اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات نہ پچھلی حکومت کرانا چاہتی تھی اور نہ موجودہ حکومت عدالت

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کیخلاف درخواستوں پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کردیا

—فائل فوٹو

اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان، وفاقی حکومت اور اٹارنی جنرل کو 29 دسمبر (بروز جمعرات) کے لیے نوٹس جاری کردیے۔

پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی درخواستوں پر جسٹس ارباب محمد طاہر نے مقدمے کی سماعت کی۔ دوران سماعت عدالت نے ریماکس دیے کہ کیوں نا الیکشن تیاری پر ہونے والے اخراجات پارلیمنٹرین سے وصول کئے جائیں؟ پچھلی حکومت اور نہ ہی موجودہ حکومت بلدیاتی انتخابات کرانا چاہتی ہے، دو سال سے اس شہر کو بے یارو مدد گار اور بغیر نمائندگی کے چھوڑا ہوا ہے۔

الیکشن کمیشن کا یہ کام نہیں کہ وہ حکومت کی طرف دیکھے، عدالت

عدالت نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا یہ کام نہیں کہ وہ حکومت کی طرف دیکھے، اس کا کام آزادانہ الیکشن کرانا ہے۔ دوران سماعت پی ٹی آئی وکیل سردار تیمور اسلم نے کہا جون میں حکومت نے یونین کونسلز کی تعداد بڑھا کر 101 کی جس سے الیکشن ملتوی ہو گئے پھر الیکشن کمیشن نے 22 اکتوبر کو بلدیاتی انتخابات کے 31 دسمبر کے لیے شیڈول کا اعلان کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب تمام تیاریاں مکمل ہو چکیں، بیلٹ باکس پولنگ اسٹیشنز پر پہنچ چکے تو حکومت نے یونین کونسلز کی تعداد پھر 125 کردی، الیکشن کمیشن کروڑوں روپے خرچ کر چکا، یہ قانون سازی ابھی مجوزہ کہلائے گی کیونکہ صدر نے اس پر دستخط ہی نہیں کیے، الیکشن کمیشن کے آرڈر میں مستقبل میں الیکشن سے متعلق بھی کوئی ٹائم لائن نہیں۔

جماعت اسلامی کے وکیل حسن جاوید شورش نے کہا الیکشن کمیشن کا فیصلہ اگر برقرار رہتا ہے تو پھر کبھی بھی اسلام آباد میں الیکشن نہیں ہو سکیں گے عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری جاری کرکے سماعت کل تک ملتوی کردی۔


حکومت نے سپریم کورٹ میں انڈرٹیکنگ دی پھر بھی الیکشن نہیں کرا رہے،جسٹس محسن اختر کیانی

دوسری جانب اس سے قبل دو رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کی اپیل غیر موثر ہونے پر نمٹا دی۔ جسٹس محسن اختر نے ریمارکس دیئے ابھی تو الیکشن کمیشن وفاقی حکومت کی وجہ سے الیکشن نہیں کرا رہا، کیا وفاقی حکومت پہلے سوئی ہوئی تھی؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے سپریم کورٹ میں انڈرٹیکنگ دی پھر بھی الیکشن نہیں کرا رہے ، یہ تو توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے ،امیدوار 50-60 کروڑ سے زائد اخراجات کر چکے، 3 چیئرمین اور 50 ممبر بغیر الیکشن منتخب ہو چکے، یہ سارا نظام شہریوں کے لیے ہے، پارلیمنٹیرینز یا اداروں کے لیے نہیں، پارلیمنٹیرینز کا کام قانون سازی ہے، سڑکیں گلیاں بنوانا نہیں۔

گزشتہ 5 برس تک مقامی حکومتوں کو کوئی فنڈ نہیں دیا، جسٹس محسن اختر کیانی

ایڈیشل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا 125 یونین کونسلز کی وجہ سے زیادہ عوام کو نمائندگی ملے گی، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریماکس دیے کہ وفاقی حکومت یہ تو یقینی بنا سکتی ہے کہ فنڈز لوکل گورنمنٹ کو ملیں، گزشتہ 5 برس تک مقامی حکومتوں کو کوئی فنڈ نہیں دیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی اتنا سا شہر ہے جس کا بیٹرا غرق کردیا ہے ، سی ڈی اے کے پاس کوئی اختیار نہیں لوکل گورنمنٹ فنڈ استعمال کرے، ہم کیوں نا ایڈمنسٹریٹر کی پاور کو معطل کردیں؟ بعدازاں عدالت نے پی ٹی آئی اپیل غیر موثر ہونے پر نمٹا دی۔
Load Next Story