ایک عظیم قوم کی تعمیر
کالج میں اس دن لڑائی نے شدت اختیار کر لی تھی اور دو گروپس آپس میں دست و گریباں تھے، ٹیچرز کی بھی کوئی نہیں سن رہا تھا بات کوئی بڑی نہیں تھی ۔
کالج میں یوں تو سارے اسٹوڈنٹس متمول گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے مگر ایک سرکاری افسر کا بیٹا اپنے آپے میں نہیں تھا وہ اکثر اپنے باپ کے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتا اور دوسرے اسٹوڈنٹس سے حقارت سے بات کرتا اس کا اپنا ایک گروپ تھا جو اسی طرح کے لڑکوں پر مشتمل تھا مگر دوسرے گروپ میں عام اور نسبتا ذ را کم آمدنی والے مگر ذہین لڑکے تھے ان سے کسی چھوٹی سی بات پر بحث ہوئی اور امیر لڑکے نے سب کی نہ صرف بے عزتی کی بلکہ دھمکیاں بھی دیں،نہ جانے اس طرح کے جھگڑوں کا کیا انجام ہوتا ہے اور پڑھائی کتنی متاثر ہوتی ہے اس کا دارومدار والدین کی تربیت پر ہوتا ہے۔
یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ یہاں سماجی مسائل اور غریب امیر کی اتنی تفریق ہے کہ کبھی کبھی سانس لینا بھی دوبھر لگتا ہے کسی بھی معاشرے کے سماجی مسائل وہاں کے لوگوں کے رہن سہن اور تمیز و تہذیب کے بارے میں بتا رہے ہوتے ہیں۔
اس طرح کے مسائل عام آبادی کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیںغربت ہو ، شادی کے مسائل، لاقانونیت،یا بے روزگاری وغیرہ ،یہ سب نمایاں اثرات مرتب کرتے ہیں۔
بد قسمتی سے پاکستان ان سب مسائل کا شکار ہے اگرچہ یہ سب مسائل فطرت میں مختلف ہو سکتے ہیں،معاشی خدشات سے لے کر صحت عامہ اور سماجی بے ترتیبی تک ان اہم مسائل سے نمٹنا آسان نہیں ہے۔ان مسائل میں سر فہرست ،ناخواندگی، غربت ، بے روزگاری، زیادہ آبادی چائلڈ لیبر ، صحت کا ناقص انفرا اسٹرکچر ، نا انصافی اور معاشی عدم استحکام شامل ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ ریاست پاکستان ناخواندگی کو کم کرے گی اور تمام بچوں کو لازمی تعلیم مفت فراہم کرے گی اگر ہم پاکستان کے بڑے سماجی مسائل کو دیکھیں تو انسانی ترقی کی 2021 کی رپورٹ کہتی ہے کہ صرف پاکستان کی 59% کو خواندہ قرار دیا گیا ہے یہ 75 سالہ پرانے ملک کے لیے افسوس ناک صورت حال ہے۔
ناخواندگی کی بات کی جائے تو اس کی کچھ وجوہات ہیں جیسے پاکستان کے دور دراز کے علاقوں یعنی بلوچستان ، کے پی کے ، دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب و فاٹا میں تعلیم کے لحاظ سے آگاہی نہیں ہے۔سرکاری اور نجی تعلیم کے شعبوں میں تدریس کے مختلف ذرائع اور نصاب ،غیر پیشہ ور اساتذہ جن کی تربیت کم ہے۔ت
کنیکی اداروں کی کمی ، صنفی امتیاز اور کم تعلیمی بجٹ وغیرہ جیسے مسائل حل طلب ہیں ۔ناخواندگی کے خاتمے کے لیے کوششیں اگر لگا تار کی جائیں تو کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہیں ۔حکومت پاکستان کچھ بڑے اقدامات کر کے معاملات کو بہتر کر سکتی ہے ،یکساں نصاب کے ذریعے تعلیم کی تفریق کو ختم کیا جاسکتا ہے ، اساتذہ ، بچوںکی تعلیم وتربیت پر بھرپور توجہ دیں۔
اس کے ضمن میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرکے ،نئے تعلیمی اور تکنیکی اداروں کی تعمیر کرکے تعلیمی نظام کو بہتری کی راہ پرگامزن کرسکتی ہیں۔ سرکاری سطح پر لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرنا لازمی ہے، کیونکہ خواتین ملک کی نصف سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہیں ۔
