سوال یہ ہے
وقت یونہی گزر رہا ہے اور حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں جس سے عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے
پاکستان کے عوام ایک عجیب تذبذب میں مبتلا ہیں۔ اِن کا حال یہ ہے کہ بقولِ شاعر۔
زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں
چل رہے ہیں رات دن اور کوئی منزل بھی نہیں
یہ بھیڑ بکریوں کی طرح ہیں جنھیں کبھی کوئی ہانکتا ہے اور کبھی کوئی، چرواہے بدلتے رہتے ہیں۔اِن کی حالت بدلنے کے بجائے بد سے بدتر ہورہی ہے۔یہ بیچارے اُن مسافروں کی طرح ہیں جنھیں معلوم نہیں کہ اُن کا میرکارواں کون ہے اور رہزن کون ہے۔
جاتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
یہ صورتحال دو چار سال نہیں بلکہ ایک مدتِ دراز سے جاری ہے اور معلوم نہیں کہ کب تک یونہی برقرار رہے گی۔ سیاسی تماشہ جوں کا توں ہے۔ صرف مَداری بدل رہے ہیں اور تماش بین چپ چاپ بیٹھے ہوئے ہیں۔وطن عزیز ایک اسٹیج کی مانند ہے جس پر ایک اداکار کے بعد دوسرا اداکار آتا ہے اور اپنی اداکاری دِکھا کر چلا جاتا ہے اور سامعین اور حاضرین چُپ سادھے ہوئے اگلے سین کے بدلنے کے منتظر رہتے ہیں۔
گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں عدلیہ کا کردار بھی بدلتا رہتا ہے کبھی کوئی فیصلہ آتا ہے اور کبھی کوئی اور۔ وقفہ وقفہ سے آنے والا ہر فیصلہ اپنی اپنی جگہ پر درست قرار پاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ادارہ جسے معتبر سمجھا جاتا ہے کچھ دنوں بعد اُسے غیر معتبر کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے۔کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ اِس کا کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ میڈیا کا حال بھی عجیب ہے۔ ایک چینل جو کسی شخص کو شیطان قرار دے رہا ہوتا ہے، دوسرا چینل اُسی کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے۔
عوام بیچارے ایک کشمکش اور کنفیوژن کا شکار ہیں کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں؟ کس کشتی میں سوار ہوں اور کس کشتی سے دور رہیں؟ سیاست میں بہت سی اصطلاحات استعمال کی جارہی ہیں مثلاً صادق اور امین جیسی اصطلاحات کا بے دریغ استعمال بھی عام ہوگیا ہے۔ ان اصلاحات کے عام لوگوں پر منطبق کرنے پر پابندی لگائی جائے کیونکہ عام آدمی اس اصطلاح پر پورا نہیں اترتا۔ اسلامی نظریاتی کونسل سے ہمارا التماس ہے کہ وہ ہماری اِس تجویز پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر فرمائیں۔
کھیل وہی اچھا ہوتا ہے جس میں کھلاڑیوں کو قواعد و ضوابط کی پابندی کرنا لازمی ہوتی ہے لیکن ہمارے سیاسی کھیل میں کامیاب اُسی کھلاڑی کو سمجھا جاتا ہے جو فاؤل پلے کرتا ہے۔
ایک مہذب معاشرے میں ضابطہ اخلاق کا ہونا ضروری ہے۔ اگرچہ کہا یہ جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے لیکن جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ بقولِ شاعر:
دوستی پر ہی نہیں ہے موقوف
دشمنی کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں
ذاتیات پر اُتر آنا، گالم گلوچ پر اُتر آنا اور ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنا ہماری سیاست کی روایت بن چکا ہے۔اقتدار کی کرسی پر کسی نہ کسی طرح براجمان رہنا ہمارے حکمرانوں کی عام رَوِش ہے اور حصولِ اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جانا کوئی عجیب بات نہیں ہے جس میں قاتلانہ حملہ بھی شامل ہوچکا ہے۔
ہمارے ملک کے سیاسی رہنما مغربی قانونی نظام کے بہت بڑے مداح ہیں۔ تاہم تاریخ ہند کے بارے میں اُن کا بیانیہ اور نکتہ نظر درست نہیں۔ بیان بازی، نفرت اور ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کے ماحول میں بیچارے عوام حیران اور پریشان ہیں اور اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کے پیچھے چلیں اور کس کے پیچھے نہ چلیں اور کریں تو کیا کریں؟
وقت یونہی گزر رہا ہے اور حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں جس سے عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے اور معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے جس کا نقصان ملک و قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جہاں تک سیاسی رہنماؤں کا تعلق ہے تو وہ اِس صورتحال سے لاتعلق نظر آتے ہیں ' اُن کی جائیدادیں اور اثاثے بیرون ملک محفوظ ہیں۔ خدا نخواستہ اگر ملک و قوم کو کچھ ہوجائے تو یہ لوگ ملک سے فرار ہوکر وہاں چلے جائیں گے جہاں اُن کے سینگ سمائیں گے۔
