کرسمس امن و سلامتی کا تہوار رواداری کو فروغ دینا ہوگا

مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا ’’کرسمس‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا ’’کرسمس‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

کرسمس کے موقع پر ایکسپریس فورم میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر مجید ایبل

(ایگزیکٹیو سیکرٹری نولکھا پریس بائٹیرین چرچ لاہور)

کرسمس مسیحیوں کے بڑے تہواروںمیں سے ایک ہے۔ جب خدا نے انسان کو پیدا کیا اور باغ عدن میں رکھا تو حکم دیا گیا کہ جو بھی چیزیں تخلیق کی گئی ہیں ان سے محظوظ ہوں لیکن باغ کے درمیان میں موجود ایک درخت ہے کا پھل نہ کھائیں لیکن ابلیس کے بہکاوے میں آکر انسان نے خدا کا حکم توڑا۔ اس طرح گناہ زندگی میں آیا اور انسان کو عدن سے نکال دیا گیا۔

خدا اور انسان کے درمیان جدائی پڑ گئی اور بڑی دیر تک شریعت کے وسیلے سے انسان واپس خدا تک آنے کی کوشش کرتا رہا لیکن یہ ممکن نہیں تھا۔ اس لیے خدا نے خود انسان کیلئے وسیلہ پیدا کیا تاکہ اس سے دوبارہ انسان کا میل ملاپ ہوسکے۔ کرسمس اس بات کی خبر تھی کہ دنیا کا نجات دہندہ دنیا میں آیا ہے جس کے وسیلے سے پھر سے خدا پاک کے ساتھ میل ملاپ ہوجائے گا۔

اس حوالے سے یہ پشین گوئی تھی کہ ایک کنواری حاملہ ہوگی اور اس کے وسیلے سے دنیا کا نجات دہندہ دنیا میں آئے گا ، نام ایمانوئل رکھا جائے گا جس کا مطلب ہے 'خدا ہمارے ساتھ'۔ اسی میں کرسمس کا سارا معنی چھپا ہے۔ دنیا جسے خدا نے بنایا ہے، اگر آپ خدا کے ساتھ نہیں چلیں گے دنیا بھٹک جائے گی۔ پھر ہم اپنے اصل مقصد سے ہٹ جائیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا تاکہ انسان اس کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرے، اپنی زندگی سے اس کے نام کا جلال ظاہر کرے۔ کرسمس کے وسیلے سے ساری انسانیت کویہ خوشخبری دی گئی کہ یسوع مسیحؑ کے وسیلے سے خدا پاک سے ہمارا میل ملاپ ہوگیا اور وہ جو تاریکی گناہ کی وجہ سے چھائی ہے اب وہ مٹ جائے گی کیونکہ نور تاریکی میں چمکا ہے۔

خداوند یسوع مسیحؑ جو ہمارے لیے نور اور روشنی ہیں، ان کے وسیلے سے ہم دنیا کے اندھیروں کو مٹا سکتے ہیں۔انسان کی اصل منزل خدا ہے۔ اگر انسان خدا کے ساتھ جڑا نہیں رہے گا تو پھر وہ بیماریوں، مصیبتوں، جنگ و جدل کا شکار رہے گا۔ آج بھی تاریکی کا دور چل رہا ہے، مشکل حالات ہیں لہٰذاکرسمس کے موقع پر اس پیغام کو پھیلائیں۔ یہی ایک وسیلہ ہے کہ خدا کے ساتھ پھر سے جڑ جائیں۔

کرسمس ' امن اور سلامتی' کا دن ہے۔کرسمس کا پیغام یہ ہے کہ خدا نے ہمیں معاف کیا ہے، ہم سے میل ملاپ کیا ہے لہٰذا وہ یہ چاہتا ہے ہم ایک دوسرے سے بھی میل ملاپ کریں۔ سب سے بڑا حکم بائبل میں ہے کہ تو اپنے خدا سے پوری طاقت سے، عقل سے محبت رکھ۔ اس کے برابر دوسرا حکم یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔ لہٰذا جب تک ہم اپنے پڑوسی کے ساتھ تعلقات درست نہیں رکھتے ہم کس طرح خدا کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کر سکتے ہیں۔