بات اگر کی جائے غربت کی تو ایک ایسے ملک میں جہاں سیاسی جماعتیں روٹی ،کپڑا اور مکان ،جیسے نعروں پر حکومت کر رہی ہیں، غربت ایک عام سماجی مسئلہ ہے ۔غریب انسان کے پاس بنیادی چیزیں بھی موجود نہیں ہوتیں جیسے خوراک کپڑے رہائش اور تعلیم وغیرہ ۔اس میں سیاسی اور معاشی عناصر شامل ہیں یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ غربت تمام برائیوں کی ماں ہے۔پیدا ہونے والے ہر 1000بچوں میں سے 67 اپنی پانچویں سالگرہ دیکھنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت میں روزانہ اتار چڑھاؤ آتا ہے اور قوم کی ترقی بہت سست ہے ۔ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق اس کی 24.3 فیصد آبادی غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے، یہ صورت حال تشویش ناک ہے اور حکومت کو پائیدار ترقی کے اہداف پر کام تیز کرنے کی ضرورت ہے ۔
غربت کی کئی وجوہات ہیں جن میں آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، خاندانی منصوبہ بندی کا فقدان، غذائی قلت کا شکار مائیں، زیادہ تر غیر تعلیم یافتہ آبادی ، تعلیم اور تکنیکی مہارت کی کمی، بیروزگاری کی بلند شرح، غیر متوازن ٹیکس، 80% ٹیکس متوسط طبقے سے آتے ہیں جب کہ امیر عام طور پر ایک پیسہ بھی ادا نہیں کرتے ، صنفی عدم مساوات ۔اگرچہ غربت کو ایک دم ختم نہیں کیا جا سکتا مگر اس کو محدود کرنے کے لیے حل فراہم کیے جا سکتے ہیں جو کچھ یوں ہیں، تعلیم تک سب کی رسائی ، اقتصادی ترقی، شہری ذمے داری اور رواداری کے خیالات ، نئی ملازمتوں کی تخلیق اور کم سے کم اجرت میں اضافہ، چھوٹے کاروباروں کے لیے حکومت کا تعاون وغیرہ۔پاکستان 63% نوجوان آبادی کے ساتھ دنیا کا پانچواں بڑا نوجوان ملک ہے۔ پاکستان میں بے روزگاری ایک اور بڑا سماجی مسئلہ ہے جو ملک کی معیشت کو مفلوج کر رہا ہے کیونکہ اس کے نوجوانوں کا بڑا حصہ بے روزگار ہے 2020 میں پاکستان کی بیروزگاری کی شرح تقریبا 4.45 فیصد تھی۔
ایک عظیم قوم کی تعمیر میں ہر فرد بشمول مرد ہو یا عورت یا نوجوان اس کی ترقی میں بھرپور حصہ لیں۔ افسوس ! اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے ،اگرچہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر اس کی کمائی کا بڑا حصہ خدمات کی صنعت سے آتا ہے جیسے بینکنگ، سیاحت ، فنانس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ۔ان سروس انڈسٹریز دیہاتوں اور دیہی علاقوں سے زیادہ سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ شہروں میں جا کر ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔
بے روزگاری جیسا بڑا سماجی مسئلہ سب سے زیادہ پریشان کن ہے اس کی وجوہات میں بہت ساری چیزیں شامل ہیں جیسے معیاری تعلیم کا فقدان تکنیکی مہارتیں سکھانے والے اداروں کی کمی ،نوجوانوں کے لیے مواقعے کی کمی ،نئے بہتر منصوبوں میں کوئی سرمایہ کاری کا نہ ہونا ،محدود تجربہ ،وسائل کی کمی ،اس کا حل کچھ یوں ہو سکتا ہے کہ نوجوانوں کے نئے آئیڈیاز اور کاروبار کے لیے حکومتی تعاون،نئے گریجویٹس کے لیے مواقع پیدا کرنا ،نوجوانوں کے لیے مختلف تکنیکی مہارتوں کی تربیت کے لیے مراکز،امن و امان کا نفاذ۔
