اصل مسئلہ پارلیمنٹ ہے

پارلیمنٹ میں عوامی مسائل سے زیادہ سیاستدانوں کے ذاتی مسائل اور مفادات پر بات ہوتی ہے

پارلیمنٹ نے حقیقی ذمے داری نبھائی تو سیاستدانوں کی دکان بند ہوجائے گی۔ (فوٹو: فائل)

پارلیمنٹ جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ پارلیمنٹ کا کام جمہوریت میں رہتے ہوئے جمہور کے مسائل کا حل اور ان کو سہولیات فراہم کرنا ہے۔ قانون سازی کے ذریعے ان کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا، نئے قوانین بنانا، اداروں کا کردار متعین کرنا اور انہیں ان کا کام بتانا بھی اسی پارلیمنٹ کی اہم ذمے داریوں میں شامل ہے۔ عوام ووٹوں کے ذریعے اپنے اپنے علاقوں، حلقوں سے اپنی پسند کے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں جو منتخب ہونے کے بعد پارلیمنٹ میں جاکر ان کے مسائل کا حل نکالنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی تیاری بھی کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں رائج اس نظام کو انتہائی موثر اور طاقت ور گردانا جاتا ہے۔ اس نظام میں احتساب کو خاص اہمیت دی گئی ہے جس میں پارلیمنیٹرین کے اثاثے، ان کا کاروبار وغیرہ بھی منظر عام پر لانا لازم ہوتا ہے اور یہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ کوئی منتخب نمائندہ جب اپنی مدت پوری کرے تو لوگ دیکھ سکیں کہ پہلے اس کے پاس کیا تھا اور اب کیا ہے؟ کیا اس نے عہدے کا غلط استعمال تو نہیں کیا؟ اگر کیا ہے تو پھر قانون حرکت میں آتا ہے جہاں سزا اور جزا کا نظام بھی وضع ہے۔

تاہم وطن عزیز میں سب سے بڑ ا مسئلہ پارلیمنٹ خود ہے، جہاں سے شروع ہونے والی جنگ پورے ملک پر اثر انداز ہوتی ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ دنیا کی واحد پارلیمنٹ ہے جہاں لوگوں کے مسائل تو کبھی حل نہیں ہوئے، مگر ان کے اپنے مسائل بھی کبھی حل ہوتے نہیں دیکھے گئے۔ اس پارلیمنٹ میں ہمیشہ ہنگامہ آرائی، گالم گلوچ، لڑائی جھگڑا ہی دیکھا، ایک دوسرے کو ذلیل کرنے کی روایت بھی اسی پارلیمنٹ نے ڈالی، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کے راز کھولنے میں بھی یہ ہی پارلیمنٹ سرفہرست ہے۔ یہاں اجلاس کے موقع پر کبھی یہ نہیں لگا کہ یہ ایک ملک کی نمائندگی کےلیے اکھٹے ہوئے ہیں یا کبھی ایسا محسوس تک نہیں ہونے دیا گیا کہ یہ جمہور کی فلاح وبہود کےلیے جمع ہیں، بلکہ جب بھی اجلاس ہوتا ہے تو ہمیشہ اپنے ہی مسائل سے شروع ہوکر اپنے ہی مسائل پر اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی ہوتے دیکھا۔ یہاں عوام کو کچھ بھی کہہ دیں، کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر جس عوام نے انہیں منتخب کیا انہیں اگر کچھ کہہ دیا جائے تو فوراً بائیکاٹ والی کہانی سامنے آجاتی ہے۔

دنیا بھرمیں اسپیکر کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، جب کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے سامنے کھڑے ہوکر آپ گالم گلوچ کرسکتے ہیں اور بل کی کاپیاں پھاڑ کر ان کے منہ پر مار سکتے ہیں۔ اور ہمارے اسپیکر مسکرائے ہوئے اجلاس غیر معینہ مدت کےلیے ملتوی کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ پاکستانی پارلیمنٹ اور مچھلی مارکیٹ دونوں میں ایک ہی کام ہوتا ہے، دام اچھے لگنے چاہئیں، کاروبار چلنا چاہیے۔ معاملات حرف آخر نہیں بلکہ بار بار نظرثانی کی حد تک رکھے جاتے ہیں۔

پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے بل عوام کو آج تک ریلیف فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہی رہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کئی بڑے بڑے بل جو پاس کیے گئے ان کا آج نام ونشان تک موجود نہیں، وہ قانون کی شکل تو اختیار کرگئے، مگر عوام آج تک ان سے مستفید نہ ہوسکے۔ پارلیمنٹ میں عوام کے مسائل پر بات کرنے پر دیگر پارلیمنٹیرین اور اسپیکر مسکرا کر عجیب عجیب نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ابھی نیا نیا جوش ہے، تھوڑا پرانا ہوگا تو عوام کے مسائل پر بات کرنے کے قابل بھی نہیں رہے گا، ہر وقت اپنے ہی مسائل میں الجھا رہے گا۔ ہم آج اپنی پارلیمنٹ میں یہ سب دیکھتے رہتے ہیں۔ قانون بنانے والے ادارے کے مسائل خود قانون پر عمل کرنے والے حل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔


اگر ہماری پاکستانی پارلیمنٹ کو ریلیف پارلیمنٹ کا نام دیا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا۔ اس پارلیمنٹ کو ہر کسی نے گنگا سمجھ کر اشنان کیا ہے۔ ہاتھ دھونا اب چھوٹی بات ہوگئی، اس لیے اشنان کا لفظ استعمال کیا۔ اگر آپ ایک پارلیمنٹیرین ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کس بل سے آپ کو ریلیف مل سکتا ہے اور کس بل میں اگر فلاں شق کا اضافہ یا ترمیم کردی جائے تو اس سے کتنا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس بات کا اظہار سپریم کورٹ بھی کرچکی ہے جس میں یہ ریمارکس بھی ہمیں سننے کو ملے کہ پارلیمنٹ کے بل سے سب سے زیادہ فائدہ عوام کا دکھ درد رکھنے والے عوامی نمائندوں نے ہی اٹھایا۔

موجودہ وقت میں پنجاب اسمبلی اس وقت فٹبال بنی ہوئی ہے، کبھی ق لیگ کھیلے گی تو کبھی ن لیگ کی باری۔ ہر اجلاس میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی کی بازگشت، اسپیکر کو ہٹانے کی مہم، کبھی ہماری باری کی صدائیں تو کبھی اسمبلی ختم کرنے کے قصے سننے کو مل رہے ہیں۔ لیکن اس تمام صورت حال میں کسی کو بھی عوام کی رتی برابر بھی فکر نہیں۔ آج ہم جہاں کھڑے ہیں ان حالات میں تو صومالیہ بھی نہیں ہوگا۔ ہماری معیشت تباہ ہوگئی، ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا خدشہ ہے، ہزاروں کنٹینر پورٹ پر کھڑے ہیں کیوں کہ بینکوں کے پاس ڈالر ختم ہوچکے ہیں جو انہیں کلیئر کراسکے۔ غریب بھوک سے مررہے ہیں، لوگ بچوں کو زندہ دفن کررہے ہیں، لیکن ہماری مستیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔

ہمارے پاس احتساب کی ایسی لانڈری بھی موجود ہے جہاں سے ہر طاقتور خود کو پاک صاف کروا کر باہر نکلتا ہے۔ آج تک اس احتساب والی لانڈری سے کوئی بھی ایسا شخص باہر نہیں نکلا جسے سزا دی گئی ہو۔ یہ ہمارے نکمے سیاستدانوں کے ماتھے کا جھومر ہے۔ اور غریب کےلیے موت کے سوا کچھ نہیں۔ عوام انصاف، امن وامان اور مہنگائی کی صدائیں لگا لگا کر مررہے ہیں اور پارلیمنٹ ہماری باری، ہماری باری میں لگی ہوئی ہے۔ دنیا ہمارا تماشا دیکھ کر ہنس رہی ہے اور ہمیں لگ رہا ہے وہ ہم سے خوش ہے۔ پاکستان کی ترقی کا خواب اب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ اس کی وجہ بھی پارلیمنٹ ہے، جو کبھی پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں کرے گی، اور اگر اس نے ایسا کیا تو پھر سیاستدانوں کا کیا ہوگا؟ اس لیے سوتے رہیے اور روتے رہیے۔
ہم خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اور یہ مزے بہت جلد پاکستان کو کوڑیوں کے بھاؤ بکنے پر مجبور کردیں گے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈبینک اس کے پہلے خریدار ہوں گے۔ اور یقیناً اس وقت بھی ہم ایک دوسرے پر الزام تراشی میں ہی لگے ہوں گے کہ فلاں کی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے یہ ہوا، فلاں کے اقدامات نے ملک کو اس نہج پر لاکھڑا کیا۔

ہم پاکستانیوں کی ایک عادت بہت مشہور ہے کہ ہم مستقبل کو دیکھنے کے بجائے ہمیشہ ماضی کے مردے نکالنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ آج بھی ایسا ہی ہورہا ہے، ہم آگے بڑھنے اور آگے کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے اپنے مفادات کی سیاست کرتے ہوئے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور جھکانے پر لگے ہوئے ہیں۔ دعا ہے پاکستان ترقی کرے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پارلیمنٹ اور اس نظام کے ہوتے ہوئے ہم اب ترقی تو نہیں لیکن تنزلی زیادہ جلدی کررہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story