ماحولیاتی تبدیلی بچاؤ کیسے ممکن

پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب میں قریباً 39 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر ہو گیا ہے

پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب میں قریباً 39 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر ہو گیا ہے۔ فوٹو: فائل

اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان کے لیے جنگ سے بھی بڑا خطرہ ہیں لیکن افسوس پاکستان کے متعلقہ ادارے فنڈز کی کمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں جب کہ دوسری جانب عوام کے تحفظ کے ضامن اور دعویدار سیاسی رہنما اپنے مفادات کی سیاست میں مصروف ہیں، انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیاں ملک کے لیے کتنی تباہ کن ثابت ہوسکتی ہیں۔

کسی کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ بچے اسکول نہیں جاسکتے یا پھر لاہور، اسلام آباد اور فیصل آباد کے ہوائی اڈوں پر پروازوں کی آمد و رفت متاثر ہورہی ہے، ہماری موٹرویزدھند کے باعث بند ہوجاتی ہیں ،جان لیوا ٹریفک حادثات کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ۔

عجب شان بے نیازی ہے کہ کوئی اس بات پر توجہ نہیں دے رہا تھا کہ قدرت ہم سے کچھ کہہ رہی ہے، وہ ہماری توجہ کی متقاضی ہے اور ہماری عادتوں اور طرزِ عمل میں تبدیلی کی خواہاں ہے۔

پاکستان میں بتدریج کم ہوتی برف باری، دریاؤں میں پانی کی کمی اور موسم سرما کے دورانیہ کا کم ہو جاناجو شاید عام آدمی کے لیے باعث تعجب نہ ہو لیکن ماہرین کے نزدیک انتہائی پریشان کن ہے۔

پاکستان کو درپیش مختلف چیلنجز میں سے ایک بڑا مسئلہ ''اسموگ'' ہے جس کا سامنا ہر سال ہمیں موسم سرما میں کرنا پڑتا ہے۔ اس موسم میں چونکہ نمی ہوتی ہے، دھند ہوتی ہے لہٰذا جب فضا میں موجود دھواں، زہریلی گیسیں اور گرد وغبار اس نمی کے ساتھ مل جاتے ہیں تو اسموگ بن جاتی ہے۔

یہ زہریلی ہوتی ہے اورانسانی صحت کے لیے نقصان دہ بھی۔ پنجاب اس کا شکار ہے ، ایئر کوالٹی انڈیکس کے حوالے سے لاہور کو کئی بار دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا جاچکا ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ، ان دنوں بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اپنی دولت کی نمائش کا شوق لیے خاندان کی شادیوں میں شرکت کرنے بڑی تعداد میں وطن آئے ہوئے ہیں اور شادیاں بھی جاری ہیں۔

موسمیاتی بحران کے بارے میں ماہرین موسمیات کافی عرصے سے اشارہ کر رہے ہیں۔ ایک طرف خشک سالی کے سائے منڈلا رہے ہیں تو دوسری جانب ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ملکی زراعت اور زرعی پیدوار بھی متاثر ہو رہی ہے۔

ماہرین موسمیات کی جانب سے خبردار کیا جا چکا ہے کہ اگر بروقت احتیاطی تدابیراختیار نہ کی گئیں اور بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو بہت جلد خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پاکستان گزشتہ دس برسوں میں بدترین سیلابوں، طوفانوں، بارشوں اور ہیٹ اسٹروک سمیت کئی قدرتی آفات کا سامنا کر چکا ہے جب کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گرم ترین موسم اور ہیٹ اسٹروک کے واقعات پیش آئے ۔ آنے والے سالوں میں پاکستان خشک سالی کا شکار ہوسکتا ہے کیونکہ ہمارے پاس پانی کے ذخائر ختم ہوتے جا رہے ہیں جب کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت پاکستان کی ہزاورں منجمد جھلیوں کی بقا کے لیے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔

اسی طرح شدید گرم موسم کے باعث گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کے باعث غیرمتوقع سیلاب آرہے ہیں بلکہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث ملک کی کئی برفانی جھلیوں کے پگھلنے کا خطرہ بھی ہے۔ہمارے ملک میں بھی ماحولیاتی تبدیلی اسی طرح باعث نقصان ہے جس طرح مغربی ممالک میں ہے۔

انگلینڈ میں امسال درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا جو وہاں کے مکینوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا۔ موجودہ صنعتی ترقی کے دور میں کرہ ارض کے درجہ حرارت میں دو ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے جس نے ماحولیات پر انتہائی منفی اثر ڈالا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیسز کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے ۔

فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ گئی ہے ، جب کہ پاکستان کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا۔ پاکستان میں 7000 سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں، جو قطبین کے باہر کسی بھی ملک کے لیے سب سے زیادہ ہیں۔تحقیق نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تباہی کے پیمانے کے پیچھے بھی متعدد عوامل موجود ہیں۔

پاکستان کے انفرا اسٹرکچر کی کمزوریوں، آبادی کے اضافے، غربت کی شرح اور سیاسی عدم استحکام نے اسے پہنچنے والے نقصان میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔


ایک عالمی ادارے کی جانب سے کیے گئے سروے میں بتایا گیا کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ رہنے یا ان سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان کے پاس نہ ایسے ذرایع ہیں اور نہ ہی تربیت یافتہ عملہ جو کسی بدترین ماحولیاتی تبدیلی کا سامنا کر سکے۔

