بیادِ قائد اعظم

tanveer.qaisar@express.com.pk

پاکستان میں بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ پر جو تحقیقی اور تاریخی کام تنِ تنہا جناب منیر احمد منیر کررہے ہیں ، یہ کام دراصل انسٹی ٹیوٹس اور اداروں کے کرنے کا ہے ۔ایسے ادارے جن کے پاس بھاری افرادی قوت بھی ہو اور جن کے پاس بھاری سرکاری مالی وسائل بھی ہوں۔

بد قسمتی مگر یہ ہے کہ جن سرکاری اداروں کے پاس قائد اعظم کی عظیم اور بے مثل خدمات کا احاطہ کرنے اور اُنہیں کتابی شکل میں یکجا کرنے کے لیے وافر وسائل میسر ہیں، وہاں متعلقہ کام توقعات کے مطابق نہیں ہو رہا۔ بس بھاری اور پُر کشش تنخواہیں سمیٹی جا رہی ہیں اور وسائل سے انجوائے کیا جارہا ہے ۔

منیر احمد منیر صاحب مگر وَن مَین آرمی کی طرح مسلسل قائد اعظم علیہ رحمہ کی شخصیت، کردار، افکار اور قوم و ملک کے لیے اُن کی بے مثال خدمات کو سامنے لاتے جا رہے ہیں۔ کسی بھی سرکار، سرکاری ادارے اور سرکاری شخصیت سے صلے، انعام اور شاباش لینے کی خواہش اور تمنا کے بغیر ۔اور اب قائد اعظم کی محبت اور عشق میں مبتلا ہو کر وہ نئی کتاب سامنے لائے ہیں اور اس کا عنوان ہے:دی گریٹ لیڈر، جِلد چہارم!!

''دی گریٹ لیڈر ، جلد چہارم'' میں اِس امر کو خاص طور پر ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے کہ انٹرویو کے لیے جن 32افراد کا انتخاب کیا گیا ہے، ان میں بیشتر قائد اعظم کے سیاسی ہم سفر رہے ہیں ۔ ان سب محترم اور موقر شخصیات سے منیر احمد منیر خود ملے اور قائد اعظم کی ذاتِ گرامی سے وابستہ کئی قیمتی اور تاریخی یادیں ریکارڈ کر لیں۔اب یہ سب دل افروز یادیں کتابی شکل میں مرتب کر دی گئی ہیں ۔

یہ مواد تاریخ ساز بھی ہے اور دلنواز بھی۔ ان یادوں کو پڑھ کر قائد اعظم کے کردارو افکار سے محبت اور عقیدت مزید بڑھ جاتی ہے ۔ پاکستان سے وارفتگی اور عشق کا جذبہ بھی مزید قوی ہو جاتا ہے ۔

ان شخصیات ، جنھوں نے مصنف کے توسط سے قائد اعظم سے وابستہ یادوں کو ہمارے سامنے رکھا ہے،میں کچھ اسمائے گرامی یوں ہیں: خان بخت جمال خان، مولانا غلام مرشد، حسین ملک، بیگم رعنا لیاقت علی خان، حاجی عبدالستار حاجی اسحق سیٹھ، عاصم ملک، جسٹس (ر) محمد یعقوب خان، غلام صابر انصاری،چوہدری مشتاق محمد خان، سردار کریم نواز،کیپٹن (ر) انعام الحق، ڈاکٹر احمد حسن، ڈاکٹر فضل شاہ، حسین بیگ محمد، الحاجہ خورشید خانم، محمد حنیف منیار،بیگم خورشید آرا نواب صدیق علی خان، این ایچ ہاشمی، حافظ معراج دین، ایس حسن رضا، میر محمد اشرف، متین صدیقی، نور محمد جمال میمن، رضوان احمد، بیگم سید اشرف احمد بیرسٹر، پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی، نواب شمشاد علی خان،اقبال احمد خان، اسلم پرویز، بیگم وحیدہ نور احمد، کے ایچ خورشید اورچوہدری محمد حسین!! قائد اعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ کو متحدہ ہندوستان کے خواص و عوام مسلمانوں کی طرف سے کتنی اور کیسی محبت و محبوبیت ملتی تھی۔

اِس کی ایک ہلکی سی جھلک محترمہ بیگم وحیدہ نور احمد نے زیر نظر کتاب میں اپنے انٹرویو میں یوں بتائی ہے:'' قائد اعظم ؒ گوہاٹی (آسام کا دارالحکومت)میں ہمارے وسیع بنگلے پر(جو 20کنال پر مشتمل تھا) تشریف لائے تھے۔

ہمارے ہی بنگلے پر جناب قائد اعظم ڈھائی دن قیام پذیر رہے۔ آپ مقامی مسلمان خواتین سے ملنے ، بنگلے کے اندر ہی ایک کمرے میں تشریف لائے تو عورتیں اُن کے بُوٹوں کو ہاتھ لگا کر چومنا چاہتی تھیں۔

قائد اعظم مگر ہر بار اپنے قدم پیچھے کر لیتے تھے۔ جب اس احتیاط کے باوجود عورتیں باز نہ آئیں تو قائد اعظم ؒ نے سختی سے تمام خواتین کو ایسا کرنے سے منع کر دیا۔


