سراج الحق نئے امیرسے وابستہ توقعات
باون سالہ جناب سراج الحق اپنے پیشروامرائے جماعت کے مقابلے میں کم عمر واقع ہوئے ہیں۔۔۔
لاہور:
کل کے پُر جوش اسٹوڈنٹ لیڈر اور آج کے تجربہ کار سیاستدان جناب سراج الحق جماعتِ اسلامی پاکستان کے نئے امیر منتخب ہو گئے ہیں۔ ہماری طرف سے انھیں مبارکباد۔ وہ دوسرے ''امیدواروں'' کے مقابل بھاری ووٹوں سے کامیاب ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی میں ووٹ کی طاقت سے، نہایت جمہوری انداز میں، قیادت کی تبدیلی کا عمل دیگر ان سیاسی جماعتوں کے لیے بھی قابل تقلید ہونا چاہیے جہاں وراثت نے گہرے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ جناب سراج الحق چونکہ خیبر پختون خوا میں ''مجاہدین اسلام'' سے خاصے گہرے روابط رکھتے ہیں اور وہ شدت پسندوں سے مکالمہ کرنے کے بھی حامی ہیں، اس لیے ان کے امیرِ جماعت منتخب ہونے کی خبر سنتے ہی ہمارے ایک دوست، جن کے بیوی بچے بھی جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں، نے کہا: ''اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جماعت اسلامی پاکستان اب براہ راست طالبان کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔'' ممکن ہے اس تبصرہ میں مبالغہ آرائی کا عنصر بھی شامل ہو لیکن یہ کلمات جناب سراج الحق کی شخصیت کے ایک رخ کی ترجمانی ضرور کرتے ہیں۔ اس پر بھنویں نہیں سُکیڑی جا سکتیں۔
باون سالہ جناب سراج الحق اپنے پیشروامرائے جماعت کے مقابلے میں کم عمر واقع ہوئے ہیں۔ یوں توقع کی جا سکتی ہے کہ ان کا جوشِ جوانی ان کے ہوش پر غالب نہیں آنے پائے گا۔ تین بار رکنِ اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں اور دو بار سینئر صوبائی وزیر بنے لیکن ان کی ترچھی ٹوپی کے زاویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسے ان کی مستقل مزاجی کا غماز بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے چاہنے والے توقع کرتے ہیں کہ اب وہ مولانا مودودی، میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد کی طرح جناح کیپ زیبِ سر کریں گے۔
ہم بھی لاتعداد لوگوں کی طرح سراج الحق صاحب کے چاہنے والے میں سے ایک ہیں۔ وزیر خزانہ بننے سے قبل ان سے بہت ملاقاتیں رہی ہیں لیکن جونہی وہ دوبارہ وزیر خزانہ بنے، ہم نے ان سے دانستہ کنارہ کشی اختیار کر لی۔ دیگر عشاق کی طرح اب ان سے کئی توقعات وابستہ کر لی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ امیرِ جماعت اسلامی ہونے کے ناتے اپنے طلباء ونگ یعنی جماعت اسلامی کے بازوئے شمشیر زن کو حکم جاری کریں کہ بس دل لگا کر تعلیم ہی حاصل کریں اور یونیورسٹی ہذا کو جنگی مورچہ بنائیں نہ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کا مرکز۔ سراج الحق صاحب اگر اس میں کامیابی حاصل کر لیں تو ان کا یہ اقدام ہزاروں طلباء و طالبات اور اساتذہ کرام پر احسانِ عظیم ہو گا۔ ہم ان سے یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ جماعت اسلامی کو اخوان المسلمین، جسے سعودی عرب نے اپنے ہاں دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے، کے سائے سے نہ صرف محفوظ رکھیں گے بلکہ اس کے اثرات سے بھی نکال لے جائیں گے۔
بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی سمیت اب تک پانچ امرائے جماعت سامنے آچکے ہیں:سیدابوالاعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق۔ ان میں سے بعض تو ایک سے زائد بار امیر منتخب ہوئے۔ جو صاحب بھی امیر جماعت اسلامی کا تاج پہن کر ظہور میں آئے، سب نے کسی نہ کسی شکل میں اپنے پیچھے کوئی نہ کوئی لیگیسی چھوڑی۔ ایک بات مشترکہ طور پر یہ رہی ہے کہ سب امرائے جماعتِ اسلامی نے سیاست میں بھرپور حصہ لے کر اقتدار کے حصول کے لیے تو سر توڑ کوششیں کیں ۔ قبلہ قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور تو ایسے ''انقلابی'' امیر بن کر سامنے آئے کہ ان کے کئی اقدامات اور فیصلوں کو بانی جماعت اسلامی کے وضع کردہ اصولوں سے انحراف قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ قاضی حسین احمد صاحب قبلہ تھے جن کے جلسے جلوسوں میں پہلی بار ڈھول ڈھمکوں نے رنگ جمایا۔ حیرت خیز بات یہ ہے کہ ان سے قبل میاں طفیل محمد صاحب جنرل ضیاء الحق ایسے آمر مطلق کے قابل اعتماد ساتھی بنے رہے۔
لیکن سید منور حسن صاحب کی ''لیگیسی'' یہ رہی کہ انھوں نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کرتے ہوئے شہید ہونے والے افواج پاکستان کے جوانوں اور افسروں کو شہید ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کے بیان سے یقینا پاکستان کے کروڑوں شہریوں کی دل آزاری ہوئی لیکن وہ نادم ہوئے نہ اپنے الفاظ سے رجوع کیا۔ وہ اسامہ بن لادن ایسی متنازعہ شخصیت کو عالم اسلام کا ہیرو قرار دینے پر بھی مُصر رہے۔ان کے بیانات کی تحلیلِ نفسی کی جائے تو کھلتا ہے کہ غالباً وہ ان الزامات کے دھبے دھونے کی لاشعوری کوشش کر رہے تھے کہ بعض لوگ جماعت اسلامی کو ''فوج کی بی ٹیم'' کے نام سے بھی پکارتے رہے۔ آئی ایس پی آر کے ایک بیان پر منور حسن صاحب کی سرکردگی میں شدید ردعمل ظاہر کرنا اسی امر کی غمازی کرتا تھا۔
اب جناب سراج الحق امیرِجماعت اسلامی بن گئے ہیں۔ ہمیں ان کا احترام کرنا چاہیے کہ وہ ڈسپلن کی پابند ایک ایسی پارٹی کے چیف لیڈر ہیں جس کے پیروکاروں کی تعداد اگر بہت زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ جماعت اکثریتی طور پر کبھی اسمبلیوں میں پہنچنے کے قابل ہے نہ پاکستانی سماج میں وسیع پیمانے پر سیاسی اعتبار کی حامل۔ سراج الحق صاحب امیرِ جماعت تو بن گئے ہیں لیکن واضح رہنا چاہیے کہ وہ اب جماعت کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو حرفِ مطبوعہ سے کم کم ناتہ رکھتے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کے اندر اب وہ کلچر ختم ہو چکا ہے جو کبھی اس کے ارکان کا طرئہ امتیاز ہوا کرتا تھا، یعنی کتاب سے گہرا تعلق۔ اب وہ محض ''اخوان المسلمون'' کے پیروکار بن کر رہ گئے ہیں۔
نَو منتخب امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کے پیشرو سید منور حسن کی زود رنجی اور تیز مزاجی نے ان کی شخصیت کو بھی نقصان پہنچایا اور مجموعی طور پر جماعت کے تشخص کو بھی گزند پہنچا ۔ جماعت کے اندر بھی بہت سے لوگ ان کے اس مزاج سے نالاں اور ناراض نظر آتے تھے مگر جماعتی نظم کی پابندی میں لب کشائی نہ کر سکتے تھے۔ منور حسن صاحب کے دورِ امارت میں جماعت کے بارے میں یقینا یہ تاثر مستحکم ہوا کہ یہ تشدد پسندوں کی ہمنوا جماعت بن کر رہ گئی ہے، حالانکہ در حقیقت ایسا نہیں تھا۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ سراج الحق صاحب اپنی بصیرت کا چراغ روشن کرتے ہوئے اس تاثر کو زائل کرنے کی مقدور بھر کوشش کریں گے۔ خدا نہ کرے کہ ان کے زمانہ امارت کے دوران پاکستان میں جماعت اسلامی کے بارے میں وہی حالات پیدا ہو جائیں جو آج بنگلہ دیش میں بوجوہ جماعتِ اسلامی کے بارے میں پیدا ہو چکے ہیں۔ وزیر اعظم حسینہ واجد تو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے وابستگان کے لیے قاتل حسینہ بن چکی ہیں۔