ہم نے چھوٹے بچوں کو چائے کے ہوٹل کسی گیراج یا نائی کی دکان پر کام کرتے دیکھا ہوگا چھوٹے بچوں سے مزدوری کروانا انتہائی قابل شرم فعل ہے یہ انسانیت اور اخلاقیات کے خلاف ہے ہر بچے کا بنیادی حق ہے کہ وہ صرف پڑھائی کرے کھیلے اور صحت مند رہے ۔پاکستان میں بہت سارے بچے اپنی تعلیم اور خواب چھوڑ کر اپنے گھر والوں کی کفالت کر رہے ہیں اور بدترین حالات میں گلیوں اور چوراہوں میں بھیک مانگتے ہیں ۔
غربت ، بڑے خاندان ، ان پڑھ والدین، جہالت ، بیداری کی کمی، کم اجرت ،بنیادی تعلیم تک رسائی سے محرومی، اس کے حل کے لیے بنیادی تعلیم ہر بچے تک پہنچانا ، چائلڈ لیبر کے بارے میں عام آبادی اور والدین کو آگاہی دینا، ہنر سیکھنے کے لیے تعلیم اور ہنر سکھانے والے اداروں کا قیام، بچوں کے لیے کام کرنے والے اداروں کی مدد کرنا وغیرہ۔
ایک اور بڑا سماجی مسئلہ ہے صحت کا ناقص انفرا اسٹرکچر، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کے شعبہ صحت کو ناقص ترین قرار دیا ہے سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹر مریضوں کے ساتھ اچھوت جیسا سلوک کرتے ہیں، جس کی زیادہ تر ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ نئے اسپتال بنائے اور موجودہ سہولیات کو اپ گریڈ کیا جائے ۔اس کے لیے ڈاکٹروں کو ٹریننگ دی جائے صحت کا بجٹ بڑھایا جائے اور ماڈرن ٹیکنالوجی اپنائی جائے۔
ایسے ہی اور بھی مسائل ہیں جن پر اگلے آرٹیکل میں بات کی جائے گی، اس امید کے ساتھ کالم کو ختم کرتی ہوں کہ ہو سکتا ہے ان باتوں کو کوئی پڑھ کر ان پر عمل در آمد کر سکے تو میری محنت وصول ہوجائے گی۔
کالج میں یوں تو سارے اسٹوڈنٹس متمول گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے مگر ایک سرکاری افسر کا بیٹا اپنے آپے میں نہیں تھا وہ اکثر اپنے باپ کے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتا اور دوسرے اسٹوڈنٹس سے حقارت سے بات کرتا اس کا اپنا ایک گروپ تھا جو اسی طرح کے لڑکوں پر مشتمل تھا مگر دوسرے گروپ میں عام اور نسبتا ذ را کم آمدنی والے مگر ذہین لڑکے تھے ان سے کسی چھوٹی سی بات پر بحث ہوئی اور امیر لڑکے نے سب کی نہ صرف بے عزتی کی بلکہ دھمکیاں بھی دیں،نہ جانے اس طرح کے جھگڑوں کا کیا انجام ہوتا ہے اور پڑھائی کتنی متاثر ہوتی ہے اس کا دارومدار والدین کی تربیت پر ہوتا ہے۔
یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ یہاں سماجی مسائل اور غریب امیر کی اتنی تفریق ہے کہ کبھی کبھی سانس لینا بھی دوبھر لگتا ہے کسی بھی معاشرے کے سماجی مسائل وہاں کے لوگوں کے رہن سہن اور تمیز و تہذیب کے بارے میں بتا رہے ہوتے ہیں۔
اس طرح کے مسائل عام آبادی کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیںغربت ہو ، شادی کے مسائل، لاقانونیت،یا بے روزگاری وغیرہ ،یہ سب نمایاں اثرات مرتب کرتے ہیں۔
