تاریخی اسلامیہ کالج لاپتہ
پروفیسر زاہد کی تحقیق کے مطابق اسلامیہ تعلیمی ٹرسٹ عملی طور پر متحرک نہیں ہے
سندھ حکومت نے نجی ٹرسٹ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ کراچی میں قائم تاریخی اسلامیہ کالج کی عمارتوں کو ٹرسٹ کے حوالے کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
اب اسلامیہ کالج کو اس علاقے سے دور ناظم آباد اور یونیورسٹی روڈ پر قائم کالجوں کی عمارتوں میں منتقل کیا جائے گا۔ اس فیصلہ سے ایک طرف ہزاروں طلبہ کا مستقل داؤ پر لگا تو دوسری طرف سندھ کی حکومت کی تعلیم کو اہمیت نہ دینے کی حکمت عملی کو مہر لگ گئی۔
قیام پاکستان کے بعد کراچی نئے ملک کا دار الحکومت بنا۔ شہر میں اس وقت گنتی کے چند کالج تھے، طالب علموں کی تعداد بڑھ رہی تھی۔ تعلیم کی اہمیت کو محسوس کرنے والے چند صاحبان نے 1948 میں اسلامک ایجوکیشن سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور کلنٹن کوارٹرز کے علاقے میں ایک کالج قائم کیا۔
کچھ برسوں بعد یہ محسوس کیا گیا کہ کالج کی عمارت جو چند کمروں پر مشتمل ہے طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تناسب سے کم ہے، اس بناء پر ضروری ہے کہ کالج کو کسی بڑی عمارت میں منتقل کیا جائے۔ سوسائٹی نے عوام الناس سے اپیل کی کہ اس کارِخیر میں حصہ لیں۔
اس مقصد کے لیے بینک آف بہاولپور میں ایک اکاؤنٹ کھولا گیا، یوں پندرہ لاکھ روپے چندہ جمع ہوئے اور اسلامیہ کالج کے عملے نے دس لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔
بزرگوں کا کہنا ہے کہ جہاں اسلامیہ کالج کی عمارت تعمیر ہوئی وہاں مہاجرین کی جھونپڑیاں تھیں، اس جگہ کو بلدیہ کراچی نے خالی کرایا۔ کالج کی عمارت کی تعمیر کے لیے ایک مسلم لیگی رہنما اے ایم قریشی کی قیادت میں ٹرسٹ قائم ہوا۔اس ٹرسٹ کے طے کردہ قواعد کے تحت ٹرسٹ میں دو ممتاز شہریوں اور بلدیہ کراچی کے نمایندہ کو شامل ہونا تھا مگر ایم اے قریشی نے قواعد کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے قریبی رشتہ دارکوں کو اس میں شامل کیا۔
ایم اے جناح روڈ کی زمین 50ء کی دہائی میں بھی انتہائی قیمتی تھی، چونکہ یہ زمین تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال ہونی تھی اس بناء پر بلدیہ کراچی نے جو اس زمین کی مالک تھی، اس زمین کا رقبہ 22 ہزار 350 اسکوائر پر مشتمل ہے کو 99سال کے پٹے پر ٹرسٹ کو الاٹ کیا۔ یوں عطیات سے جمع ہونے والی رقم سے اسلامیہ کالج کی شاندار عمارت تعمیر ہوئی۔
پروفیسرزاہد احمد جو اپنی ملازمت کے آغاز سے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے اور طلبہ و اساتذہ کے مفادات کی جستجو میں مصروف رہے۔ ملازمت کے دوران متعدد بار معتوب قرار پائے۔ ڈاکٹر زاہد محکمہ تعلیم میں ڈائریکٹر پرائیویٹ کالجز ونگ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے، انھوں نے کراچی کے کالجوں کی تاریخ کو محنت سے جمع کیا ہے۔
