کشیدہ صورت حال کے واحد ذمے دار

عمران خان نے خود کو واقعی بند گلی میں دھکیل لیا ہے اور موجودہ سیاسی صورت حال کی ذمے داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے

m_saeedarain@hotmail.com

ملک میں سیاسی کشیدگی اب پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ گئی ہے جس میں بہتری کا کوئی امکان نہیں رہا جب کہ اس سے قبل بھی یہ نوبت آتی رہی اور ایک دوسرے کے سخت حریف ایک صوبائی حکمران نے اپنے سے بڑے عہدے پر موجود اپنے مخالف وفاقی حکمران کو اقتدار میں آ کر کھمبے سے لٹکانے کے بیانات دیے تھے مگر جواب میں وفاقی عہدیدار نے دانش مندی کا مظاہرہ کرکے سخت بیان پر کوئی رد عمل نہیں دیا تھا۔

جس کے نتیجے میں بعد میں صوبائی عہدیدار کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انھوں نے اپنے بیان پر شرمندگی کا اظہار کیا جس کے بعد اب وہ دونوں بڑے ایک صفحے پر اور ایک دوسرے کے قریبی حلیف اور برسر اقتدار ہیں اور ہر کام باہمی مشاورت سے کرتے آ رہے ہیں مگر ان دونوں کے حریف نے سیاست میں کوئی سبق نہیں سیکھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک بار پھر سیاسی صورت حال اور سیاسی معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر زور دیا ہے مگر ان کے پارٹی سربراہ سیاسی افہام و تفہیم پر یقین ہی نہیں رکھتے بلکہ جارحانہ سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور جس حکومت کو وہ امپورٹڈ قرار دیتے ہیں۔

اس کے ساتھ مرضی کے مشروط مذاکرات چاہتے ہیں اور ان مشروط مذاکرات پر اتحادی حکومت تیار نہیں اور پی ٹی آئی کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات پر تو آمادہ ہے اور اس کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ حکومت عمران خان سے بلیک میل نہیں ہوگی اور وہی کرے گی جو آئین و قانون کہے گا ۔ویسے یہ کھلی سچائی ہے کہ عمران خان نے پہلے کچھ ملک کے پلے چھوڑا ہے نہ اب چھوڑ رہا ہے، مطلب یہ کہ انھوں نے ملک کو ناقابل تلافی سیاسی معاشی اور اخلاقی نقصان پہنچایا ہے۔

موجودہ صورت حال میں سابق اپوزیشن کو حکومت میں آنے کے بعد آئین و قانون یاد آیا ہے اور عمران خان اقتدار میں تھے تو انھوں نے آئین و قانون کو ماضی کے حکمرانوں کی طرح گھر کی لونڈی سمجھا ہوا تھا اور اب جو حکومت کہہ رہی ہے وہ بھی اقتدار میں یہی کچھ کہا کرتے تھے۔

اس وقت کی اپوزیشن موجودہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کو جعلی قرار دے کر نئے انتخابات کا مطالبہ کرتی تھی جسے عمران خان غیر آئینی قرار دیتے تھے مگر تحریک عدم کے آئینی اقدام سے حکومت کی تبدیلی کے بعد موجودہ حکمرانوں کے لیے اسمبلیاں جائز ہوگئی ہیں اور اب اپوزیشن میں عمران خان کا نئے الیکشن کا مطالبہ اسمبلیوں کو تسلیم نہ کرنے والوں کو غیر آئینی اور غیر جمہوری لگتا ہے اور وہ پنجاب و کے پی کے اسمبلیوں کی تحلیل کے بھی خلاف ہیں اور انھیں برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔


موجودہ حکمران موجودہ سیاسی صورت حال کا ذمے دار عمران خان کو اور عمران خان اس کا واحد ذمے دار سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو قرار دے رہے ہیں۔ موجود حکومتی اتحاد جب اپوزیشن تھا، وہ عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم قرار دیتے تھے اور عمران خان موجودہ حکومت کو امپورٹڈ قرار دے رہے ہیں اور اگر کسی وجہ سے عمران خان کو موجودہ قومی اسمبلی میں دوبارہ منتخب ہونے کا موقعہ مل جائے تو وہ بھی اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کی بات کریں گے اور نئے الیکشن کا مطالبہ نہیں مانیں گے۔

عمران خان اپنی حکومت گرانے کا واحد ذمے دار موجودہ حکمرانوں کو نہیں بلکہ جنرل باجوہ کو قرار دیتے ہیں جب کہ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے بقول جنرل باجوہ پی ٹی آئی کے محسن تھے مگر اب عمران خان انھیں محسن نہیں مانتے اور پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر اور عمران اسمٰعیل بھی کہہ رہے ہیں کہ جنرل باجوہ کا ان پر کوئی احسان نہیں تھا جب کہ جے یو آئی رہنما عبدالغفور حیدری کا کہنا ہے کہ عمران خان محسن کش ہیں ۔

پی پی کی مرکزی رہنما شیری رحمن کا کہنا ہے کہ اب تمام آپشنز ختم ہو چکے ہیں اور عمران خان کی دھونس و دھمکی کی سیاست نے انھیں بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔ملک میں سیاسی کشیدگی اب سیاسی دشمنی میں تبدیل ہو چکی ہے اور حکومت عمران خان کا کوئی مطالبہ ماننے کو تیار نہیں اور عمران خان بھی کہہ چکے کہ انھیں نہیں لگتا کہ یہ حکومت آیندہ سال بھی نئے انتخابات نہیں کرائے گی۔

جب ملک کی سیاسی صورت حال انتہائی مقام پر آ جائے اور فوج غیر جانب دار ہو چکی ہو تو وہ عمران خان کے کہنے پر حکومت کو کیسے کہہ سکتی ہے کہ وہ قبل ازوقت نئے انتخابات کرائے۔ حکومت کسی وجہ سے اپنی حکومتی مدت مزید بڑھاتی ہے تو سیاسی کشیدگی مزید بڑھے گی، سپریم کورٹ بھی آئینی طور پر حکومت کو نئے انتخابات کی ہدایت نہیں دے گی تو پھر کیا ہوگا، اس سوال کا جواب عمران خان کے پاس بھی نہیں ہے اور صدر بھی کچھ نہیں کرسکتے، اس لیے عمران خان کو آگے بڑھنا اور حکومت سے غیر مشروط مذاکرات پر آمادہ ہونا ہوگا۔

حکومت ہر حال میں معاشی صورت حال بہتر بنانا چاہتی ہے جو اس کی اشد ضرورت ہے مگر عمران خان ایسا نہیں ہونے دیں گے کہ حکومت معاشی بہتری سے اپنی سیاست کو مقبول بنائے جو عمران خان کے سیاسی مفاد میں نہیں اور اسی وجہ سے ملک گزشتہ نو ماہ سے سیاسی صورت حال میں پس رہا ہے۔ ملک میں اتنی سیاسی کشیدگی ماضی میں کبھی نہیں ہوئی۔ اسٹیبلشمنٹ وقت پر نئے الیکشن اور معیشت کی بہتری چاہتی ہے۔

عمران خان نے خود کو واقعی بند گلی میں دھکیل لیا ہے اور موجودہ سیاسی صورت حال کی ذمے داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے کیونکہ انھوں نے سیاسی مذاکرات کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی جب کہ ملک کی 13 سیاسی جماعتیں اور جماعت اسلامی بھی ان کی مخالف ہیں اور ملکی صورت حال عمران خان کے حق میں نہیں تو نیا الیکشن کیسے ممکن ہے؟
Load Next Story