ریاستی رٹ کی بحالی ضروری
قوم اور بہادر مسلح افواج کی بے مثال قربانیوں کے ذریعے حاصل کی گئی کامیابیوں کو پٹری سے اتارنے کی اجازت نہیں دی جائے گی
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ریاست کی رٹ ہر قیمت پر قائم کی جائے گی، کسی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم اور بہادر مسلح افواج کی بے مثال قربانیوں کے ذریعے حاصل کی گئی کامیابیوں کو پٹری سے اتارنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ہم پرامن اور مستحکم ماحول کے حصول تک ہر طرح کے دہشت گردوں، ان کے حامیوں اور ہمدردوں کے درمیان گٹھ جوڑ کو توڑنے کے لیے پرعزم ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق وزیراعظم نے جمعرات کو سی ایم ایچ راولپنڈی میں سی ٹی ڈی کمپلیکس بنوں آپریشن کے دوران زخمی ہونے والے فوجی افسروں اور جوانوں کی عیادت کی۔
وزیراعظم نے صائب خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے اور ریاست کی رٹ کی بحالی پرزور دیا ہے، حالیہ بنوں واقعے کے حوالے سے صوبائی حکومت اور پولیس مکمل طور پر بے بس نظر آئے، خیبرپختون خوا میں ایک مرتبہ پھر دہشت گرد گروہ سرگرم ہوچکے ہیں جب کہ صوبائی وزراء وترجمان حالات کی سنگینی کو نظرانداز کرتے ہوئے انتہائی غیرسنجیدہ بیانات دے رہے ہیں۔
بلاشبہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں فوج کا کردار بہت اہم ہے اور فوج کی قربانیاں بھی بے شمار ہیں، مسئلہ کے حل میں اگر فوج اپنی ذمے داریاں بخوبی پوری کر رہی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ سویلین انتظامیہ پر بھی بھاری عائد ہوتی ہے کہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے، جب تک ملک میں مؤثر نظام حکومت نہیں ہوگا، جس میں ہر شعبہ اپنا فعال کردار ادا کرے اس وقت تک دہشت گردی سے مکمل چھٹکارا ممکن نہیں۔
ہر فرد کو اس جنگ میں سیکیورٹی اداروںکے ساتھ مل کر لڑنا اور چوکس رہنا ہو گا۔ دہشت گرد حملہ کرنے سے پہلے شہری ودیہی علاقوں میں کئی کئی روز قیام کرتے ہیں۔
کوئی پراپرٹی ڈیلر کمیشن کے لالچ میں اور کوئی نہ کوئی مالک مکان چند سو روپے زیادہ کرایہ کے لالچ میں بغیر تحقیق کیے ان ملک دشمن عناصر کو اپنا مہمان بنا لیتا ہے، یوں وہ ان دہشت گردوں کا سہولت کار بن جاتا ہے، اس کے علاوہ سرکاری اداروں اور سیاستدانوں کے اندر بھی دہشت گردوں کے ہمدرد موجود ہیں جو ان کے بیانیہ کو تقویت دیتے ہیں ۔
شاید ہمارے خیال میں یہ جنگ یا تو پولیس اور ایجنسیوں کی ذمے داری ہے یا فوج کی۔ جب تک ہم میں یہ احساس پیدا نہیں ہو گا کہ یہ جنگ اس ملک کے بچے بچے کی جنگ ہے اور ہم سب کو یہ جنگ جیتنے کے لیے ہر سطح پر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے، ہمیں مکمل کامیابی نہیںمل سکتی۔
دہشت گردی کے عوامل کا براہِ راست تعلق عوام اور پاکستان کے بیرونی دشمنوں سے ہے جو یہاں پر موجود مختلف مذہبی، لسانی مکتبہ فکر اور نسلی گروہوں کے درمیان موجود اختلافات کو بھڑکا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کر تے ہیں۔
اس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ان سرکاری اہلکاروں سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا جو چند ٹکوں کے لالچ میں بیرونی ایجنٹوں کے آلہ کار بننے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ پاکستان میں تمام فرقوں کے لوگ مل جل کر بھائی چارہ کی فضا میں رہتے اور رہنا بھی چاہتے ہیں مگر پھر بھی بیرونی دشمن کہیں نہ کہیں ان کے درمیان پھوٹ ڈال کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
