حنوط شدہ قیمتی جانور اور تصاویر کا خزانہ سندھ وائلڈ لائف میوزیم
اس عجائب گھر میں سینکڑوں اقسام کے پرندوں، رینگنے والے جانوروں اور ممالیوں کی حنوط شدہ لاشیں موجود ہیں
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، انسانی دباؤ اور تعمیرات سے جنگلی حیات کے قدرتی مسکن تباہ ہونے سے ان کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اس ضمن میں سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ نے ایک اہم میوزیم تعمیر کیا ہے جہاں ایک ہی چھت کے نیچے سینکڑوں جانوروں کو دیکھا جاسکتا ہے۔
سندھ وائلڈ لائف میوزیم میں اڑنے والے 350 اقسام کے پرندوں، 102رینگنے والے،80ممالیہ جانوروں کی مختلف اقسام حنوط شدہ حالت اور تصویری شکل میں رکھا گیا ہے، میوزیم میں سندھ آئی بیکس، اڑیال سمیت دیگر جانوروں کو خاص کیمیکل کے ذریعے عرصہ 30سال تک کے لیے محفوظ کیا گیا ہے۔
زرد پتھروں سے تعمیر کردہ قدیم تاریخی عمارت میں قائم سندھ وائلڈ لائف میوزیم میں صوبے بھر میں پائے جانے والی جنگلی حیات کی حنوط شدہ اقسام اور تصاویر کو زینت بنایا گیا ہے، نقل مکانی کرنے والے پرندوں، مارخور،سانپ، چھپکلی، دریائے سندھ کی اندھی ڈولفن، کورل ریفس (مونگے کی چٹان) سمیت بیشتر جانور میوزیم کا حصہ ہے، ان جانوروں کو دیکھنے پر اصل کا گمان ہوتا ہے جو عملِ حنوط پر مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔
اسی میوزیم میں میدانی و پہاڑی علاقے کی نادر و نایاب نسل کے جانوروں کی باقیات اور تصاویربھی موجود ہیں جو کبھی سندھ میں پائے جاتے تھے، یا انھوں نے ماضی بعید میں کسی دوسرے مقام سے سندھ میں نقل مکانی کی تھی۔
سندھ وائلڈ لائف کے ایڈمن ممتاز سومرو کے مطابق میوزیم لگ بھگ 25سال تک بند رہا تھا تاہم سن 2018 میں اسے موجودہ کنزرویٹر جاوید مہر کی کوششوں سے دوبارہ فعال کیا گیا۔
ممتاز سومرو کے مطابق میوزیم کو قائم کرنے کی اہم وجہ شائقین اور بالخصوص طلبا و طالبات کو معلومات فراہم کرنا ہے جہاں محققین بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جانوروں کو حنوط کرنے والوں کی باقاعدہ ٹیم ہے جوایک خاص طریقہ کار سے ان جانوروں کو محفوظ کرنے کا عمل کرتے ہیں۔ حنوط کرنے کے عمل میں مختلف قسم کے کیمیکلز کا سہارا لیا جاتا ہے، اس میں سے بیشتر جانور اپنے اصل کھال اور ڈھانچے میں موجود ہے، تاہم ضرورت کے مطابق جانور کو دوبارہ اصل شکل میں ڈھالنے کے لیے فائبر اور پیرس کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حنوط کردہ جانور اس عمل کے بعد 25 سے 30سال کے عرصے لیے محفوظ ہو جاتے ہیں، ممتاز سومرو کے مطابق کسی جانورکو مار کر کبھی حنوط نہیں کیا جاتا، رینگے، اڑنے والے یا پھر چوپائے جو اپنی طبعی موت مرجاتے ہیں۔
ان کو حنوط کیا جاتا ہے، ان جانوروں میں اڑیال، سندھ آئی بیکس، مختلف اقسام کے سانپ، چھپکلیاں اور دیگر حشرات الارض بھی شامل ہیں، سندھ وائلڈ لائف کے میوزیم میں گیدڑ اور لگڑ بھگا بھی موجود ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی میں آخری لگڑبھگا سن 1988 میں دیکھا گیا، جس کو وہاں موجود کچھ لوگوں نے مار دیا تھا، اس حوالے سے ممتاز سومرو کا کہنا تھا کہ کراچی سے 25کلو میٹر کی دوری پر حیدرآباد جاتے ہوئے، دونوں جانب پہاڑ ملتے تھے، جن میں کئی اقسام کے جانور رپورٹ ہوتے تھے، تاہم گزرتے وقت کے ساتھ قدرتی مناظر کی جگہ اب کنکریٹ کی عمارتوں اور رہائشی آبادیوں میں ڈھل چکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب ان جانوروں نے سندھ کے دیگراضلاع کو اپنا مسکن بنا لیا جبکہ ان عوامل کی وجہ سے کئی اقسام معدومیت سے دوچار ہونے کے بعد اب تقریبا ناپید ہوچکی ہیں۔
