کراچی کے ہنرمند اسکوٹر مکینک کو یورپی شہری بھی داد دینے پر مجبور
میری تیار کردہ 30 سے زائد ویسپا اسکوٹرز یورپی ملکوں کو ایکسپورٹ کی گئیں ہیں، شیخ محمد آصف
شہر قائد کا اسکوٹر مکینک اپنے ہنر اور صلاحیتوں سے پاکستان کا گمنام سفیر بن گیا، 60 سال پرانی ویسپا اسکوٹرز کو اپنے فن سے ایسی نئی زندگی دی کہ ویسپا بنانے والے ملک اٹلی کے شوقین بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔
شیخ محمد آصف کی بنائی گئی ویسپا اسکوٹرز اٹلی، جرمنی، بیلجیئم، سوئیڈن اور امریکا سمیت یورپی ملکوں میں پاکستانی ہنرمندوں کی مہارت اجاگر کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔
کراچی کے علاقے نارتھ کراچی میں اپنے گھر کے نچلے حصے میں ورکشاپ چلانے والے شیخ محمد آصف پینتس سال سے ویسپا اسکوٹر کے عشق میں مبتلا ہیں اسکوٹر سے عشق نے ہی انہیں مکینک بنادیا، اپنے کام سے لگن اور ایمانداری نے ان کے فن کو چار چاند لگادیے۔
سال 2000 میں کراچی کے پوش علاقے کی ایک سڑک سے گزرتے ہوئے اٹلی کے قونصل خانے کے اعلیٰ افسر کی نظر شیخ محمد آصف کے زیر استعمال ویسپا نے قونصل خانے کے اعلیٰ افسر کو رکنے پر مجبور کردیا، اگلے روز قونصل خانے میں مدعو کیا گیا اور ویسپا کی تعریف کرتے ہوئے اس قسم کی ویسپا پاکستان میں خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کردیا۔
شیخ محمد آصف کی مہارت اور کام کے انداز کو قریب سے دیکھنے کے لیے مذکورہ افسر نے ان کی ورکشاپ کا دورہ کیا اور نہ صرف خود ان کی تیار کردہ اسکوٹر خریدیں بلکہ اٹلی کی پاکستان میں کام کرنیو الی کمپنیوں سے بھی اسکوٹرز تیار کروائیں۔ شیخ محمد آصف کے مطابق ان کی تیار کردہ 30 سے زائد ویسپا اسکوٹرز یورپی ملکوں کو ایکسپورٹ کی گئیں یہ اسکوٹرز ان کے سفارتخانوں کی وساطت سے خریدی اور ایکسپورٹ کی گئیں اور ان کے مالکان اب بھی ان کی تیار کردہ اسکوٹرز سے لطف اندوز ہونے کی ویڈیوز ان کو ارسال کرکے ان کے فن کی داد دیتے ہیں۔
شیخ محمد آصف نے بتایا کہ وہ زیادہ تر 1962,64 اور 1965 ماڈل کی ویسپا تیار کرتے ہیں جو کلاسک اور اینٹیک کا درجہ رکھتی ہیں اور اپنے منفرد اور دلکش ڈیزائن کی وجہ سے دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہیں۔ اٹلی کے شوقین افراد اس ماڈل کی ویسپا کو اپنے نایاب فن پاروں کے کلیکشن کا حصہ بناتے ہیں اور مردوں سے زیادہ خواتین اس پر سواری کرکے لطف اندوز ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جو ویسپا انہوں نے تیار کرکے اٹلی بھیجیں ان کو زیادہ تر خواتین چلاتی ہیں اور ویسپا کے ساتھ اپنی تصاویر اور ویڈیوز بنانا پسند کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ غیرملکی شوقین افراد ان کی تیار کردہ ویسپا دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں اور کام کے معیار کی تعریف کرتے ہیں آج تک بیرون ملک بھجوائی جانے والی کسی بھی ویسپا میں کوئی تکنیکی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ ویسپا اسکوٹرز کی ریسٹوریشن مشکل اور مہنگا شوق ہے ایک ویسپا