دہشت گردی کے حوالے سے چند وجوہات یہ ہیں۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی پاکستانی عوام غربت کی لپیٹ میں ہیں۔ غربت بذات خود ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت سے لوگ غربت کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشیاں کر رہے اور پیٹ کی خاطر غیرقانونی کام کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
پاکستان کی ترقی میں غربت ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ شرپسند عناصر غربت کے مارے ہوئے لوگوں کو پیسے کا لالچ دے کر دہشت گردی پر اکسا رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں اس وقت بیروزگاری عام اور بڑھتی ہوئی آبادی اس بے روزگاری میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ بے روزگاری کی زد میں آئے ہوئے، نوجوان سنگین سے سنگین تر جرم کا بھی ارتکاب کر لیتے ہیں جس سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
مناسب روزگار کی عدم دستیابی کی صورت میں لوگ ناجائز ذرایع سے پیسہ کمانے کی اسکیمیں بنا لیتے ہیں۔ دہشت گردی کی ایک اور وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ پاکستان آج بھی جہالت کے اندھیروں سے باہر نہیں آیا ہے۔ دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ صوبائی تعصب اور تنگ نظری بھی ہے۔
ہمارے ملک میں لوگ قومی مفاد کے بجائے صوبائی مفاد کی باتیں کرتے ہیں، بیرونی طاقتیں صوبائیت پرستی اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ پوری دنیا کے سامنے پاکستان دہشت گرد ثابت ہو جائے۔
ہمارا مذہب جنگ وجدل اور ظلم وجبر کی سخت مخالفت کرتا ہے، بے گناہ لوگوں کی جان لینے کی اجازت نہیں، مگر کچھ انتہا پسند تنظیمیں اپنی تنگ نظری کی وجہ سے دہشت گردی اور خوف وہراس کا سبب بنتی ہیں۔
کسی بھی ملک میں دہشت گردی معاشرے پر دیرپا اثرات مرتب کرتی ہے جس میں جانی، مالی، معاشی، اقتصادی اور تعلیمی نقصان شامل ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے ملک وقوم کا بہت قیمتی سرمایہ دہشت گردی کی نذر ہو گیا ہے۔
1979 کے دو بڑے عالمی واقعات کے بعد امریکا سمیت دنیا کے بہت سے ممالک نے اپنی اپنی پسند کے ایسے ''مسلمان گروہ'' تیار کیے جن کا دور دور تک کوئی واسطہ اس اسلام سے نہیں تھا جس کا پیغام امن اور بھائی چارہ ہے۔
ان انتہا پسند گروہوں کو یہ سکھایا گیا کہ صرف ان کے نظریات درست ہیں اور باقی سب قابل نفرت اور واجب القتل ہیں۔ ان لوگوں کی اگلی نسل کا حال ان سے بھی برا ہے۔
اس نسل نے تو آنکھ ہی جنگ اور بربادی میں کھولی ہے اور جنگ ان کا نارمل رہن سہن اور واحد کاروبار ہے۔ ان کے نظریات درست کرنے کے لیے ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر معاشی، معاشرتی اور تعلیمی سرگرمیوں کی ضرورت ہے، وہ بھی تمام سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر۔
پاکستان گزری تین دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے اور یہ ناسور آہستہ آہستہ نہایت مہلک صورت اختیار کرگیا ہے۔
عرصہ دراز تک ہماری قوم بے حسی کا ثبوت دے کر خواب غفلت میں مبتلا رہی۔ اہم قومی اداروں سے لے کر فروٹ منڈیوں تک اور اہم شخصیات سے لے کر عام شہریوں تک دہشت گردی کا شکار بنے۔ یہاں تک کہ 80 ہزار افراد اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے مگر اس لعنت سے چھٹکارا پانے کے لیے کوئی سنجیدہ حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی۔