'' تبدیلی سرکار'' کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ:
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں
چل رہے ہیں رات دن اور کوئی منزل بھی نہیں
یہ بھیڑ بکریوں کی طرح ہیں جنھیں کبھی کوئی ہانکتا ہے اور کبھی کوئی، چرواہے بدلتے رہتے ہیں۔اِن کی حالت بدلنے کے بجائے بد سے بدتر ہورہی ہے۔یہ بیچارے اُن مسافروں کی طرح ہیں جنھیں معلوم نہیں کہ اُن کا میرکارواں کون ہے اور رہزن کون ہے۔
جاتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
یہ صورتحال دو چار سال نہیں بلکہ ایک مدتِ دراز سے جاری ہے اور معلوم نہیں کہ کب تک یونہی برقرار رہے گی۔ سیاسی تماشہ جوں کا توں ہے۔ صرف مَداری بدل رہے ہیں اور تماش بین چپ چاپ بیٹھے ہوئے ہیں۔وطن عزیز ایک اسٹیج کی مانند ہے جس پر ایک اداکار کے بعد دوسرا اداکار آتا ہے اور اپنی اداکاری دِکھا کر چلا جاتا ہے اور سامعین اور حاضرین چُپ سادھے ہوئے اگلے سین کے بدلنے کے منتظر رہتے ہیں۔
گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں عدلیہ کا کردار بھی بدلتا رہتا ہے کبھی کوئی فیصلہ آتا ہے اور کبھی کوئی اور۔ وقفہ وقفہ سے آنے والا ہر فیصلہ اپنی اپنی جگہ پر درست قرار پاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ادارہ جسے معتبر سمجھا جاتا ہے کچھ دنوں بعد اُسے غیر معتبر کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے۔کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ اِس کا کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ میڈیا کا حال بھی عجیب ہے۔ ایک چینل جو کسی شخص کو شیطان قرار دے رہا ہوتا ہے، دوسرا چینل اُسی کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے۔
عوام بیچارے ایک کشمکش اور کنفیوژن کا شکار ہیں کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں؟ کس کشتی میں سوار ہوں اور کس کشتی سے دور رہیں؟ سیاست میں بہت سی اصطلاحات استعمال کی جارہی ہیں مثلاً صادق اور امین جیسی اصطلاحات کا بے دریغ استعمال بھی عام ہوگیا ہے۔ ان اصلاحات کے عام لوگوں پر منطبق کرنے پر پابندی لگائی جائے کیونکہ عام آدمی اس اصطلاح پر پورا نہیں اترتا۔ اسلامی نظریاتی کونسل سے ہمارا التماس ہے کہ وہ ہماری اِس تجویز پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر فرمائیں۔
کھیل وہی اچھا ہوتا ہے جس میں کھلاڑیوں کو قواعد و ضوابط کی پابندی کرنا لازمی ہوتی ہے لیکن ہمارے سیاسی کھیل میں کامیاب اُسی کھلاڑی کو سمجھا جاتا ہے جو فاؤل پلے کرتا ہے۔
ایک مہذب معاشرے میں ضابطہ اخلاق کا ہونا ضروری ہے۔ اگرچہ کہا یہ جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے لیکن جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ بقولِ شاعر:
دوستی پر ہی نہیں ہے موقوف
دشمنی کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں
ذاتیات پر اُتر آنا، گالم گلوچ پر اُتر آنا اور ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنا ہماری سیاست کی روایت بن چکا ہے۔اقتدار کی کرسی پر کسی نہ کسی طرح براجمان رہنا ہمارے حکمرانوں کی عام رَوِش ہے اور حصولِ اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جانا کوئی عجیب بات نہیں ہے جس میں قاتلانہ حملہ بھی شامل ہوچکا ہے۔
ہمارے ملک کے سیاسی رہنما مغربی قانونی نظام کے بہت بڑے مداح ہیں۔ تاہم تاریخ ہند کے بارے میں اُن کا بیانیہ اور نکتہ نظر درست نہیں۔ بیان بازی، نفرت اور ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کے ماحول میں بیچارے عوام حیران اور پریشان ہیں اور اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کے پیچھے چلیں اور کس کے پیچھے نہ چلیں اور کریں تو کیا کریں؟
وقت یونہی گزر رہا ہے اور حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں جس سے عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے اور معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے جس کا نقصان ملک و قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جہاں تک سیاسی رہنماؤں کا تعلق ہے تو وہ اِس صورتحال سے لاتعلق نظر آتے ہیں ' اُن کی جائیدادیں اور اثاثے بیرون ملک محفوظ ہیں۔ خدا نخواستہ اگر ملک و قوم کو کچھ ہوجائے تو یہ لوگ ملک سے فرار ہوکر وہاں چلے جائیں گے جہاں اُن کے سینگ سمائیں گے۔
'' تبدیلی سرکار'' کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ:
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں