بلوچستان کی شکایات کب دور ہوں گی
پسنی کی رجسٹرڈ ماہی گیر تنظیم کا کہنا ہے کہ پسنی کے سمندری نظام میں پسنی کے تاجروں کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی پیک کے نام پر بلوچستان میں کچھ نہ ہو سکا۔ اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بلوچستان سے زیادتیاں ختم کریں۔ عوام کا بھی احساس کیا جائے وہ بھی پاکستانی ہیں۔
آبادی میں سب سے کم، رقبے میں سب سے بڑا، قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان کو شکایات موجودہ حکومت ہی سے نہیں بلکہ ہر حکومت میں رہی ہیں اور کسی حکومت نے بلوچستان کو اہمیت دی نہ اس کا حق دیا بلکہ بڑے بڑے دعوے ہر دور میں ہوئے مگر وعدہ کوئی وفا نہیں ہوا۔ لاپتا افراد کی بڑی تعداد کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ گوادر میں مسائل کے حل کے لیے اس سرد موسم میں طویل دھرنا بلوچستان کی شکایات کا ایک واضح ثبوت ہے۔
بی این پی مینگل ملک کی واحد پارٹی ہے جو وزارتوں کے بجائے بلوچستان کو درپیش مسائل کے حل اور عوام کے حقوق کی بات کرتی ہے جس نے گزشتہ حکومت میں وزارتیں نہیں لی تھیں اور اپنے مطالبات پیش کیے تھے مگر عمران خان حکومت نے نہ وعدے پورے کیے تھے بلکہ سابقہ حکومتوں کی طرح بلوچستان سے جھوٹے وعدے کیے مگر عمل نہیں کیا تھا جس پر اختر مینگل نے حکومت کی حمایت ترک کرکے تحریک اعتماد میں موجودہ حکومت سے امیدیں وابستہ کی تھیں مگر موجودہ اتحادی حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح ثابت ہوئی اور اتحادی حکومت نے ریکوڈک کی قانون سازی میں بلوچستان کے منتخب نمایندوں کو اعتماد میں نہیں لیا اور وہاں کے منتخب کے سخت احتجاج پر بلوچستان کا حصہ 25 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد کردیا ہے جس سے وہ کچھ مطمئن ہوئے ہیں۔
بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں بے روزگاری، غربت، ناخواندگی، پینے اور زرعی پانی کی قلت اور دیگر بنیادی سہولیات دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے کے اکثر علاقے سوئی گیس، بجلی اور طبی سہولتوں سے محروم ہیں۔ بلوچستان میں صنعتیں صرف حب میں ہیں جو کراچی کے قریب ہے اور کراچی کے ہزاروں افراد حب میں ملازمتیں کرنے آتے ہیں جب کہ وسیع و عریض بلوچستان کے لوگوں کے لیے صرف حب واحد صنعتی مرکز ہے۔
بلوچستان میں زراعت بھی چند اضلاع تک محدود ہے۔ صوبے میں آمد و رفت کے ذرایع بھی محدود ہیں اور حالیہ بارشوں اور سیلاب سے بعض اضلاع کے لاکھوں افراد متاثر اور ہزاروں بے گھر ہوئے مگر انھیں حکومتی امداد برائے نام ملی جس سے غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان کی حکومت کی اس سلسلے میں کارکردگی ناقص رہی البتہ وزیر اعظم شہباز شریف نے صوبے کے متاثرہ علاقوں کے متعدد دورے کیے مگر نتیجہ خاص نہیں نکلا۔
سندھ ، پنجاب حکومت اور مخیر حضرات نے بلوچستان کے متاثرین کی کچھ مدد ضرور کی مگر کے پی حکومت نے بلوچستان کی کوئی مدد نہیں کی۔ بلوچستان کے کافی علاقوں میں سمندر ہے اور گوادر کو سمندر کی وجہ سے ہی سی پیک میں شامل کیا گیا تھا مگر سی پیک سے بلوچستان کو وہ فائدہ نہیں ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ گوادر کو کراچی کے متبادل بندرگاہ بنانے اور گوادر کی ترقی کے دعوے تو ہوئے مگر عمل نہیں ہوا۔
