پاکستان میں فعال بیمہ پالیسی ہولڈرز کی تعداد ایک کروڑ ہوگئی
انشورنس سیکٹر میں 22 فیصد اضافہ، کلیمزکی مالیت 189ارب روپے تک جاپہنچی
انشورنس، اس کی مختلف اقسام اور حالیہ برسوں میں اس کے رجحان میں کس طرح اضافہ ہوا جب کہ اس بارے میں آگہی دینا وقت کی اہم ضرورت ہے جسے پورا کرنے کے لیے ایکسپریس ٹربیون نے اپنی پوڈکاسٹ سیریز کے ذریعے پہل کی۔
پہلا پوڈ کاسٹ انشورنس، اس کے فوائد اور اس کے اردگرد پھیلے مفروضوں کے بارے میں تھا۔ اس آئیڈیا نے اس موضوع پر معلومات کو بڑھانے اور لوگوں کو معاملے کی اہمیت سمجھانے میں مدد دی۔ پوڈ کاسٹ کی ماڈریٹر ارم خواجہ جبکہ مہمان مقرر شان ربانی تھے جو جوبلی لائف انشورنس میں گروپ ہیڈ اسٹرٹیجی ہیں۔
ارم خواجہ نے ایک عام آدمی کی زندگی میں انشورنس کے کردار اور اہمیت پر زور دینے کے علاوہ اس پر بھی بات کی کہ پاکستان میں انشورنس کی شرح کم کیوں ہے اور کیوں ہماری اقتصادی ثقافت صرف خرچ کرنے کے متعلق ہے، بچت کے متعلق نہیں۔
ایس ای سی پی (سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان) کی رپورٹ کے اعداد و شمار شیئر کرتے ہوئے، جو کہ گزشتہ سال سامنے آئی تھی، انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں انشورنس سیکٹر میں 22 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ کلیمز کی مالیت بھی 170 ارب روپے سے بڑھ کر 189 ارب تک جاپہنچی ہے۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں 10 ملین فعال پالیسی ہولڈرز ہیں، تاہم ہمارے ملک میں انشورنس کی شرح جی ڈی پی کے صرف 0.9 فیصد کے ساتھ بہت ہی کم ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر یہ شرح 3.5 فیصد ہے۔
شان ربانی نے بتایا کہ انشورنس سیکٹر میں گزشتہ 10-15 سالوں میں ترقی ہوئی ہے، لائف انشورنس دہرے ہندسوں میں چلی گئی ہے لیکن ہمیں دوسرے عوامل کو بھی دیکھنا ہوگا، مثال کے طور پر ملک کی نوجوان آبادی، تکنیکی موافقت اور سماجی و مذہبی عوامل جو انشورنس کے معاملے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2008ء کے بعد جب ہمیں تکافل کے آپشنز متعارف کرانے کی اجازت دی گئی، بیموں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور آج بھی بہت سے لوگ ہماری صرف وہی پروڈکٹس خریدتے ہیں، جن میں تکافل کے آپشنز ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ پروڈکٹ مارکیٹنگ نے بھی عوام کی آگہی بڑھانے اور بیمے کے عمل کو گہرائی کے ساتھ سمجھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
پہلا پوڈ کاسٹ انشورنس، اس کے فوائد اور اس کے اردگرد پھیلے مفروضوں کے بارے میں تھا۔ اس آئیڈیا نے اس موضوع پر معلومات کو بڑھانے اور لوگوں کو معاملے کی اہمیت سمجھانے میں مدد دی۔ پوڈ کاسٹ کی ماڈریٹر ارم خواجہ جبکہ مہمان مقرر شان ربانی تھے جو جوبلی لائف انشورنس میں گروپ ہیڈ اسٹرٹیجی ہیں۔
ارم خواجہ نے ایک عام آدمی کی زندگی میں انشورنس کے کردار اور اہمیت پر زور دینے کے علاوہ اس پر بھی بات کی کہ پاکستان میں انشورنس کی شرح کم کیوں ہے اور کیوں ہماری اقتصادی ثقافت صرف خرچ کرنے کے متعلق ہے، بچت کے متعلق نہیں۔
ایس ای سی پی (سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان) کی رپورٹ کے اعداد و شمار شیئر کرتے ہوئے، جو کہ گزشتہ سال سامنے آئی تھی، انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں انشورنس سیکٹر میں 22 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ کلیمز کی مالیت بھی 170 ارب روپے سے بڑھ کر 189 ارب تک جاپہنچی ہے۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں 10 ملین فعال پالیسی ہولڈرز ہیں، تاہم ہمارے ملک میں انشورنس کی شرح جی ڈی پی کے صرف 0.9 فیصد کے ساتھ بہت ہی کم ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر یہ شرح 3.5 فیصد ہے۔
شان ربانی نے بتایا کہ انشورنس سیکٹر میں گزشتہ 10-15 سالوں میں ترقی ہوئی ہے، لائف انشورنس دہرے ہندسوں میں چلی گئی ہے لیکن ہمیں دوسرے عوامل کو بھی دیکھنا ہوگا، مثال کے طور پر ملک کی نوجوان آبادی، تکنیکی موافقت اور سماجی و مذہبی عوامل جو انشورنس کے معاملے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2008ء کے بعد جب ہمیں تکافل کے آپشنز متعارف کرانے کی اجازت دی گئی، بیموں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور آج بھی بہت سے لوگ ہماری صرف وہی پروڈکٹس خریدتے ہیں، جن میں تکافل کے آپشنز ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ پروڈکٹ مارکیٹنگ نے بھی عوام کی آگہی بڑھانے اور بیمے کے عمل کو گہرائی کے ساتھ سمجھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