جب قائد اعظم واپس اپنے کمرے میں تشریف لے گئے تو خواتین اُس دہلیز کو چومتی رہیں جہاں قائد اعظم کھڑے ہُوئے تھے''۔ ایسے محبوب لیڈر کو انگریز اور ہندو سامراج مل کر بھی بھلا کیسے شکست دے سکتے تھے؟یہ تاریخی واقعہ بیان کرنے والی وہی بیگم وحیدہ نور احمد صاحبہ ہیں جن کی صاحبزادی معروف گلوکارہ نیرہ نُور تھیں۔

مذکورہ کتاب میں شامل لاہور کے ایک معروف رئیس زادے اور پاکستان کے ایک معروف اداکار، اسلم پرویز، نے مصنف کو بتایا :'' مَیں لاہور میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے بروم ہوسٹل میں قائد اعظم کو نزدیک سے دیکھنے میں کامیاب رہا۔

اُن کے چہرے اور آنکھوں پر نظریں ٹِک نہیں سکتی تھیں۔ اتنا رعب اور پرسنیلیٹی کچھ مَیں نے اپنے دوست ، ذو الفقار علی بھٹو، میں دیکھی۔ لیکن بھٹو کے چہرے پر چھائی سمائل ایسی ہوتی تھی جس کے ذریعے وہ لوگوں کو کہہ دیتے تھے تم کیا ہو؟ جب کہ قائد اعظم کے چہرے کا یہ تھا کہ یہ آدمی کہہ رہاہے : آجاؤ میرے پیچھے ۔''

پاکستان کے پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ، آئین کی تقدیس اور عوامی ووٹ کی بے حرمتی کرنے والے جنرل ایوب خان کو ہمیشہ ہماری طاقتور اور بالادست قوتوںنے ''عظیم فوجی لیڈر'' اور ''پاکستان کا نجات دہندہ '' ثابت کرنے اور عوام کے ذہنوں میں راسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔

مگر ایوب خان کی اصلیت کیا تھی اور اُنہیں قیام ِ پاکستان کے وقت کن شدید ''بے قاعدگیوں'' اور ''قابلِ گرفت حرکات'' کے باعث قائد اعظم نے ناراض ہو کر مشرقی پاکستان بھیج دیا تھا، یہ افسوسناک واقعات بھی ہمیں زیر نظر کتاب میں ملتے ہیں۔

اور ان واقعات کی گواہی دو معروف شخصیات نے دی ہیں جو قائد اعظم کی معتمد شخصیات بھی تھیں اور جنھوں نے قائد اعظم کی قیادت میں تحریکِ پاکستان میں شاندار کردار بھی ادا کیا۔ یہ دو شخصیات ہیں : کے ایچ خورشید اور چوہدری محمد حسین۔ کے ایچ خورشید صاحب قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری رہنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں اور آپ آزاد کشمیر کے دو بار صدر بھی منتخب ہُوئے۔

حیرانی کی بات دیکھئے جس شخص( ایوب خان) کو نہائت نامناسب کردار کے کارن قائد اعظم نے سرزنش بھی کی اور اُن کا تبادلہ بھی مشرقی پاکستان کر دیا گیا، وہی شخص بعد ازاں پاکستان آرمی کا چیف بنا اور صدرِ پاکستان بھی بلکہ از خود فیلڈ مارشل بھی بن گیا۔ اور اُسی شخص کا بیٹا بعد ازاں پاکستان کا دو بار وفاقی وزیر بھی بنا اور اُس کا پوتا بھی وفاقی وزیر بننے میں کامیاب رہا۔

تحریکِ پاکستان کو کامیاب بنانے والے کیسے کیسے عظیم لوگ تھے ! خان بخت جمال خان ایسے بے لوث شخص تھے کہ قائد اعظم کی جھلک دیکھنے اور مسلم لیگ کے ہر اجلاس میں شرکت کے لیے اپنی زمین کا ایک کھیت ہر بار رہن رکھ دیتے ۔

رہن سے حاصل ہونے والی رقم سے سفر ، کھانا پینا اور رہائش کے اخراجات بھی پورا کرتے اور مسلم لیگ کو چندہ بھی دیتے۔ کتاب میں شامل مولانا غلام مرشد اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ مَیں نے جب بھی قائد اعظم کا نام لیا ، ہمیشہ ساتھ علیہ رحمہ ضرور کہا اور لکھا ہے ۔ اس محبت و احترام کے برعکس ہمارے ہاں کئی فیشنی لوگ ایسے بھی ملیں گے جو گاندھی جی کو تو ''مہاتما'' کہیں اور لکھیں گے لیکن قائد اعظم کو قائد اعظم کہنے اور لکھنے کی بجائے ''جناح صاحب'' کہنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔

پاکستان کو اللہ کی ایک عظیم نعمت سمجھنا اور دل سے قائد اعظم ؒ کو برصغیر کا سب سے بڑا سیاستدان کہنا ہے تو زیر نظر کتاب کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ایک ہزار روپے ہے اور یہ 03334332920پر فون کرکے حاصل کی جا سکتی ہے۔
Load Next Story