دو فیصلے

پی ڈی ایم نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے

msuherwardy@gmail.com

یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ ملکی سیاست کے اہم فیصلے عدالتوں میںہورہے ہیں۔ سیاسی معاملات کو عدالتوں میں نہیں جانا چاہیے۔ ہمارا نظام انصاف سیاسی مقدمات کو نبٹانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔

ویسے تو ہمارا نظام انصاف کسی بھی قسم کے مقدمات کو نبٹانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسی لیے ہر قسم کے مقدمات تاخیر کا شکار ہیں۔ تاہم سیاسی مقدمات کے تنازعات عدلیہ کو سیاسی کر دیتے ہیں۔ آجکل پاکستان کی سیاست پنجاب کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس لیے سب کی نظریں پنجاب پر ہیں۔

پنجاب کی اسی اہمیت کی وجہ سے اس صوبے کے سیاسی تنازعات لاہور ہائی کورٹ میں جاتے نظرآرہے ہیں۔ ان سیاسی تنازعات کے فیصلوں پر سیاسی بحث بھی ہو رہی ہے۔ ویسے بھی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے عوام کی ملکیت ہوتے ہیں اور ان پر ایک حدکے اندر رہتے ہوئے رائے دی جا سکتی ہے۔ ان کے قانونی نکات اور قانونی نقائص پر بات ہو سکتی ہے۔ اس لیے حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے دیے گئے دو فیصلوں پر بہت بات کی جا رہی ہے۔

گورنر پنجاب کی جانب سے و زیر اعلیٰ پنجاب کواعتماد کا ووٹ لینے کا کہے جانے اور پھر اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر ڈی نوٹیفائی کرنے کا معاملہ بھی لاہور ہائی کورٹ ہی پہنچ گیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے وزیرا علیٰ پنجاب کی اس یقین دہانی کے بعد کہ وہ پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے' وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان کی کابینہ کو 11 جنوری تک بحال کر دیا ہے۔ پی ڈی ایم کو اس فیصلے پر اعتراض ہے اور انھوں نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔

قانونی ماہرین کی رائے میں اس فیصلہ میں آئین اور قانون کو کم اور پنچایتی پہلو کو زیادہ دیکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے اس فیصلے پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ ویسے بھی ایک فریق کی رائے ہے کہ جب لاہور ہائی کورٹ نے اعتماد کے ووٹ کا نہ کہہ کر ایک فریق کے لیے قانونی سہولت کی گنجئاش نکالی گئی۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ کم از کم وزیر اعلیٰ کو اعتماد کے وو ٹ کا پابند ضرور کیا جانا چاہیے تھا۔ تحریک انصاف بھی اعتماد کے ووٹ میں کچھ سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی۔ جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ بندے پورے نہیں ہیں۔

پی ڈی ایم نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند کیا جائے۔ اس کی کوئی ٹائم لائن طے ہونی چاہیے۔ کوئی دن طے ہونا چاہیے۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے نے ایک فریق کو غیر ضروری رعائت دی ہے۔ بہر حال دیکھیں سپریم کورٹ کیا کہتی ہے۔ کیا اعتماد کے ووٹ کی ٹائم لائن طے ہوتی ہے۔ ورنہ تو گورنر کی جانب سے اعتماد کے ووٹ کے کہنے کی قانونی حیثیت ہی ختم ہو گئی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس کو ختم ہی کر دیا ہے۔ جس کو آئین وقانون کے مطابق نہیں سمجھا جا رہا ۔


اسی طرح لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈسکہ کے مشہور ضمنی انتخابات میں دھاندلی کرنے والے سرکاری ملازمین کو جاری شوکاز معطل کر دیے ہیں۔ ان ملازمین نے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے جانے والے شوکاز پر لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔ ان ملازمین کی مجموعی تعداد بیس ہے۔