بد قسمتی سے پاکستان ان سب مسائل کا شکار ہے اگرچہ یہ سب مسائل فطرت میں مختلف ہو سکتے ہیں،معاشی خدشات سے لے کر صحت عامہ اور سماجی بے ترتیبی تک ان اہم مسائل سے نمٹنا آسان نہیں ہے۔ان مسائل میں سر فہرست ،ناخواندگی، غربت ، بے روزگاری، زیادہ آبادی چائلڈ لیبر ، صحت کا ناقص انفرا اسٹرکچر ، نا انصافی اور معاشی عدم استحکام شامل ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ ریاست پاکستان ناخواندگی کو کم کرے گی اور تمام بچوں کو لازمی تعلیم مفت فراہم کرے گی اگر ہم پاکستان کے بڑے سماجی مسائل کو دیکھیں تو انسانی ترقی کی 2021 کی رپورٹ کہتی ہے کہ صرف پاکستان کی 59% کو خواندہ قرار دیا گیا ہے یہ 75 سالہ پرانے ملک کے لیے افسوس ناک صورت حال ہے۔
ناخواندگی کی بات کی جائے تو اس کی کچھ وجوہات ہیں جیسے پاکستان کے دور دراز کے علاقوں یعنی بلوچستان ، کے پی کے ، دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب و فاٹا میں تعلیم کے لحاظ سے آگاہی نہیں ہے۔سرکاری اور نجی تعلیم کے شعبوں میں تدریس کے مختلف ذرائع اور نصاب ،غیر پیشہ ور اساتذہ جن کی تربیت کم ہے۔ت
کنیکی اداروں کی کمی ، صنفی امتیاز اور کم تعلیمی بجٹ وغیرہ جیسے مسائل حل طلب ہیں ۔ناخواندگی کے خاتمے کے لیے کوششیں اگر لگا تار کی جائیں تو کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہیں ۔حکومت پاکستان کچھ بڑے اقدامات کر کے معاملات کو بہتر کر سکتی ہے ،یکساں نصاب کے ذریعے تعلیم کی تفریق کو ختم کیا جاسکتا ہے ، اساتذہ ، بچوںکی تعلیم وتربیت پر بھرپور توجہ دیں۔
اس کے ضمن میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرکے ،نئے تعلیمی اور تکنیکی اداروں کی تعمیر کرکے تعلیمی نظام کو بہتری کی راہ پرگامزن کرسکتی ہیں۔ سرکاری سطح پر لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرنا لازمی ہے، کیونکہ خواتین ملک کی نصف سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہیں ۔
بات اگر کی جائے غربت کی تو ایک ایسے ملک میں جہاں سیاسی جماعتیں روٹی ،کپڑا اور مکان ،جیسے نعروں پر حکومت کر رہی ہیں، غربت ایک عام سماجی مسئلہ ہے ۔غریب انسان کے پاس بنیادی چیزیں بھی موجود نہیں ہوتیں جیسے خوراک کپڑے رہائش اور تعلیم وغیرہ ۔اس میں سیاسی اور معاشی عناصر شامل ہیں یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ غربت تمام برائیوں کی ماں ہے۔پیدا ہونے والے ہر 1000بچوں میں سے 67 اپنی پانچویں سالگرہ دیکھنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت میں روزانہ اتار چڑھاؤ آتا ہے اور قوم کی ترقی بہت سست ہے ۔ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق اس کی 24.3 فیصد آبادی غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے، یہ صورت حال تشویش ناک ہے اور حکومت کو پائیدار ترقی کے اہداف پر کام تیز کرنے کی ضرورت ہے ۔
غربت کی کئی وجوہات ہیں جن میں آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، خاندانی منصوبہ بندی کا فقدان، غذائی قلت کا شکار مائیں، زیادہ تر غیر تعلیم یافتہ آبادی ، تعلیم اور تکنیکی مہارت کی کمی، بیروزگاری کی بلند شرح، غیر متوازن ٹیکس، 80% ٹیکس متوسط طبقے سے آتے ہیں جب کہ امیر عام طور پر ایک پیسہ بھی ادا نہیں کرتے ، صنفی عدم مساوات ۔اگرچہ غربت کو ایک دم ختم نہیں کیا جا سکتا مگر اس کو محدود کرنے کے لیے حل فراہم کیے جا سکتے ہیں جو کچھ یوں ہیں، تعلیم تک سب کی رسائی ، اقتصادی ترقی، شہری ذمے داری اور رواداری کے خیالات ، نئی ملازمتوں کی تخلیق اور کم سے کم اجرت میں اضافہ، چھوٹے کاروباروں کے لیے حکومت کا تعاون وغیرہ۔پاکستان 63% نوجوان آبادی کے ساتھ دنیا کا پانچواں بڑا نوجوان ملک ہے۔ پاکستان میں بے روزگاری ایک اور بڑا سماجی مسئلہ ہے جو ملک کی معیشت کو مفلوج کر رہا ہے کیونکہ اس کے نوجوانوں کا بڑا حصہ بے روزگار ہے 2020 میں پاکستان کی بیروزگاری کی شرح تقریبا 4.45 فیصد تھی۔
