے لیے ہم نے گرافین شیٹ کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اور یوں ان میں بینڈ گیپ بن گیا۔ اس کے نتیجے میں گرافین کے چھوٹے ٹکڑوں سے روشنی خارج ہونے لگی،' عنبر عباس نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم یہ جدید مادہ بہت ہی کم خرچ طریقے سے بنانا چاہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے 'سیاہ چائے کا استعمال شدہ پھوگ' آزمایا ہے۔
گرافین کوانٹم ڈاٹس کی تیاری
اسکالروں نے سب سے پہلے استعمال شدہ چائے کی پتی کو 500 درجے سینٹی گریڈ پر گرم کیا اور جس سے وہ بھسم ہوکر سوختہ ہوگیا۔ اب یہ ایک بایوچار کی صورت میں تبدیل ہوگیا جسے بلند دباؤ کے ایک بند نظام میں 200 سے 250 درجے سینٹی گریڈ پر مزید گرم کیا گیا لیکن اس میں ایک قسم کا کیمیکل (آکسون) بھی ملایا گیا۔ جب ری ایکشن مکمل ہوگیا تو اسے فلٹر سے گزارا گیا جس میں گرافین کے چھوٹے ٹکڑے بن گئے۔ فلٹر شدہ مائع میں نینوجسامت کی گرافین پرتیں بنیں جن سے روشنی خارج ہورہی تھی جو اس بات کا ثبوت تھے کہ گرافین میں بینڈ گیپ بن چکا ہے۔ اس طرح سائنسدانوں نے گرافین کوانٹم ڈوٹس کو ایک طرح کے سینسر میں تبدیل کردیا۔
اگلے مرحلے میں کوانٹم ڈاٹس کی جسامت، ساخت، معیارات اور دیگرکیفیات کو نوٹ کیا گیا ۔ جدید ترین آلات مثلاً ٹرانسمیشن اور ہائی ٹرانسمیشن الیکٹرون مائیکرواسکوپ (ٹی ای ایم)، اٹامک فورس مائیکرواسکوپی (اے ایف ایم) اور فوریئر ٹرانسفارم انفراریڈ (ایف ٹی آئی آر) اسپیکٹرواسکوپی (طیف نگاری) سے مدد لی گئی۔
نیلی روشنی اور سینسر
تمام معیارات اور آلات سے ثابت ہوا کہ بننے والا ایک ڈاٹ یا ذرہ 1 سے 5 نینومیٹر جسامت کا تھا جس کی موٹائی ایک نینومیٹر نوٹ کی گئی۔ یہ ذرات اتنے باریک ہے کہ اگر ایک کے بعد ایک قطار میں ایک ارب ڈاٹس رکھے جائیں تو وہ مل کر ایک میٹر لمبی لکیر بنائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی جسامت کے نقاط نینومیٹرذرات بھی کہلاتے ہیں۔ کیونکہ ان کی جسامت ایک میٹر کے اربویں حصے کے برابر ہوتی ہےاور اسی مناسبت سے انہیں نینومیٹر یا نینوذرات کہا جاتا ہے۔
اس کیفیت میں بنائے گئے جی کیو ڈی لوہے یا اس کی مختلف حالتوں کی موجودگی کا پتہ دے سکتےہیں کیونکہ ہر ذرے سے نیلی روشنی پھوٹتی ہے اور یوں انہیں سینسر کی شکل میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ جیسے ہی ان کے گرد لوہے کے سالمات لائے جاتے ہیں ان کی روشنی بند ہوجاتی ہے۔
گرافین کوانٹم ڈاٹس کو 17 مختلف دھاتوں کے آئن پر آزمایا گیا جنہیں پانی میں گھولا گیا تھا۔ تاہم لوہے کی موجودگی میں ان کی روشنی یا دمک سے سے زیادہ بند ہوگئی اور اسطرح ہرذرہ ایک سینسر بنایا جاسکتا ہے جو لوہے کی موجودگی ثابت کرتا ہے کیونکہ انہوں کوانٹم ڈاٹس نے سب سے زیادہ ردِ عمل لوہے کی موجودگی میں ہی ظاہر کیا ۔ اس طرح حیاتیاتی اور ماحولیاتی نظام میں موجودگی کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔
حال ہی میں لندن کے زیرِ زمین ریلوے اسٹیشن کے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ وہاں مختلف دھات کے انتہائی باریک ذرات موجود ہیں جو وہاں کی فضا میں شامل ہوچکے ہیں اور انسانی جسم میں سرایت کرسکتے ہیں۔ ان میں سے نصف ذرات لوہے پر مشتمل ہیں اور اس تناظر میں یہ اہم ایجاد ان کی شناخت میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ دماغی و اعصابی خلیات میں لوہے کی موجودگی سے اکتسابی صلاحیت کم ہوتی ہیں جو آگے چل کر الزائیمر اور ڈیمنشیا کی وجہ بھی بن سکتی ہیں۔ دوسری جانب ماحول، فضا اور آبی ذخائر میں بھی لوہے کے ذرات کئی طرح کی پیچیدگیوں اور امراض کی وجہ بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نئی ایجاد لوہے کی شناخت کرسکتی ہے اور اس کے کئی اہم استعمال بھی کئے جاسکتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستانی ماہرین نے کم خرچ، آسان، اور انتہائی ماحول دوست طریقے سے جی کیو ڈی بنائے ہیں۔ اس کی تیاری میں پہلے تیزاب استعمال کیے جاتے تھے جن کی اب کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ ان کا خام مال استعمال شدہ چائے کی شکل میں دنیا بھر میں عام دستیاب بھی ہے۔ یہ تحقیق ایک اوپن سورس جنرل نینومٹیریلز میں شائع ہوئی ہے۔
سائنسدانوں کی اس ٹیم کےدیگر اراکین میں چیجی لیانگ، سلیم عباس، مریم لیاقت، شبنم رباب اور تنویر تابش شامل ہیں۔