اخبارات کی فائلوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامیہ ایجوکیشن ٹرسٹ کے صدر ایم اے قریشی برسراقتدار حکومتوں کے ساتھ اچھے مراسم رکھنے کے لیے مشہور تھے، وہ ایوب خان کے بہت قریبی سمجھے جاتے تھے۔ انھوں نے 1961میں کالج کے پرنسپل جو ٹرسٹ کے ملازم تھے پر دباؤ ڈال کر ایک کرایہ نامہ پر دستخط حاصل کیے۔
اس کرایہ نامہ کے مطابق اسلامیہ کالج کو ٹرسٹ کو ماہانہ 50 ہزار روپے کرایہ کی مد میں ادا کرنے تھے، یہ معاہدہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی تھا۔ اس وقت پرائیوٹ کالجوں کے اساتذہ کو منظم کراچی کے لیے ایک تنظیم ویسٹ پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن قائم ہوئی۔
پروفیسر رشید پٹیل، پروفیسر انیتا غلام علی، پروفیسر رئیس علوی وغیرہ ویسٹ پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن کے بانیوں میں شامل تھے۔ اساتذہ رہنما پروفیسر انیتا غلام علی جو بعد میں سندھ کے وزیر تعلیم کے عہدہ پر فائز ہوئیں پروفیسر اعجاز محمود جو بعد میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پروفیسر ممتاز حیدر زیدی نے 1971 میں سندھ بلوچستان ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کی کہ ٹرسٹ نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے مقاصد سے انحراف کیا ہے مگر اسلامیہ کالج کے سرکاری تحویل میں جانے کے بعد یہ عرضداشت داخل ِ دفتر ہوگئی۔
پیپلز پارٹی کے منشور میں ہر شہری کی تعلیم فراہم کرنے کی ذمے داری ریاست پر عائد کی گئی ہے، 1972میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے جامع تعلیمی اصلاحات نافذ کیں۔ اس حکومت نے مارشل لاء ریگولیشن 118 کے ذریعہ اسکولوں اور کالجوں کو قومی تحویل میں لے لیا، یوں 1972سے آج تک اسلامیہ کالج کی عمارت حکومت سندھ کی تحویل میں ہے۔
جنرل (ر)پرویز مشرف نے نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم کیا تو سندھ کے تمام اسکولوں اور کالجوں کو سٹی ڈسٹرکٹ حکومت کے حوالے کردیا گیا۔ اس دوران ایم اے قریشی کے ایک عزیز نے سندھ ہائی کورٹ میں عرضداشت دائر کی کہ کیونکہ حکومت نے اسلامیہ کالج کی عمارت کے کرایہ کی رقم ادا نہیں کی ،لہٰذا عمارت ٹرسٹ کے حوالے کی جائے۔ اس عرضداشت میں حکومت سندھ کو فریق نہیں بنایا گیا تھا۔
پروفیسر زاہد کا کہنا ہے کہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے افسران تمام حقائق سے واقف نہیں تھے، اس بناء پر ان کا وکیل موثر موقف اختیار نہیں کرسکا۔ بعد میں سندھ کی حکومت نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک اور عرضداشت داخل کی مگر محکمہ تعلیم کے افسروں کی عدم دلچسپی اور نامعلوم وجوہات کی بناء پر تعلیم کے اس مقدمہ کو اہمیت نہ ملی۔ پروفیسر زاہد کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت سندھ نے عمارت کی مرمت اور کرایہ کی مد میں خطیر رقم ادا کی۔
اسلامیہ کالج کمپلیکس میں سائنس، آرٹس اور کامرس کے علاوہ قانون کے کالجز بھی موجود ہیں۔ سندھ کی حکومت نے اس تعلیمی ادارہ کو بچانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