ہماری مشکلات کا بہترین حل یہی ہے کہ ہم معافی، برداشت اور صلح کو اپنائیں۔ ہر مذہب میں خوبصورتی سے انسانیت اور مذہب کے احترام کی تعلیم دی گئی ہے۔ دین اسلام میں حقوق العباد پر سب سے زیادہ زور دیا گیا۔اس وقت دنیا میں آدھی سے زائد آبادی مسیحی اور مسلمان ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کو برداشت کریں تو بہت سارے مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔

پاکستان میں سکھ اور ہندو برادری کی تعداد اگرچہ کم ہے مگر ان کے وجود کو تسلیم کرنا اور بطور پاکستانی ان سے ملنا ہمارے ملک کی ترقی کا ضامن ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے سے دور رہیں گے تو ملک کو کمزور کریں گے۔

بشپسباسٹین شا

(آرچ بشپ آف لاہور)

یسوع مسیحؑ سب کے لیے محبت کا پیغام لے کر آئے۔ آپؑ کی پیدائش پر فرشتوں نے یہ نغمہ گایا کہ عالم بالا پر خدا کو جلال اور زمین پر نیک انسانوں کیلئے سلامتی۔ کرسمس امن اور سلامتی کا تہوار ہے،اس وقت دنیا کو امن و سلامتی اور بھائی چارے کی ضرورت ہے لہٰذا ہمیں اسے فروغ دینا ہوگا۔ یسوع مسیحؑ نے ہمیشہ سلامتی کی تعلیم دی۔ کتاب میں ہے کہ مبارک ہیں وہ لوگ جو رحم دل ہیں، مبارک ہیں وہ لوگ جو صلح کراتے ہیں۔

رحم دلی اور صلح کرانا ہمارے مذہبی اقدار میں شامل ہیں۔ یسوع مسیحؑ تربیت کے دوران اپنے شاگردوں سے فرماتے ہیں کہ تم ایک دوسرے کو پیار کرو اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر تم صرف انہیں ہی سلام کرو جنہیں تم جانتے ہوتو اس کا کیا فائدہ بلکہ جنہیں تم نہیں جانتے انہیں بھی سلام کرو اور ان میں پیار و محبت بانٹو۔یسوع مسیح ؑ نے پیار و محبت کے پیغام کو عالمگیر بنایا اور آج ہمارا بھی یہی مشن ہے۔

مسیحی برادری نے تعلیم، صحت کے شعبوں، پاکستان کے حصول کی جدوجہد اور ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تمام مذاہب کے لوگوں نے مل کر پاکستان بنایا، یہاں موجود لوگ اکٹھے رہتے ہیں، ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں، انٹر فیتھ ہارمنی کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ افواج پاکستان میں بھی مسیحی ودیگر مذاہب کے پیروکار موجود ہیں جو ملک کی حفاظت کر رہے ہیں، دعا ہے اس عید کے موقع پر خدا اس ملک کو تمام مشکلات سے نکالے۔


کچھ ماہ قبل بارشوں اور سیلاب سے ملک میں ہولناک تباہی ہوئی، لوگ بے گھر ہوگئے، سب ملیا میٹ ہوگیا، مہنگائی نے لوگوں کا جینا مشکل کر دیا ہے، معاشی صورتحال ابتر ہے، سیاسی طور پر بھی حالات اچھے نہیں ہیں لہٰذا سب کو ملکر امن کے شہزادے یسوع مسیحؑ کی عید کے موقع پر دعا کرنی چاہیے کہ خدا ہمیں ان مشکلات سے نجات دے تاکہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آئے اور لوگوں کی زندگیاں آسان ہوں۔