سندھ وائلڈ لائف میوزیم میں اڑنے والے 350 اقسام کے پرندوں، 102رینگنے والے،80ممالیہ جانوروں کی مختلف اقسام حنوط شدہ حالت اور تصویری شکل میں رکھا گیا ہے، میوزیم میں سندھ آئی بیکس، اڑیال سمیت دیگر جانوروں کو خاص کیمیکل کے ذریعے عرصہ 30سال تک کے لیے محفوظ کیا گیا ہے۔
زرد پتھروں سے تعمیر کردہ قدیم تاریخی عمارت میں قائم سندھ وائلڈ لائف میوزیم میں صوبے بھر میں پائے جانے والی جنگلی حیات کی حنوط شدہ اقسام اور تصاویر کو زینت بنایا گیا ہے، نقل مکانی کرنے والے پرندوں، مارخور،سانپ، چھپکلی، دریائے سندھ کی اندھی ڈولفن، کورل ریفس (مونگے کی چٹان) سمیت بیشتر جانور میوزیم کا حصہ ہے، ان جانوروں کو دیکھنے پر اصل کا گمان ہوتا ہے جو عملِ حنوط پر مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔
اسی میوزیم میں میدانی و پہاڑی علاقے کی نادر و نایاب نسل کے جانوروں کی باقیات اور تصاویربھی موجود ہیں جو کبھی سندھ میں پائے جاتے تھے، یا انھوں نے ماضی بعید میں کسی دوسرے مقام سے سندھ میں نقل مکانی کی تھی۔
سندھ وائلڈ لائف کے ایڈمن ممتاز سومرو کے مطابق میوزیم لگ بھگ 25سال تک بند رہا تھا تاہم سن 2018 میں اسے موجودہ کنزرویٹر جاوید مہر کی کوششوں سے دوبارہ فعال کیا گیا۔
ممتاز سومرو کے مطابق میوزیم کو قائم کرنے کی اہم وجہ شائقین اور بالخصوص طلبا و طالبات کو معلومات فراہم کرنا ہے جہاں محققین بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جانوروں کو حنوط کرنے والوں کی باقاعدہ ٹیم ہے جوایک خاص طریقہ کار سے ان جانوروں کو محفوظ کرنے کا عمل کرتے ہیں۔ حنوط کرنے کے عمل میں مختلف قسم کے کیمیکلز کا سہارا لیا جاتا ہے، اس میں سے بیشتر جانور اپنے اصل کھال اور ڈھانچے میں موجود ہے، تاہم ضرورت کے مطابق جانور کو دوبارہ اصل شکل میں ڈھالنے کے لیے فائبر اور پیرس کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حنوط کردہ جانور اس عمل کے بعد 25 سے 30سال کے عرصے لیے محفوظ ہو جاتے ہیں، ممتاز سومرو کے مطابق کسی جانورکو مار کر کبھی حنوط نہیں کیا جاتا، رینگے، اڑنے والے یا پھر چوپائے جو اپنی طبعی موت مرجاتے ہیں۔
ان کو حنوط کیا جاتا ہے، ان جانوروں میں اڑیال، سندھ آئی بیکس، مختلف اقسام کے سانپ، چھپکلیاں اور دیگر حشرات الارض بھی شامل ہیں، سندھ وائلڈ لائف کے میوزیم میں گیدڑ اور لگڑ بھگا بھی موجود ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی میں آخری لگڑبھگا سن 1988 میں دیکھا گیا، جس کو وہاں موجود کچھ لوگوں نے مار دیا تھا، اس حوالے سے ممتاز سومرو کا کہنا تھا کہ کراچی سے 25کلو میٹر کی دوری پر حیدرآباد جاتے ہوئے، دونوں جانب پہاڑ ملتے تھے، جن میں کئی اقسام کے جانور رپورٹ ہوتے تھے، تاہم گزرتے وقت کے ساتھ قدرتی مناظر کی جگہ اب کنکریٹ کی عمارتوں اور رہائشی آبادیوں میں ڈھل چکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب ان جانوروں نے سندھ کے دیگراضلاع کو اپنا مسکن بنا لیا جبکہ ان عوامل کی وجہ سے کئی اقسام معدومیت سے دوچار ہونے کے بعد اب تقریبا ناپید ہوچکی ہیں۔