16 دسمبر پہلے بھی ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا کیونکہ بھارت کی جارحیت سے اسی دن وطن عزیز پاکستان دولخت ہوا تھا، پھر اسی 16 دسمبر 2014 کو ہماری قوم کے لخت جگر، نونہال خون میں نہلا دیے گئے۔
اس بہیمانہ کارروائی کے خلاف ہونے والی تحقیقات میں جو شواہد ملے ہیں، ان میں پڑوسی ملک بھارت کے خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کے اشارے بھی ملتے ہیں۔ اس سانحہ نے پوری قوم کو بظاہر متحد کر کے نئے عزم کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جانب پیش رفت پر آمادہ کیا۔
ہم نے دہشت گردی کو مل کر ختم کرنے کا عزم کیا ہے مگر یہ فوری حل ہونے والا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے لیے ہمیں فوری، درمیانی مدتی اور طویل المدتی انتظامات یکسوئی سے کرنا ہوں گے۔ فوری طور پر خیبرپختون خوا میں ایک آپریشن شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
سیکیورٹی اداروں کو جہاں جہاں دہشت گرد موجود ہیں، ان کے خلاف آپریشن شروع کر دینا چاہیے، اس سے دہشت گردوں کے بڑھتے قدم رکیں گے، منتشر ہونے کی وجہ سے ان کے آیندہ منصوبے، عزائم کامیاب نہیں ہوں گے اور ان کا قلع قمع ہوگا، علاوہ ازیں انتظامیہ، پولیس، انٹیلی جنس اور عدالتی نظام کو اصلاحات کے ذریعے جدید اور موثر بنانا ہوگا۔
اس سے دہشت گردی سے منسلک ہر شخص کے گرد گھیرا تنگ ہوگا، عوام کا اداروں پر اعتماد بحال ہوگا اور امن کی فضا قائم ہوگی۔ طویل المدتی انتظامات میں تعلیم، صحت، روزگارکی فراہمی، زراعت، صنعت کی ترقی سے ملک میں خوشحالی آئے گی۔
انتہاپسندانہ سوچ کا خاتمہ ہوگا، دہشت گردوں کو معاشرے میں دہشت گردی کے لیے خام مال میسر نہیں آئے گا جو لازماً دہشت گردی کی لعنت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارے کا باعث بنے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی سے پاک ہوکر ہی پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
ہم پرامن اور مستحکم ماحول کے حصول تک ہر طرح کے دہشت گردوں، ان کے حامیوں اور ہمدردوں کے درمیان گٹھ جوڑ کو توڑنے کے لیے پرعزم ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق وزیراعظم نے جمعرات کو سی ایم ایچ راولپنڈی میں سی ٹی ڈی کمپلیکس بنوں آپریشن کے دوران زخمی ہونے والے فوجی افسروں اور جوانوں کی عیادت کی۔
وزیراعظم نے صائب خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے اور ریاست کی رٹ کی بحالی پرزور دیا ہے، حالیہ بنوں واقعے کے حوالے سے صوبائی حکومت اور پولیس مکمل طور پر بے بس نظر آئے، خیبرپختون خوا میں ایک مرتبہ پھر دہشت گرد گروہ سرگرم ہوچکے ہیں جب کہ صوبائی وزراء وترجمان حالات کی سنگینی کو نظرانداز کرتے ہوئے انتہائی غیرسنجیدہ بیانات دے رہے ہیں۔
بلاشبہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں فوج کا کردار بہت اہم ہے اور فوج کی قربانیاں بھی بے شمار ہیں، مسئلہ کے حل میں اگر فوج اپنی ذمے داریاں بخوبی پوری کر رہی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ سویلین انتظامیہ پر بھی بھاری عائد ہوتی ہے کہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے، جب تک ملک میں مؤثر نظام حکومت نہیں ہوگا، جس میں ہر شعبہ اپنا فعال کردار ادا کرے اس وقت تک دہشت گردی سے مکمل چھٹکارا ممکن نہیں۔
ہر فرد کو اس جنگ میں سیکیورٹی اداروںکے ساتھ مل کر لڑنا اور چوکس رہنا ہو گا۔ دہشت گرد حملہ کرنے سے پہلے شہری ودیہی علاقوں میں کئی کئی روز قیام کرتے ہیں۔