جب سے ماحولیاتی تبدیلیوں نے دنیا کو بے چین کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے ہی پاکستان کو ماہرین کی جانب سے خبردار کیا جاتا رہا ہے کہ آنے والے وقت میں پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہو گا جس کا ایک ہولناک مناظر کراچی کے جان لیوا ہیٹ اسٹروک کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔

اس تباہی کا ذمے د ار کون تھا؟ ہمارے متعلقہ ادارے اس بات کا خدشہ ظاہر کر چکے تھے کہ اس مرتبہ شدید گرمی کا سامنا ہو گا لیکن ہمارے پاس اس سے نمٹنے کی کوئی تیاری موجود نہیں تھی۔

گلوبل وارمنگ اور ماحولیات کے مسائل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، جب درخت لگائے جائیں گے تو وہاں گرمی زیادہ نہیں پڑے گی، موسم خوشگوار رہے گا، ایسے میں وہاں کی پیداوار بھی متاثر نہیں ہو گی ،لیکن ہم زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ اسکیمیں بنانے میں مصروف ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات بھی کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہ سکتے، ایسے میں جن کے آبی وسائل گلیشیئرز سے جڑے ہیں وہ زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ہمارا80 فیصد پانی گلیشیئر سے آتا ہے اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ہمارے گلیشیئر متاثر ہور ہے ہیں۔

پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب میں قریباً 39 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر ہو گیا ہے۔ کئی علاقوں میں ابھی تک سیلابی پانی نکالا نہیں جا سکا ہے ، جب کہ لاکھوں متاثرین کھلے آسمان تلے پڑے ہیں ،کیونکہ چارماہ سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے باوجود سیلابی پانی کھڑا ہے ۔

سیلابوں اور شدید بارشوں کی وجہ سے صوبہ سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں موجود سیلابی پانی کی وجہ سے متعدد علاقوں میں نئی فصل کی کاشت بھی ممکن نہیں ہے۔

کئی دیہاتوں کی بستیوں، اسکولوں اور اسپتالوں سے سیلابی پانی کا نکاس ممکن نہیں ہو سکا ہے جس کی وجہ سے زندگی کے روزمرہ امور چلانے میں انتہائی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ پلوں اور دیگر امور کے لیے بنائے جانے والے پلرز کی بورنگ مشینز کے ذریعے چھ فٹ کو زیر زمین بور کرکے چھ فٹ قطر کے 15 سے 20فٹ گہرے چھوٹے چھوٹے کنویںبآسانی بنائے جا سکتے ہیں جس سے ان جگہوں کے پانی کا فوری نکاس ممکن ہو سکتا ہے۔

اس طرح کی صرف ایک سو بورنگ مشینوںسے سندھ اور بلوچستان میں زندگی ایک بار پھر رواں کی جا سکتی ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔

اگرہم نے سیلابی پانی کے لیے ڈیم بنائے ہوتے اور 20 سال قبل واپڈا کے بنائے گئے وژن 2025 پر عمل کیا جاتا تو موجودہ سیلابی پانی کو قابل استعمال بنایا جا سکتا تھا جس سے پاکستان میں کئی سال تک پانی کی قلت کا شائبہ تک نہ ہوتا بلکہ اس سیلاب سے جو 30 ارب ڈالر کی قومی معیشت کا نقصان ہوا ہے، اس سے بھی بچا جا سکتا تھا۔

اب بھی وقت ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں اور آبی وسائل بروئے کار لانے کے لیے ایک ایک قطرے کو محفوظ بنانے کے لیے تمام ممکنہ ڈیم تعمیر کرنے میں حائل تمام رکاوٹیں دور کریں تو پاکستان باآسانی واٹرا سٹریس ممالک کی لسٹ سے نکل سکے گا۔

ماحولیاتی آلودگی قابو کرنے کے لیے درخت ہی کافی نہیں ٹیکنالوجی بھی درکار ہو گی، گاڑیوں سے لے کر کارخانوں کی مشینریاں بھی ایسی ہونی چاہئیں جن کا مضر دھواں ماحول کو آلودہ نہ کر سکے۔ اسی طرح دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ اگر ملک میں الیکٹرانک گاڑیاں درآمد کی جائیں یا ملکی سطح پر بنائی جائیں تو اس سے بھی ماحولیاتی آلودگی کے اس مسئلے پر کسی نا کسی حد تک قابو پانا ممکن ہو سکے گا۔

عالمی ماہرین کے مطابق لوگوں کو یہ احساس دلانا بھی ہے کہ اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے درخت لگائیں،کیونکہ یہی گلوبل وارمنگ سے بچا کا اہم ذریعہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ سے بچنے کے لیے پوری دنیا کے تمام ممالک اور ان کی حکومتوں کو مل کر ابھی سے اقدامات اٹھانے ہوں گے جب کہ اس سلسلے میں امیر ممالک کا کردار اہم ہو گا۔

امداد یا قرضوں میں ریلیف حاصل کرنے کے علاوہ کیا ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کس طرح ہم اپنے آبی مسائل کو درپیش چیلنجز کے حل کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لا سکتے ہیں؟ اس مقصد کے لیے ہمارے سیاسی قائدین اور مقتدر اداروں کو سیاست سے بالاتر ہو کر قومی مفادات کر ترجیح دینا ہوگی۔
Load Next Story