کی مکمل بحالی میں دو سے ڈھائی لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے پرزے تلاش کرنا مشکل کام ہے جس میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔ اٹلی کے خریدار اٹلی سے پرزے منگواتے ہیں جس سے یہ مشکل قدرے آسان ہوجاتی ہے لیکن پرزے باہر سے منگوانے پر بہت خرچ آتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مقبول ماڈلز کی ویسپا اب نایاب ہوچکی ہیں زیادہ تر کباڑ کی شکل اختیار کرچکی ہیں جن کی ملکیتی دستاویزات بھی مشکل سے ملتی ہیں ان کے خریدار تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد ویسپا خریدتی ہیں اس لیے مکمل ملکیتی دستاویزات کی حامل ویسپا تلاش کرنا ہوتی ہیں جو کافی مشکل سے ملتی ہیں۔ غیر ملکی خریدار اپنے شوق کے لیے ویسپا تیار کرواتے ہیں بہت کم ہی فروخت کرتے ہیں۔غیرملکی خریداروں کے علاوہ پاکستان میں بھی ویسپا کے مداح مقبول ماڈلز شوق سے ری اسٹور کرواتے ہیں اور بعض ویسپا اسکوٹرز کی بحالی پر پانچ لاکھ روپے تک خرچ کرچکے ہیں تاہم ملکی خریداروں کی تعداد غیرملکی خریداروں سے کافی کم ہے۔
شیخ محمد آصف کے مطابق حالیہ معاشی بحران اورمہنگائی کی وجہ سے ویسپا اسکوٹرز کی بحالی کا کام بھی متاثر ہورہا ہے بیرون ملک سے پرزے منگوانا بہت مہنگا پڑرہا ہے اس لیے اب یہ کام تقریباً رک سا گیا ہے۔ جب یہ کام عروج پر تھا تو سال میں 10سے 12 ویسپا اسکوٹرز تیار کرلیتے تھے اب بمشکل سال میں ایک دو ہی بنائی جارہی ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے ویسپا کی ریسٹوریشن پر بہت خرچہ آرہا ہے اور شوقین افراد بھی پیسہ لگانے سے گریز کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان دنوں کلاسک گاڑیوں کا کلیکشن رکھنے و الے افراد ان سے گاڑیاں تیار کروارہے ہیں۔
شیخ محمد آصف کے مطابق ان کے غیرملکی خریدار جب ان کی تیار کردہ ویسپا اسکوٹرز کی ویڈیوز اور تصاویر انہیں بھیجتے ہیں تو ان کا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے کہ ایک پاکستانی مکینک کے کام پر دنیا اعتبار کرتی ہے اور پاکستانی ہرمندوں کے کام کو بین الاقوامی سطح پر سراہا جاتا ہے جس سے دنیا میں پاکستان کا نام روشن ہورہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کو بھی یہ فن اور ہنر منتقل کرچکے ہیں فطری طور پر ان کا بیٹا بھی ویسپا اسکوٹرز سے لگاؤ رکھتا ہے اور اب ریسٹوریشن کے زیادہ تر کاموں میں بیٹا ہی ان کا مددگار ہوتا ہے۔
شیخ محمد عمر کا کہنا ہے کہ ویسپا اسکوٹرز کی ریسٹوریشن کے کام کا مستقبل روشن ہے اس کے ذریعے دنیا کے سامنے پاکستان کا پر امن چہرہ سامنے لانے اور پاکستانی ہنرمندوں کی مہارت کاکو اجاگر کرنے میں مدد ملیگی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ آٹو انجینئرنگ میں ڈپلومہ مکمل کرچکے ہیں اور وہ اس شعبہ میں اعلٰی تعلیم حاصل کرکے اس کام کو جدت دینے کے خواہش مند ہیں۔
