شام میں فوجی مداخلت بند کریں امریکا کی ترکیہ کو دھمکی
شام میں فوجی کارروائیاں بند نہ کیں تو جوابی اقدامات کریں گے، امریکی جنرل
امریکا کے اعلیٰ فوجی جنرل ایرک کوریلا ترکی کو شام میں مداخلے سے باز رہنے سے متعلق خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دراندازی کو روکنے کے لیے بھرپور اقدامات کریں گے۔
العربیہ نیوز کے مطابق مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی فوج کے ایک اعلٰی فوجی افسر جنرل ایرک کوریلا نے میڈیا سے گفتگو میں ترکیہ کو خبردار کیا ہے کہ شام میں فوجی کارروائی پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرسکتی ہے۔
جنرل ایرک کوریلا نے مزید کہا کہ میں اس بارے میں بہت فکر مند ہوں۔ ترکیہ کا یہ عمل خطے کو غیر مستحکم کر سکتا ہے اور اس سے شام کی 28 جیلوں میں قید داعش کے 4 ہزار جنگجوؤں کے فرار کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔
امریکی جنرل کا یہ بھی کہنا تھا کہ ترکیہ کا حملہ الہول کیمپ کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے جہاں داعش جنگجوؤں کے ہمدرد اور خاندانوں کے تقریباً 55 ہزار افراد مقیم ہیں جن میں 90 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔
خیال رہے کہ ترکیہ کی بری فوج نے حال ہی میں شام کی سرحد میں گھس کر کرد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کیا اور اس آپریشن میں تیزی استنبول بم دھماکے بعد آئی جس کی ذمہ داری کرد عسکریت پسند تنظیم پر عائد کیا گیا تھا۔
ترکیہ پہلے ہی امریکی پالیسی سے نالاں ہے کیونکہ امریکا شام اور عراق کے میں داعش کے خلاف لڑنے والے شامی جمہوری فورسز کا شراکت دار ہے جن پر ترکیہ علیحدگی پسند عسکری تحریک چلانے کا الزام عائد کرتا ہے۔
العربیہ نیوز کے مطابق مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی فوج کے ایک اعلٰی فوجی افسر جنرل ایرک کوریلا نے میڈیا سے گفتگو میں ترکیہ کو خبردار کیا ہے کہ شام میں فوجی کارروائی پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرسکتی ہے۔
جنرل ایرک کوریلا نے مزید کہا کہ میں اس بارے میں بہت فکر مند ہوں۔ ترکیہ کا یہ عمل خطے کو غیر مستحکم کر سکتا ہے اور اس سے شام کی 28 جیلوں میں قید داعش کے 4 ہزار جنگجوؤں کے فرار کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔
امریکی جنرل کا یہ بھی کہنا تھا کہ ترکیہ کا حملہ الہول کیمپ کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے جہاں داعش جنگجوؤں کے ہمدرد اور خاندانوں کے تقریباً 55 ہزار افراد مقیم ہیں جن میں 90 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔
خیال رہے کہ ترکیہ کی بری فوج نے حال ہی میں شام کی سرحد میں گھس کر کرد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کیا اور اس آپریشن میں تیزی استنبول بم دھماکے بعد آئی جس کی ذمہ داری کرد عسکریت پسند تنظیم پر عائد کیا گیا تھا۔
ترکیہ پہلے ہی امریکی پالیسی سے نالاں ہے کیونکہ امریکا شام اور عراق کے میں داعش کے خلاف لڑنے والے شامی جمہوری فورسز کا شراکت دار ہے جن پر ترکیہ علیحدگی پسند عسکری تحریک چلانے کا الزام عائد کرتا ہے۔