کوئی پراپرٹی ڈیلر کمیشن کے لالچ میں اور کوئی نہ کوئی مالک مکان چند سو روپے زیادہ کرایہ کے لالچ میں بغیر تحقیق کیے ان ملک دشمن عناصر کو اپنا مہمان بنا لیتا ہے، یوں وہ ان دہشت گردوں کا سہولت کار بن جاتا ہے، اس کے علاوہ سرکاری اداروں اور سیاستدانوں کے اندر بھی دہشت گردوں کے ہمدرد موجود ہیں جو ان کے بیانیہ کو تقویت دیتے ہیں ۔
شاید ہمارے خیال میں یہ جنگ یا تو پولیس اور ایجنسیوں کی ذمے داری ہے یا فوج کی۔ جب تک ہم میں یہ احساس پیدا نہیں ہو گا کہ یہ جنگ اس ملک کے بچے بچے کی جنگ ہے اور ہم سب کو یہ جنگ جیتنے کے لیے ہر سطح پر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے، ہمیں مکمل کامیابی نہیںمل سکتی۔
دہشت گردی کے عوامل کا براہِ راست تعلق عوام اور پاکستان کے بیرونی دشمنوں سے ہے جو یہاں پر موجود مختلف مذہبی، لسانی مکتبہ فکر اور نسلی گروہوں کے درمیان موجود اختلافات کو بھڑکا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کر تے ہیں۔
اس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ان سرکاری اہلکاروں سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا جو چند ٹکوں کے لالچ میں بیرونی ایجنٹوں کے آلہ کار بننے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ پاکستان میں تمام فرقوں کے لوگ مل جل کر بھائی چارہ کی فضا میں رہتے اور رہنا بھی چاہتے ہیں مگر پھر بھی بیرونی دشمن کہیں نہ کہیں ان کے درمیان پھوٹ ڈال کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
دہشت گردی کے حوالے سے چند وجوہات یہ ہیں۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی پاکستانی عوام غربت کی لپیٹ میں ہیں۔ غربت بذات خود ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت سے لوگ غربت کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشیاں کر رہے اور پیٹ کی خاطر غیرقانونی کام کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
پاکستان کی ترقی میں غربت ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ شرپسند عناصر غربت کے مارے ہوئے لوگوں کو پیسے کا لالچ دے کر دہشت گردی پر اکسا رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں اس وقت بیروزگاری عام اور بڑھتی ہوئی آبادی اس بے روزگاری میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ بے روزگاری کی زد میں آئے ہوئے، نوجوان سنگین سے سنگین تر جرم کا بھی ارتکاب کر لیتے ہیں جس سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
مناسب روزگار کی عدم دستیابی کی صورت میں لوگ ناجائز ذرایع سے پیسہ کمانے کی اسکیمیں بنا لیتے ہیں۔ دہشت گردی کی ایک اور وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ پاکستان آج بھی جہالت کے اندھیروں سے باہر نہیں آیا ہے۔ دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ صوبائی تعصب اور تنگ نظری بھی ہے۔
ہمارے ملک میں لوگ قومی مفاد کے بجائے صوبائی مفاد کی باتیں کرتے ہیں، بیرونی طاقتیں صوبائیت پرستی اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ پوری دنیا کے سامنے پاکستان دہشت گرد ثابت ہو جائے۔
ہمارا مذہب جنگ وجدل اور ظلم وجبر کی سخت مخالفت کرتا ہے، بے گناہ لوگوں کی جان لینے کی اجازت نہیں، مگر کچھ انتہا پسند تنظیمیں اپنی تنگ نظری کی وجہ سے دہشت گردی اور خوف وہراس کا سبب بنتی ہیں۔