شیخ محمد عمر نے بتایا کہ ان کی تیار کردہ ویسپا اسکوٹرز کو مقامی سطح پر بھی بہت زیادہ سراہا جاتا ہے۔ ویسپا اسکوٹرز میں نوجوان بہت زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور اس کے ساتھ تصاویر بناکر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں اور ان کے کام کی تعریف کرتے ہیں جس سے انہیں بہت خوشی ہوتی ہے۔
شیخ محمد آصف کی بنائی گئی ویسپا اسکوٹرز اٹلی، جرمنی، بیلجیئم، سوئیڈن اور امریکا سمیت یورپی ملکوں میں پاکستانی ہنرمندوں کی مہارت اجاگر کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔
کراچی کے علاقے نارتھ کراچی میں اپنے گھر کے نچلے حصے میں ورکشاپ چلانے والے شیخ محمد آصف پینتس سال سے ویسپا اسکوٹر کے عشق میں مبتلا ہیں اسکوٹر سے عشق نے ہی انہیں مکینک بنادیا، اپنے کام سے لگن اور ایمانداری نے ان کے فن کو چار چاند لگادیے۔
سال 2000 میں کراچی کے پوش علاقے کی ایک سڑک سے گزرتے ہوئے اٹلی کے قونصل خانے کے اعلیٰ افسر کی نظر شیخ محمد آصف کے زیر استعمال ویسپا نے قونصل خانے کے اعلیٰ افسر کو رکنے پر مجبور کردیا، اگلے روز قونصل خانے میں مدعو کیا گیا اور ویسپا کی تعریف کرتے ہوئے اس قسم کی ویسپا پاکستان میں خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کردیا۔
شیخ محمد آصف کی مہارت اور کام کے انداز کو قریب سے دیکھنے کے لیے مذکورہ افسر نے ان کی ورکشاپ کا دورہ کیا اور نہ صرف خود ان کی تیار کردہ اسکوٹر خریدیں بلکہ اٹلی کی پاکستان میں کام کرنیو الی کمپنیوں سے بھی اسکوٹرز تیار کروائیں۔ شیخ محمد آصف کے مطابق ان کی تیار کردہ 30 سے زائد ویسپا اسکوٹرز یورپی ملکوں کو ایکسپورٹ کی گئیں یہ اسکوٹرز ان کے سفارتخانوں کی وساطت سے خریدی اور ایکسپورٹ کی گئیں اور ان کے مالکان اب بھی ان کی تیار کردہ اسکوٹرز سے لطف اندوز ہونے کی ویڈیوز ان کو ارسال کرکے ان کے فن کی داد دیتے ہیں۔
شیخ محمد آصف نے بتایا کہ وہ زیادہ تر 1962,64 اور 1965 ماڈل کی ویسپا تیار کرتے ہیں جو کلاسک اور اینٹیک کا درجہ رکھتی ہیں اور اپنے منفرد اور دلکش ڈیزائن کی وجہ سے دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہیں۔ اٹلی کے شوقین افراد اس ماڈل کی ویسپا کو اپنے نایاب فن پاروں کے کلیکشن کا حصہ بناتے ہیں اور مردوں سے زیادہ خواتین اس پر سواری کرکے لطف اندوز ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جو ویسپا انہوں نے تیار کرکے اٹلی بھیجیں ان کو زیادہ تر خواتین چلاتی ہیں اور ویسپا کے ساتھ اپنی تصاویر اور ویڈیوز بنانا پسند کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ غیرملکی شوقین افراد ان کی تیار کردہ ویسپا دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں اور کام کے معیار کی تعریف کرتے ہیں آج تک بیرون ملک بھجوائی جانے والی کسی بھی ویسپا میں کوئی تکنیکی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ ویسپا اسکوٹرز کی ریسٹوریشن مشکل اور مہنگا شوق ہے ایک ویسپا کی مکمل بحالی میں دو سے ڈھائی لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے پرزے تلاش کرنا مشکل کام ہے جس میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔ اٹلی کے خریدار اٹلی