پی ٹی آئی حکومت نے سی پیک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا اور عمران خان نے سندھ کی طرح بلوچستان میں بھی کبھی ایک رات نہیں گزاری۔ کوئٹہ کے دہشت گردی سے متاثرہ افراد سخت سردی میں دھرنے میں کئی روز اپنے پیاروں کی لاشیں رکھے وزیر اعظم کا انتظار کرتے رہے مگر وہ نہیں آئے۔
گوادر کو بلوچستان میں منفرد حیثیت حاصل ہے اور گوادر کی ترقی کی باتیں بہت ہوتی ہیں مگر گوادر کے عوام کو پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ بجلی۔ جس شہر گوادر میں پینے کا صاف پانی اور بجلی و جدید رہائشی سہولیات میسر نہ ہوں وہاں ترقی کا صرف خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے۔
گوادر کے ماہی گیروں اور لوگوں کے روزگار کا بڑا ذریعہ مچھلی کا کاروبار ہے مگر ایک عرصے سے وہاں غیر ملکی ٹرالر آ کر غیر قانونی طور پر مچھلی پکڑ کر گوادر کا یہ حق بھی چھین رہے ہیں جس پر سیاسی اور عوامی حلقے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہو رہی اور غریب ماہی گیروں کا روزگار چھینا جا رہا ہے اور حکومت لگتا ہے اس غیر قانونی فشنگ کے آگے بے بس ہو چکی ہے۔
پسنی کی رجسٹرڈ ماہی گیر تنظیم کا کہنا ہے کہ پسنی کے سمندری نظام میں پسنی کے تاجروں کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا اور باہر کے چند پسندیدہ تاجروں کو سمندر پر راج کا حق دیا ہوا ہے جو سراسر غیر قانونی اور ناانصافی ہے۔ پسنی والے سندھ کی ڈوھنڈا کشتیوں کی ٹھیکیداری پر بھی احتجاج کرتے آ رہے ہیں۔ ماہی گیری سیکریٹری آدم قادر بخش کے مطابق کنڈ ملیر رسملان میںغیر قانونی فشنگ ہو رہی ہے مگر کوئی روکنے والا نہیں ہے۔
یہ درست ہے کہ بلوچستان کے وسائل پر سب سے زیادہ حق مقامی افراد کا ہے مگر فائدے غیر مقامی افراد اٹھاتے آ رہے ہیں اور بلوچستان کے لوگوں سے روزگار کا یہ حق بھی چھینا جاتا ہے جو سراسر زیادتی ہے اور زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خاتمے پر توجہ دیے بغیر عوام کی جائز شکایات رفع نہیں ہو سکتیں۔
آبادی میں سب سے کم، رقبے میں سب سے بڑا، قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان کو شکایات موجودہ حکومت ہی سے نہیں بلکہ ہر حکومت میں رہی ہیں اور کسی حکومت نے بلوچستان کو اہمیت دی نہ اس کا حق دیا بلکہ بڑے بڑے دعوے ہر دور میں ہوئے مگر وعدہ کوئی وفا نہیں ہوا۔ لاپتا افراد کی بڑی تعداد کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ گوادر میں مسائل کے حل کے لیے اس سرد موسم میں طویل دھرنا بلوچستان کی شکایات کا ایک واضح ثبوت ہے۔
بی این پی مینگل ملک کی واحد پارٹی ہے جو وزارتوں کے بجائے بلوچستان کو درپیش مسائل کے حل اور عوام کے حقوق کی بات کرتی ہے جس نے گزشتہ حکومت میں وزارتیں نہیں لی تھیں اور اپنے مطالبات پیش کیے تھے مگر عمران خان حکومت نے نہ وعدے پورے کیے تھے بلکہ سابقہ حکومتوں کی طرح بلوچستان سے جھوٹے وعدے کیے مگر عمل نہیں کیا تھا جس پر اختر مینگل نے حکومت کی حمایت ترک کرکے تحریک اعتماد میں موجودہ حکومت سے امیدیں وابستہ کی تھیں مگر موجودہ اتحادی حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح ثابت ہوئی اور اتحادی حکومت نے ریکوڈک کی قانون سازی میں بلوچستان کے منتخب نمایندوں کو اعتماد میں نہیں لیا اور وہاں کے منتخب کے سخت احتجاج پر بلوچستان کا حصہ 25 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد کردیا ہے جس سے وہ کچھ مطمئن ہوئے ہیں۔
بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں بے روزگاری، غربت، ناخواندگی، پینے اور زرعی پانی کی قلت اور دیگر بنیادی سہولیات دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے کے اکثر علاقے سوئی گیس، بجلی اور طبی سہولتوں سے محروم ہیں۔ بلوچستان میں صنعتیں صرف حب میں ہیں جو کراچی کے قریب ہے اور کراچی کے ہزاروں افراد حب میں ملازمتیں کرنے آتے ہیں جب کہ وسیع و عریض بلوچستان کے لوگوں کے لیے صرف حب واحد صنعتی مرکز ہے۔
بلوچستان میں زراعت بھی چند اضلاع تک محدود ہے۔ صوبے میں آمد و رفت کے ذرایع بھی محدود ہیں اور حالیہ بارشوں اور سیلاب سے بعض اضلاع کے لاکھوں افراد متاثر اور ہزاروں بے گھر ہوئے مگر انھیں حکومتی امداد برائے نام ملی جس سے غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان کی حکومت کی اس سلسلے میں کارکردگی ناقص رہی البتہ وزیر اعظم شہباز شریف نے صوبے کے متاثرہ علاقوں کے متعدد دورے کیے مگر نتیجہ خاص نہیں نکلا۔
سندھ ، پنجاب حکومت اور مخیر حضرات نے بلوچستان کے متاثرین کی کچھ مدد ضرور کی مگر کے پی حکومت نے بلوچستان کی کوئی مدد نہیں کی۔ بلوچستان کے کافی علاقوں میں سمندر ہے اور گوادر کو سمندر کی وجہ سے ہی سی پیک میں شامل کیا گیا تھا مگر سی پیک سے بلوچستان کو وہ فائدہ نہیں ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ گوادر کو کراچی کے متبادل بندرگاہ بنانے اور گوادر کی ترقی کے دعوے تو ہوئے مگر عمل نہیں ہوا۔
پی ٹی آئی حکومت نے سی پیک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا اور عمران خان نے سندھ کی طرح بلوچستان میں بھی کبھی ایک رات نہیں گزاری۔ کوئٹہ کے دہشت گردی سے متاثرہ افراد سخت سردی میں دھرنے میں کئی روز اپنے پیاروں کی لاشیں رکھے وزیر اعظم کا انتظار کرتے رہے مگر وہ نہیں آئے۔
گوادر کو بلوچستان میں منفرد حیثیت حاصل ہے اور گوادر کی ترقی کی باتیں بہت ہوتی ہیں مگر گوادر کے عوام کو پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ بجلی۔ جس شہر گوادر میں پینے کا صاف پانی اور بجلی و جدید رہائشی سہولیات میسر نہ ہوں وہاں ترقی کا صرف خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے۔
گوادر کے ماہی گیروں اور لوگوں کے روزگار کا بڑا ذریعہ مچھلی کا کاروبار ہے مگر ایک عرصے سے وہاں غیر ملکی ٹرالر آ کر غیر قانونی طور پر مچھلی پکڑ کر گوادر کا یہ حق بھی چھین رہے ہیں جس پر سیاسی اور عوامی حلقے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہو رہی اور غریب ماہی گیروں کا روزگار چھینا جا رہا ہے اور حکومت لگتا ہے اس غیر قانونی فشنگ کے آگے بے بس ہو چکی ہے۔
پسنی کی رجسٹرڈ ماہی گیر تنظیم کا کہنا ہے کہ پسنی کے سمندری نظام میں پسنی کے تاجروں کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا اور باہر کے چند پسندیدہ تاجروں کو سمندر پر راج کا حق دیا ہوا ہے جو سراسر غیر قانونی اور ناانصافی ہے۔ پسنی والے سندھ کی ڈوھنڈا کشتیوں کی ٹھیکیداری پر بھی احتجاج کرتے آ رہے ہیں۔ ماہی گیری سیکریٹری آدم قادر بخش کے مطابق کنڈ ملیر رسملان میںغیر قانونی فشنگ ہو رہی ہے مگر کوئی روکنے والا نہیں ہے۔
یہ درست ہے کہ بلوچستان کے وسائل پر سب سے زیادہ حق مقامی افراد کا ہے مگر فائدے غیر مقامی افراد اٹھاتے آ رہے ہیں اور بلوچستان کے لوگوں سے روزگار کا یہ حق بھی چھینا جاتا ہے جو سراسر زیادتی ہے اور زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خاتمے پر توجہ دیے بغیر عوام کی جائز شکایات رفع نہیں ہو سکتیں۔