پروفیسر مسعود احمد مجاہد

(مذہبی سکالر و ممبر نیشنل کونسل فار انٹرفیتھ ہارمنی پاکستان)

دین اسلام کا نام ہی سلامتی ہے۔ قرآن مجید میں باقاعدہ طور پر ایک سورۃ کا نام سیدہ مریمؑ کے نام پر رکھا گیا۔ سیدنا عیسیٰ ؑ روح اللہ، آیت اللہ، اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی، عظمتوں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار ہیں۔ حضرت آدمؑ کے بعد سیدنا عیسیٰ ؑ ، دوبارہ اللہ تعالیٰ کیلئے آدم ؑثانی ہیں، کہ بغیر والد کے اللہ تعالیٰ نے ان ؑکو عزت و احترام عطا فرمایا۔ ان ؑکے معجزات ،شخصیت، تقویٰ اور پرہیزگاری کمال ہے۔

پیغمبروں میں سیدنا یحییٰ ؑکے بعد بچپن میں، پنگھوڑے میں اپنی نبوت کا اظہار فرما رہے ہیں۔ اس سے ان ؑ کی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کرسمس کا تعلق حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاؑء کی پیدائش کا ذکر کیا ہے خصوصاََسیدنا آدمؑ ، سیدنا موسیٰ ؑ، سیدنا ابراہیمؑ، بنی کریمﷺ کی عید میلاد۔ ہماری مسیحی برادری عید میلاد النبیﷺ پر تمام مسالک کے علماء کو اکٹھا کر لیتی ہے، جو انتہائی اہم ہے۔

جو اپنے مدارس میں عید نہیں مناتے وہ ان کے کہنے پر، ان کے زیر اہتمام عید میلاد النبیؐ منانے چلے جاتے ہیں۔ یہ پاکستان میں مسیحی برادری کی طرف سے ایک عمدہ مثال ہے۔ نبیؐ امام الانبیاء ہیں۔ آپﷺ کو قیصر روم ، کسریٰ کی طرف سے تحائف بھیجے جاتے ہیں، تو آپؐ قبول فرماتے ہیں، تنگ نظری کے بجائے ان کی طرف پیغام بھی بھیجا جاتا ہے۔ جتنے بھی مذاہب میں ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں ان کے ساتھ آپؐ کا برتاؤ سب کے سامنے ہے۔

دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ بھی سلوک اچھا تھا۔ مکہ مکرمہ میں مشرکین کے تنگ کرنے کے باوجود آپؐ نے انہیں پیغام محبت دیا۔ مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں موجود یہودی و دیگر مذاہب کے ساتھ میثاق مدینہ کیا۔ غیر مسلموں اور مشرکین کو حقوق دیے۔ نجران سے مسیحی برادری کا وفد آیاتو انہیں مسجد میں عبادت کی اجازت دی گئی۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے بعض مسلمان تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کی مثالیں موجود ہیں۔

جب مصر فتح کیا گیا تو سیدنا عمرؓ نے ان کے سب سے بڑے چرچ میں اس وجہ سے نماز ادا نہیں کی کہ کہیں بعد میں آنے والے لوگ اسے مسجد میں تبدیل نہ کردیں۔ سلطنت امیہ، عباسیہ، عثمانیہ میں بھی دیگرمذاہب کی عبادتگاہوں اور چادر چار دیواری کا تقدس ملحوظ خاطر رکھا گیا۔اندلس کی تاریخ میں مشیر عیسائی تھے، جبکہ اقتدار مسلمانوں کے پاس تھا۔ مسلمانوں کی تاریخ میں مسیحیوں نے بڑا کردار ادا کیا، خصوصاََ علم کے شعبے میں۔