سے پرزے منگواتے ہیں جس سے یہ مشکل قدرے آسان ہوجاتی ہے لیکن پرزے باہر سے منگوانے پر بہت خرچ آتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مقبول ماڈلز کی ویسپا اب نایاب ہوچکی ہیں زیادہ تر کباڑ کی شکل اختیار کرچکی ہیں جن کی ملکیتی دستاویزات بھی مشکل سے ملتی ہیں ان کے خریدار تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد ویسپا خریدتی ہیں اس لیے مکمل ملکیتی دستاویزات کی حامل ویسپا تلاش کرنا ہوتی ہیں جو کافی مشکل سے ملتی ہیں۔ غیر ملکی خریدار اپنے شوق کے لیے ویسپا تیار کرواتے ہیں بہت کم ہی فروخت کرتے ہیں۔غیرملکی خریداروں کے علاوہ پاکستان میں بھی ویسپا کے مداح مقبول ماڈلز شوق سے ری اسٹور کرواتے ہیں اور بعض ویسپا اسکوٹرز کی بحالی پر پانچ لاکھ روپے تک خرچ کرچکے ہیں تاہم ملکی خریداروں کی تعداد غیرملکی خریداروں سے کافی کم ہے۔
شیخ محمد آصف کے مطابق حالیہ معاشی بحران اورمہنگائی کی وجہ سے ویسپا اسکوٹرز کی بحالی کا کام بھی متاثر ہورہا ہے بیرون ملک سے پرزے منگوانا بہت مہنگا پڑرہا ہے اس لیے اب یہ کام تقریباً رک سا گیا ہے۔ جب یہ کام عروج پر تھا تو سال میں 10سے 12 ویسپا اسکوٹرز تیار کرلیتے تھے اب بمشکل سال میں ایک دو ہی بنائی جارہی ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے ویسپا کی ریسٹوریشن پر بہت خرچہ آرہا ہے اور شوقین افراد بھی پیسہ لگانے سے گریز کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان دنوں کلاسک گاڑیوں کا کلیکشن رکھنے و الے افراد ان سے گاڑیاں تیار کروارہے ہیں۔
شیخ محمد آصف کے مطابق ان کے غیرملکی خریدار جب ان کی تیار کردہ ویسپا اسکوٹرز کی ویڈیوز اور تصاویر انہیں بھیجتے ہیں تو ان کا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے کہ ایک پاکستانی مکینک کے کام پر دنیا اعتبار کرتی ہے اور پاکستانی ہرمندوں کے کام کو بین الاقوامی سطح پر سراہا جاتا ہے جس سے دنیا میں پاکستان کا نام روشن ہورہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کو بھی یہ فن اور ہنر منتقل کرچکے ہیں فطری طور پر ان کا بیٹا بھی ویسپا اسکوٹرز سے لگاؤ رکھتا ہے اور اب ریسٹوریشن کے زیادہ تر کاموں میں بیٹا ہی ان کا مددگار ہوتا ہے۔
شیخ محمد عمر کا کہنا ہے کہ ویسپا اسکوٹرز کی ریسٹوریشن کے کام کا مستقبل روشن ہے اس کے ذریعے دنیا کے سامنے پاکستان کا پر امن چہرہ سامنے لانے اور پاکستانی ہنرمندوں کی مہارت کاکو اجاگر کرنے میں مدد ملیگی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ آٹو انجینئرنگ میں ڈپلومہ مکمل کرچکے ہیں اور وہ اس شعبہ میں اعلٰی تعلیم حاصل کرکے اس کام کو جدت دینے کے خواہش مند ہیں۔
شیخ محمد عمر نے بتایا کہ ان کی تیار کردہ ویسپا اسکوٹرز کو مقامی سطح پر بھی بہت زیادہ سراہا جاتا ہے۔ ویسپا اسکوٹرز میں نوجوان بہت زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور اس کے ساتھ تصاویر بناکر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں اور ان کے کام کی تعریف کرتے ہیں جس سے انہیں بہت خوشی ہوتی ہے۔