ایک عظیم قوم کی تعمیر میں ہر فرد بشمول مرد ہو یا عورت یا نوجوان اس کی ترقی میں بھرپور حصہ لیں۔ افسوس ! اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے ،اگرچہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر اس کی کمائی کا بڑا حصہ خدمات کی صنعت سے آتا ہے جیسے بینکنگ، سیاحت ، فنانس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ۔ان سروس انڈسٹریز دیہاتوں اور دیہی علاقوں سے زیادہ سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ شہروں میں جا کر ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔
بے روزگاری جیسا بڑا سماجی مسئلہ سب سے زیادہ پریشان کن ہے اس کی وجوہات میں بہت ساری چیزیں شامل ہیں جیسے معیاری تعلیم کا فقدان تکنیکی مہارتیں سکھانے والے اداروں کی کمی ،نوجوانوں کے لیے مواقعے کی کمی ،نئے بہتر منصوبوں میں کوئی سرمایہ کاری کا نہ ہونا ،محدود تجربہ ،وسائل کی کمی ،اس کا حل کچھ یوں ہو سکتا ہے کہ نوجوانوں کے نئے آئیڈیاز اور کاروبار کے لیے حکومتی تعاون،نئے گریجویٹس کے لیے مواقع پیدا کرنا ،نوجوانوں کے لیے مختلف تکنیکی مہارتوں کی تربیت کے لیے مراکز،امن و امان کا نفاذ۔
ہم نے چھوٹے بچوں کو چائے کے ہوٹل کسی گیراج یا نائی کی دکان پر کام کرتے دیکھا ہوگا چھوٹے بچوں سے مزدوری کروانا انتہائی قابل شرم فعل ہے یہ انسانیت اور اخلاقیات کے خلاف ہے ہر بچے کا بنیادی حق ہے کہ وہ صرف پڑھائی کرے کھیلے اور صحت مند رہے ۔پاکستان میں بہت سارے بچے اپنی تعلیم اور خواب چھوڑ کر اپنے گھر والوں کی کفالت کر رہے ہیں اور بدترین حالات میں گلیوں اور چوراہوں میں بھیک مانگتے ہیں ۔
غربت ، بڑے خاندان ، ان پڑھ والدین، جہالت ، بیداری کی کمی، کم اجرت ،بنیادی تعلیم تک رسائی سے محرومی، اس کے حل کے لیے بنیادی تعلیم ہر بچے تک پہنچانا ، چائلڈ لیبر کے بارے میں عام آبادی اور والدین کو آگاہی دینا، ہنر سیکھنے کے لیے تعلیم اور ہنر سکھانے والے اداروں کا قیام، بچوں کے لیے کام کرنے والے اداروں کی مدد کرنا وغیرہ۔
ایک اور بڑا سماجی مسئلہ ہے صحت کا ناقص انفرا اسٹرکچر، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کے شعبہ صحت کو ناقص ترین قرار دیا ہے سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹر مریضوں کے ساتھ اچھوت جیسا سلوک کرتے ہیں، جس کی زیادہ تر ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ نئے اسپتال بنائے اور موجودہ سہولیات کو اپ گریڈ کیا جائے ۔اس کے لیے ڈاکٹروں کو ٹریننگ دی جائے صحت کا بجٹ بڑھایا جائے اور ماڈرن ٹیکنالوجی اپنائی جائے۔
ایسے ہی اور بھی مسائل ہیں جن پر اگلے آرٹیکل میں بات کی جائے گی، اس امید کے ساتھ کالم کو ختم کرتی ہوں کہ ہو سکتا ہے ان باتوں کو کوئی پڑھ کر ان پر عمل در آمد کر سکے تو میری محنت وصول ہوجائے گی۔