اب ہم گلوبل ویلیج میں رہتے ہیں، ہم ان روایات سے فرار اختیار نہیں کرسکتے، ہمیں سب کے ساتھ محبت، اخلاق اور اتفاق کے ساتھ رہنا ہوگا۔ سب کے ساتھ خوش اخلاقی سے برتاؤ اسلام کا آئینہ ہے، اپنے مذہب کو چھوڑیں نہیں، کسی کے مذہب کو چھیڑیں نہیں۔اس وقت ملک میں سیاسی تناؤ موجود ہے، حالات مزید کشیدہ ہورہے ہیں، تمام مذاہب کے رہنماؤں، پیشواؤں،علماء کو آگے آنا ہوگا اور ملکی یکجہتی کے لیے فضا کو سازگار بنانے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔

پروفیسر ڈاکٹر کلیان سنگھ

(ممبر نیشنل کونسل فار انٹرفیتھ ہارمنی پاکستان)

پنجاب کی سرزمین سدا سہاگن ہے۔ یہاں تہوار اور میلے ہوتے ہیں۔ کرسمس کو ہمارے ہاں بڑا دن کہا جاتا ہے۔ بیساکھی، بابا گرونانک کا جنم دن، کرسمس و بابائے قوم ؒکا جنم دن ہو یا کوئی اور تہوار، یہ ہمارے لیے امن، پیار، محبت اور خوشی لے کر آتے ہیں۔ دوسروں کی خوشی میں شریک ہونا ہماری ثقافت ہے۔ عیسائی اور مسلمان دونوں ہی حضرت عیسی ؑ کا جنم دن مناتے ہیں۔

پاکستان میں تمام مذاہب کے لوگ متحد ہیں، یہی ہماری خوبصورتی ہے اور طاقت بھی۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ فضا آگے بھی جاری رہے اور سب متحد ہوکو کر آگے بڑھتے رہیں۔ کرسمس کو بطور پاکستانی مشترکہ طور پر منانا چاہیے۔ ہمارا کلچر سارے مذاہب کو تسلیم کرتا ہے۔ سارے مذاہب میں پیار محبت کی بات ہے۔

اقبالؒ کا ایک شعر ہے: مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔ مذاہب میں پیار، محبت اور ایک دوسرے کی قبولیت ہے۔ بابا فریدؒ گرو گرنتھ میںموجود ہیں۔ گولڈن ٹیمپل امرتسر کا سنگ بنیاد میاں میرؒ نے رکھا۔ سکھ دھرم اور اسلام دونوں کا بنیادی اصول بین المذاہب ہم آہنگی ہے۔ آپﷺ کے دور میں مسیحی مبغلوں کو جگہ دی گئی۔ کوڑا پھینکے والی عورت سے شفقت کی گئی۔ آپﷺ نے اپنے آخری خطبے میں برابری کی بات کی، کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی بلکہ صرف تقویٰ کی بنیاد پر فوقیت دی گئی۔

یسوع مسیحؑ کی تعلیم انسانیت تھی اور انؑ کی شہادت بھی انسانیت کیلئے ہی ہے۔ تمام مذاہب میں اعلیٰ سطح پر جو پیار، محبت موجود ہے اسے عام کرنا چاہیے۔ ہمیں تمام مذاہب کی اصل فلاسفی کو فروغ دینا چاہیے۔ مسیحیت میں پڑوسی سے محبت کو خدا سے محبت کے برابر قرار دیا گیا۔

بابا فریدؒ کہتے ہیں کہ خالق، خلق میں بستا ہے اور خلق رب میں بستی ہے۔ کس کو برا کہتے ہو، سب اس میں اور وہ سب میں بستا ہے۔ اسلام میں رب کا شہ رگ سے قریب ہونے کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ رب انسان کے اندر بستا ہے۔ کسی بھی صورت معاشرے میں نفرت کو ہوا نہ دیں بلکہ انسانوں سے محبت کریں کیونکہ ان میں رب بستا ہے۔

کرسمس کے موقع پر میرا پیغام ہے کہ ایک دوسرے کو خوشدلی سے قبول کریں، نفرت کا خاتمہ کریں۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال یقینی بنانے، بدامنی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی ضروری ہے۔
Load Next Story