کسی بھی ملک میں دہشت گردی معاشرے پر دیرپا اثرات مرتب کرتی ہے جس میں جانی، مالی، معاشی، اقتصادی اور تعلیمی نقصان شامل ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے ملک وقوم کا بہت قیمتی سرمایہ دہشت گردی کی نذر ہو گیا ہے۔
1979 کے دو بڑے عالمی واقعات کے بعد امریکا سمیت دنیا کے بہت سے ممالک نے اپنی اپنی پسند کے ایسے ''مسلمان گروہ'' تیار کیے جن کا دور دور تک کوئی واسطہ اس اسلام سے نہیں تھا جس کا پیغام امن اور بھائی چارہ ہے۔
ان انتہا پسند گروہوں کو یہ سکھایا گیا کہ صرف ان کے نظریات درست ہیں اور باقی سب قابل نفرت اور واجب القتل ہیں۔ ان لوگوں کی اگلی نسل کا حال ان سے بھی برا ہے۔
اس نسل نے تو آنکھ ہی جنگ اور بربادی میں کھولی ہے اور جنگ ان کا نارمل رہن سہن اور واحد کاروبار ہے۔ ان کے نظریات درست کرنے کے لیے ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر معاشی، معاشرتی اور تعلیمی سرگرمیوں کی ضرورت ہے، وہ بھی تمام سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر۔
پاکستان گزری تین دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے اور یہ ناسور آہستہ آہستہ نہایت مہلک صورت اختیار کرگیا ہے۔
عرصہ دراز تک ہماری قوم بے حسی کا ثبوت دے کر خواب غفلت میں مبتلا رہی۔ اہم قومی اداروں سے لے کر فروٹ منڈیوں تک اور اہم شخصیات سے لے کر عام شہریوں تک دہشت گردی کا شکار بنے۔ یہاں تک کہ 80 ہزار افراد اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے مگر اس لعنت سے چھٹکارا پانے کے لیے کوئی سنجیدہ حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی۔
16 دسمبر پہلے بھی ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا کیونکہ بھارت کی جارحیت سے اسی دن وطن عزیز پاکستان دولخت ہوا تھا، پھر اسی 16 دسمبر 2014 کو ہماری قوم کے لخت جگر، نونہال خون میں نہلا دیے گئے۔
اس بہیمانہ کارروائی کے خلاف ہونے والی تحقیقات میں جو شواہد ملے ہیں، ان میں پڑوسی ملک بھارت کے خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کے اشارے بھی ملتے ہیں۔ اس سانحہ نے پوری قوم کو بظاہر متحد کر کے نئے عزم کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جانب پیش رفت پر آمادہ کیا۔
ہم نے دہشت گردی کو مل کر ختم کرنے کا عزم کیا ہے مگر یہ فوری حل ہونے والا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے لیے ہمیں فوری، درمیانی مدتی اور طویل المدتی انتظامات یکسوئی سے کرنا ہوں گے۔ فوری طور پر خیبرپختون خوا میں ایک آپریشن شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
سیکیورٹی اداروں کو جہاں جہاں دہشت گرد موجود ہیں، ان کے خلاف آپریشن شروع کر دینا چاہیے، اس سے دہشت گردوں کے بڑھتے قدم رکیں گے، منتشر ہونے کی وجہ سے ان کے آیندہ منصوبے، عزائم کامیاب نہیں ہوں گے اور ان کا قلع قمع ہوگا، علاوہ ازیں انتظامیہ، پولیس، انٹیلی جنس اور عدالتی نظام کو اصلاحات کے ذریعے جدید اور موثر بنانا ہوگا۔
اس سے دہشت گردی سے منسلک ہر شخص کے گرد گھیرا تنگ ہوگا، عوام کا اداروں پر اعتماد بحال ہوگا اور امن کی فضا قائم ہوگی۔ طویل المدتی انتظامات میں تعلیم، صحت، روزگارکی فراہمی، زراعت، صنعت کی ترقی سے ملک میں خوشحالی آئے گی۔
انتہاپسندانہ سوچ کا خاتمہ ہوگا، دہشت گردوں کو معاشرے میں دہشت گردی کے لیے خام مال میسر نہیں آئے گا جو لازماً دہشت گردی کی لعنت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارے کا باعث بنے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی سے پاک ہوکر ہی پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