الیکشن کمیشن نے ڈسکہ کے مشہور ضمنی انتخابات میں دھند میں غائب ہونے اور دھاندلی کے دیگر الزامات پران ملازمین کو شوکاز جاری کیا تھا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ڈسکہ میں دھاندلی پر تحریک انصاف نے سپریم کورٹ تک قانونی جنگ کی تھی اور سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے وہاں دوبارہ انتخاب کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ کے بنچ نے اس قانونی نقطہ کو تسلیم کیا ہے کہ جب سرکاری اہلکار انتخابی ڈیوٹی ادا کر کے واپس اپنے اداروں میں چلے جاتے ہیں تو الیکشن کمیشن کا ان پر دائرہ اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ وہ الیکشن کمیشن کے کنٹرول میں صرف الیکشن کی حد تک ہوتے ہیں۔ اس لیے اب جب کہ یہ شوکاز انتخاب کے بعد جاری کیے گئے ہیں۔ اس لیے یہ اہلکار اب الیکشن کمیشن کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔

مجھے یہ قانونی نقطہ سمجھ نہیں آیا۔ جب کوئی اہلکار انتخابی ڈیوٹی کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس آتا ہے۔ اوریہاں کوئی دھاندلی کرتا ہے تو اب الیکشن کمیشن اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکے گا۔ کیونکہ الیکشن کے اگلے دن یہ لوگ واپس اپنے اپنے محکموں میں چلے جائیں گے اور الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار ختم ہو جائے گا۔

میری سمجھ سے باہرہے کہ کسی سرکاری اہلکار یا اہلکاروں نے الیکشن کمیشن کے زیر انتظام الیکشن میں ڈیوٹی کے دوران فرائض سے غفلت برتی اور دھاندلی کی۔ لیکن الیکشن کمیشن آپ کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گا۔ اس کے بعد کوئی بھی اہلکار الیکشن کی ڈیوٹی کے دوران دھاندلی کرے گا تو الیکشن کمیشن کوئی کاروائی نہیں کر سکے گا۔ الیکشن کمیشن ایک ڈاکخانہ بن کر رہ جائے گا۔ وہ صرف کارروائی کرنے کے لیے لکھے گا لیکن خود کوئی کارروائی نہیں کر سکے گا۔ اس طرح جو بھی ڈیوٹی پر آئے گا من مرضی کرے گا اور واپس اپنے محکمے میں چلا جائے گا۔

اہلکارالیکشن کمیشن کے بجائے حکومت وقت کی مانیں گے۔ کھل کر حکومتی جماعت کے لیے دھاندلی کریں گے۔ پھر واپس اپنے اپنے محکموں میں واپس آکر محفوظ ہو جائیں گے۔ جس نے الیکشن کمیشن کی ڈیوٹی کے دوران کوئی بھی دھاندلی یا بدعنوانی کی ہے' الیکشن کمیشن کو اس کے خلاف کھل کر کارروائی کرنے کا مکمل اختیار ہونا چاہیے۔

کمزور اور لاغر الیکشن کمیشن ملک میں شفاف انتخابات نہیں کروا سکتا۔جس حکومت کے اہلکارہونگے' اس کی مرضی ہوگی جیسے ڈسکہ میں ہوا تھا۔ ڈسکہ کے بعد اہلکار ڈر گئے تھے۔ انھیں خوف آگیا تھا کہ الیکشن کمیشن کارروائی کر سکتا ہے۔ نوکری خراب ہو جائے گی۔ لیکن اب وہ ڈر اور خوف ختم کر دیا ہے۔ ڈسکہ میں دھاندلی کرنے والے اہلکاروں کا سزا سے بچ جانا ملک میں شفاف انتخابات کے لیے نقصان دہ ہو گا۔

یہ الگ بات ہے کہ ان کو اس وقت سزا سے بچانا بھی تحریک انصاف کی ہی کوشش تھی۔ ایک طرف تحریک انصاف ملک میں شفاف انتخابات کا مطالبہ کرتی ہے دوسری طرف ڈسکہ میں دھاندلی کرنے والوں کو سزا سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔میری رائے میں ان اہلکاروں کو ریلیف دینے کے بجائے ان کی سزا کو یقنی بنانا چاہیے تھا۔
Load Next Story