پروفیسر زاہد کی تحقیق کے مطابق اسلامیہ تعلیمی ٹرسٹ عملی طور پر متحرک نہیں ہے۔ ٹرسٹ کے سابق سربراہ ایم اے قریشی کے خاندان کے بیشتر افراد اب امریکا میں ہیں۔ ان کے ایک نواسہ نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ قریشی خاندان کو اس معاملہ سے دلچسپی نہیں ہے۔
ایم اے قریشی کی پوتی حسنہ قریشی نے کراچی پریس کلب میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ ان کے مرحوم والد ہی ایم اے قریشی کے وارث تھے اور وہ کہتے تھے کہ اسلامیہ کالج کو حکومت کے انتظام میں ہی رہنا چاہیے۔ حسنہ قریشی کا یہ بھی مو قف تھا عام طالب علم کے مفاد کو تحفظ ملنا چاہیے۔ اس تعلیمی ادارے کو اس قیمتی جگہ پر برقرار رہنا چاہیے تاکہ غریب طالب علم کو سستی اور معیاری تعلیم مہیا ہو۔
سینئر استاد اور کراچی کے معروف نیشنل کالج کے پرنسپل پروفیسر انیس زیدی اس صورتحال کی ذمے داری محکمہ تعلیم پر عائد کرتے ہیں۔ ان کا بیانیہ ہے کہ حکومت سندھ کے پاس کالج کو بچانے کے کئی آپشن تھے، سندھ کی اسمبلی اس معاملہ پر قانون سازی کرسکتی تھی مگر محکمہ تعلیم کے افسروں کے لیے کشش کے لیے کوئی اور چیزہے۔
کراچی کے کئی تعلیمی ادارے جن کی زمینیں انتہائی قیمتی ہیں انھیں ایک منصوبہ بندی کے ذریعہ ان کے سابقہ مالکان کے لواحقین کے حوالے کیا جارہا ہے۔ سندھ اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں حزب اختلاف کے اراکین کے علاوہ حکومتی اراکین نے بھی محکمہ تعلیم کی کارکردگی پر شدید تنقید کی ہے۔
ایک رکن نے تو یہ بھی کہا ہے کہ صوبے میں خواندگی کی شرح بڑھنے کے بجائے کم ہوئی ہے۔ اس ساری صورتحال سے پھر واضح ہوتا ہے کہ محکمہ تعلیم تمام شعبوں میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ کراچی کے قدیم تعلیمی ادارہ اسلامیہ کالج کے لاپتہ ہونے پر تمام باشعور شہریوں کو احتجاج کرنا چاہیے۔
اب اسلامیہ کالج کو اس علاقے سے دور ناظم آباد اور یونیورسٹی روڈ پر قائم کالجوں کی عمارتوں میں منتقل کیا جائے گا۔ اس فیصلہ سے ایک طرف ہزاروں طلبہ کا مستقل داؤ پر لگا تو دوسری طرف سندھ کی حکومت کی تعلیم کو اہمیت نہ دینے کی حکمت عملی کو مہر لگ گئی۔
قیام پاکستان کے بعد کراچی نئے ملک کا دار الحکومت بنا۔ شہر میں اس وقت گنتی کے چند کالج تھے، طالب علموں کی تعداد بڑھ رہی تھی۔ تعلیم کی اہمیت کو محسوس کرنے والے چند صاحبان نے 1948 میں اسلامک ایجوکیشن سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور کلنٹن کوارٹرز کے علاقے میں ایک کالج قائم کیا۔
کچھ برسوں بعد یہ محسوس کیا گیا کہ کالج کی عمارت جو چند کمروں پر مشتمل ہے طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تناسب سے کم ہے، اس بناء پر ضروری ہے کہ کالج کو کسی بڑی عمارت میں منتقل کیا جائے۔ سوسائٹی نے عوام الناس سے اپیل کی کہ اس کارِخیر میں حصہ لیں۔
اس مقصد کے لیے بینک آف بہاولپور میں ایک اکاؤنٹ کھولا گیا، یوں پندرہ لاکھ روپے چندہ جمع ہوئے اور اسلامیہ کالج کے عملے نے دس لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔
بزرگوں کا کہنا ہے کہ جہاں اسلامیہ کالج کی عمارت تعمیر ہوئی وہاں مہاجرین کی جھونپڑیاں تھیں، اس جگہ کو بلدیہ کراچی نے خالی کرایا۔ کالج کی عمارت کی تعمیر کے لیے ایک مسلم لیگی رہنما اے ایم قریشی کی قیادت میں ٹرسٹ قائم ہوا۔اس ٹرسٹ کے طے کردہ قواعد کے تحت ٹرسٹ میں دو ممتاز شہریوں اور بلدیہ کراچی کے نمایندہ کو شامل ہونا تھا مگر ایم اے قریشی نے قواعد کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے قریبی رشتہ دارکوں کو اس میں شامل کیا۔
ایم اے جناح روڈ کی زمین 50ء کی دہائی میں بھی انتہائی قیمتی تھی، چونکہ یہ زمین تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال ہونی تھی اس بناء پر بلدیہ کراچی نے جو اس زمین کی مالک تھی، اس زمین کا رقبہ 22 ہزار 350 اسکوائر پر مشتمل ہے کو 99سال کے پٹے پر ٹرسٹ کو الاٹ کیا۔ یوں عطیات سے جمع ہونے والی رقم سے اسلامیہ کالج کی شاندار عمارت تعمیر ہوئی۔
پروفیسرزاہد احمد جو اپنی ملازمت کے آغاز سے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے اور طلبہ و اساتذہ کے مفادات کی جستجو میں مصروف رہے۔ ملازمت کے دوران متعدد بار معتوب قرار پائے۔ ڈاکٹر زاہد محکمہ تعلیم میں ڈائریکٹر پرائیویٹ کالجز ونگ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے، انھوں نے کراچی کے کالجوں کی تاریخ کو محنت سے جمع کیا ہے۔
اخبارات کی فائلوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامیہ ایجوکیشن ٹرسٹ کے صدر ایم اے قریشی برسراقتدار حکومتوں کے ساتھ اچھے مراسم رکھنے کے لیے مشہور تھے، وہ ایوب خان کے بہت قریبی سمجھے جاتے تھے۔ انھوں نے 1961میں کالج کے پرنسپل جو ٹرسٹ کے ملازم تھے پر دباؤ ڈال کر ایک کرایہ نامہ پر دستخط حاصل کیے۔
اس کرایہ نامہ کے مطابق اسلامیہ کالج کو ٹرسٹ کو ماہانہ 50 ہزار روپے کرایہ کی مد میں ادا کرنے تھے، یہ معاہدہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی تھا۔ اس وقت پرائیوٹ کالجوں کے اساتذہ کو منظم کراچی کے لیے ایک تنظیم ویسٹ پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن قائم ہوئی۔
پروفیسر رشید پٹیل، پروفیسر انیتا غلام علی، پروفیسر رئیس علوی وغیرہ ویسٹ پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن کے بانیوں میں شامل تھے۔ اساتذہ رہنما پروفیسر انیتا غلام علی جو بعد میں سندھ کے وزیر تعلیم کے عہدہ پر فائز ہوئیں پروفیسر اعجاز محمود جو بعد میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پروفیسر ممتاز حیدر زیدی نے 1971 میں سندھ بلوچستان ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کی کہ ٹرسٹ نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے مقاصد سے انحراف کیا ہے مگر اسلامیہ کالج کے سرکاری تحویل میں جانے کے بعد یہ عرضداشت داخل ِ دفتر ہوگئی۔
پیپلز پارٹی کے منشور میں ہر شہری کی تعلیم فراہم کرنے کی ذمے داری ریاست پر عائد کی گئی ہے، 1972میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے جامع تعلیمی اصلاحات نافذ کیں۔ اس حکومت نے مارشل لاء ریگولیشن 118 کے ذریعہ اسکولوں اور کالجوں کو قومی تحویل میں لے لیا، یوں 1972سے آج تک اسلامیہ کالج کی عمارت حکومت سندھ کی تحویل میں ہے۔
جنرل (ر)پرویز مشرف نے نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم کیا تو سندھ کے تمام اسکولوں اور کالجوں کو سٹی ڈسٹرکٹ حکومت کے حوالے کردیا گیا۔ اس دوران ایم اے قریشی کے ایک عزیز نے سندھ ہائی کورٹ میں عرضداشت دائر کی کہ کیونکہ حکومت نے اسلامیہ کالج کی عمارت کے کرایہ کی رقم ادا نہیں کی ،لہٰذا عمارت ٹرسٹ کے حوالے کی جائے۔ اس عرضداشت میں حکومت سندھ کو فریق نہیں بنایا گیا تھا۔
پروفیسر زاہد کا کہنا ہے کہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے افسران تمام حقائق سے واقف نہیں تھے، اس بناء پر ان کا وکیل موثر موقف اختیار نہیں کرسکا۔ بعد میں سندھ کی حکومت نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک اور عرضداشت داخل کی مگر محکمہ تعلیم کے افسروں کی عدم دلچسپی اور نامعلوم وجوہات کی بناء پر تعلیم کے اس مقدمہ کو اہمیت نہ ملی۔ پروفیسر زاہد کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت سندھ نے عمارت کی مرمت اور کرایہ کی مد میں خطیر رقم ادا کی۔
اسلامیہ کالج کمپلیکس میں سائنس، آرٹس اور کامرس کے علاوہ قانون کے کالجز بھی موجود ہیں۔ سندھ کی حکومت نے اس تعلیمی ادارہ کو بچانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
پروفیسر زاہد کی تحقیق کے مطابق اسلامیہ تعلیمی ٹرسٹ عملی طور پر متحرک نہیں ہے۔ ٹرسٹ کے سابق سربراہ ایم اے قریشی کے خاندان کے بیشتر افراد اب امریکا میں ہیں۔ ان کے ایک نواسہ نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ قریشی خاندان کو اس معاملہ سے دلچسپی نہیں ہے۔
ایم اے قریشی کی پوتی حسنہ قریشی نے کراچی پریس کلب میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ ان کے مرحوم والد ہی ایم اے قریشی کے وارث تھے اور وہ کہتے تھے کہ اسلامیہ کالج کو حکومت کے انتظام میں ہی رہنا چاہیے۔ حسنہ قریشی کا یہ بھی مو قف تھا عام طالب علم کے مفاد کو تحفظ ملنا چاہیے۔ اس تعلیمی ادارے کو اس قیمتی جگہ پر برقرار رہنا چاہیے تاکہ غریب طالب علم کو سستی اور معیاری تعلیم مہیا ہو۔
سینئر استاد اور کراچی کے معروف نیشنل کالج کے پرنسپل پروفیسر انیس زیدی اس صورتحال کی ذمے داری محکمہ تعلیم پر عائد کرتے ہیں۔ ان کا بیانیہ ہے کہ حکومت سندھ کے پاس کالج کو بچانے کے کئی آپشن تھے، سندھ کی اسمبلی اس معاملہ پر قانون سازی کرسکتی تھی مگر محکمہ تعلیم کے افسروں کے لیے کشش کے لیے کوئی اور چیزہے۔
کراچی کے کئی تعلیمی ادارے جن کی زمینیں انتہائی قیمتی ہیں انھیں ایک منصوبہ بندی کے ذریعہ ان کے سابقہ مالکان کے لواحقین کے حوالے کیا جارہا ہے۔ سندھ اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں حزب اختلاف کے اراکین کے علاوہ حکومتی اراکین نے بھی محکمہ تعلیم کی کارکردگی پر شدید تنقید کی ہے۔
ایک رکن نے تو یہ بھی کہا ہے کہ صوبے میں خواندگی کی شرح بڑھنے کے بجائے کم ہوئی ہے۔ اس ساری صورتحال سے پھر واضح ہوتا ہے کہ محکمہ تعلیم تمام شعبوں میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ کراچی کے قدیم تعلیمی ادارہ اسلامیہ کالج کے لاپتہ ہونے پر تمام باشعور شہریوں کو احتجاج کرنا چاہیے۔