کل کے پُر جوش اسٹوڈنٹ لیڈر اور آج کے تجربہ کار سیاستدان جناب سراج الحق جماعتِ اسلامی پاکستان کے نئے امیر منتخب ہو گئے ہیں۔ ہماری طرف سے انھیں مبارکباد۔ وہ دوسرے ''امیدواروں'' کے مقابل بھاری ووٹوں سے کامیاب ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی میں ووٹ کی طاقت سے، نہایت جمہوری انداز میں، قیادت کی تبدیلی کا عمل دیگر ان سیاسی جماعتوں کے لیے بھی قابل تقلید ہونا چاہیے جہاں وراثت نے گہرے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ جناب سراج الحق چونکہ خیبر پختون خوا میں ''مجاہدین اسلام'' سے خاصے گہرے روابط رکھتے ہیں اور وہ شدت پسندوں سے مکالمہ کرنے کے بھی حامی ہیں، اس لیے ان کے امیرِ جماعت منتخب ہونے کی خبر سنتے ہی ہمارے ایک دوست، جن کے بیوی بچے بھی جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں، نے کہا: ''اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جماعت اسلامی پاکستان اب براہ راست طالبان کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔'' ممکن ہے اس تبصرہ میں مبالغہ آرائی کا عنصر بھی شامل ہو لیکن یہ کلمات جناب سراج الحق کی شخصیت کے ایک رخ کی ترجمانی ضرور کرتے ہیں۔ اس پر بھنویں نہیں سُکیڑی جا سکتیں۔
باون سالہ جناب سراج الحق اپنے پیشروامرائے جماعت کے مقابلے میں کم عمر واقع ہوئے ہیں۔ یوں توقع کی جا سکتی ہے کہ ان کا جوشِ جوانی ان کے ہوش پر غالب نہیں آنے پائے گا۔ تین بار رکنِ اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں اور دو بار سینئر صوبائی وزیر بنے لیکن ان کی ترچھی ٹوپی کے زاویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسے ان کی مستقل مزاجی کا غماز بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے چاہنے والے توقع کرتے ہیں کہ اب وہ مولانا مودودی، میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد کی طرح جناح کیپ زیبِ سر کریں گے۔
ہم بھی لاتعداد لوگوں کی طرح سراج الحق صاحب کے چاہنے والے میں سے ایک ہیں۔ وزیر خزانہ بننے سے قبل ان سے بہت ملاقاتیں رہی ہیں لیکن جونہی وہ دوبارہ وزیر خزانہ بنے، ہم نے ان سے دانستہ کنارہ کشی اختیار کر لی۔ دیگر عشاق کی طرح اب ان سے کئی توقعات وابستہ کر لی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ امیرِ جماعت اسلامی ہونے کے ناتے اپنے طلباء ونگ یعنی جماعت اسلامی کے بازوئے شمشیر زن کو حکم جاری کریں کہ بس دل لگا کر تعلیم ہی حاصل کریں اور یونیورسٹی ہذا کو جنگی مورچہ بنائیں نہ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کا مرکز۔ سراج الحق صاحب اگر اس میں کامیابی حاصل کر لیں تو ان کا یہ اقدام ہزاروں طلباء و طالبات اور اساتذہ کرام پر احسانِ عظیم ہو گا۔ ہم ان سے یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ جماعت اسلامی کو اخوان المسلمین، جسے سعودی عرب نے اپنے ہاں دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے، کے سائے سے نہ صرف محفوظ رکھیں گے بلکہ اس کے اثرات سے بھی نکال لے جائیں گے۔
بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی سمیت اب تک پانچ امرائے جماعت سامنے آچکے ہیں:سیدابوالاعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق۔ ان میں سے بعض تو ایک سے زائد بار امیر منتخب ہوئے۔ جو صاحب بھی امیر جماعت اسلامی کا تاج پہن کر ظہور میں آئے، سب نے کسی نہ کسی شکل میں اپنے پیچھے کوئی نہ کوئی لیگیسی چھوڑی۔ ایک بات مشترکہ طور پر یہ رہی ہے کہ سب امرائے جماعتِ اسلامی نے سیاست میں بھرپور حصہ لے کر اقتدار کے حصول کے لیے تو سر توڑ کوششیں کیں ۔ قبلہ قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور تو ایسے ''انقلابی'' امیر بن کر سامنے آئے کہ ان کے کئی اقدامات اور فیصلوں کو بانی جماعت اسلامی کے وضع کردہ اصولوں سے انحراف قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ قاضی حسین احمد صاحب قبلہ تھے جن کے جلسے جلوسوں میں پہلی بار ڈھول ڈھمکوں نے رنگ جمایا۔ حیرت خیز بات یہ ہے کہ ان سے قبل میاں طفیل محمد صاحب جنرل ضیاء الحق ایسے آمر مطلق کے قابل اعتماد ساتھی بنے رہے۔
لیکن سید منور حسن صاحب کی ''لیگیسی'' یہ رہی کہ انھوں نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کرتے ہوئے شہید ہونے والے افواج پاکستان کے جوانوں اور افسروں کو شہید ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کے بیان سے یقینا پاکستان کے کروڑوں شہریوں کی دل آزاری ہوئی لیکن وہ نادم ہوئے نہ اپنے الفاظ سے رجوع کیا۔ وہ اسامہ بن لادن ایسی متنازعہ شخصیت کو عالم اسلام کا ہیرو قرار دینے پر بھی مُصر رہے۔ان کے بیانات کی تحلیلِ نفسی کی جائے تو کھلتا ہے کہ غالباً وہ ان الزامات کے دھبے دھونے کی لاشعوری کوشش کر رہے تھے کہ بعض لوگ جماعت اسلامی کو ''فوج کی بی ٹیم'' کے نام سے بھی پکارتے رہے۔ آئی ایس پی آر کے ایک بیان پر منور حسن صاحب کی سرکردگی میں شدید ردعمل ظاہر کرنا اسی امر کی غمازی کرتا تھا۔
اب جناب سراج الحق امیرِجماعت اسلامی بن گئے ہیں۔ ہمیں ان کا احترام کرنا چاہیے کہ وہ ڈسپلن کی پابند ایک ایسی پارٹی کے چیف لیڈر ہیں جس کے پیروکاروں کی تعداد اگر بہت زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ جماعت اکثریتی طور پر کبھی اسمبلیوں میں پہنچنے کے قابل ہے نہ پاکستانی سماج میں وسیع پیمانے پر سیاسی اعتبار کی حامل۔ سراج الحق صاحب امیرِ جماعت تو بن گئے ہیں لیکن واضح رہنا چاہیے کہ وہ اب جماعت کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو حرفِ مطبوعہ سے کم کم ناتہ رکھتے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کے اندر اب وہ کلچر ختم ہو چکا ہے جو کبھی اس کے ارکان کا طرئہ امتیاز ہوا کرتا تھا، یعنی کتاب سے گہرا تعلق۔ اب وہ محض ''اخوان المسلمون'' کے پیروکار بن کر رہ گئے ہیں۔
نَو منتخب امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کے پیشرو سید منور حسن کی زود رنجی اور تیز مزاجی نے ان کی شخصیت کو بھی نقصان پہنچایا اور مجموعی طور پر جماعت کے تشخص کو بھی گزند پہنچا ۔ جماعت کے اندر بھی بہت سے لوگ ان کے اس مزاج سے نالاں اور ناراض نظر آتے تھے مگر جماعتی نظم کی پابندی میں لب کشائی نہ کر سکتے تھے۔ منور حسن صاحب کے دورِ امارت میں جماعت کے بارے میں یقینا یہ تاثر مستحکم ہوا کہ یہ تشدد پسندوں کی ہمنوا جماعت بن کر رہ گئی ہے، حالانکہ در حقیقت ایسا نہیں تھا۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ سراج الحق صاحب اپنی بصیرت کا چراغ روشن کرتے ہوئے اس تاثر کو زائل کرنے کی مقدور بھر کوشش کریں گے۔ خدا نہ کرے کہ ان کے زمانہ امارت کے دوران پاکستان میں جماعت اسلامی کے بارے میں وہی حالات پیدا ہو جائیں جو آج بنگلہ دیش میں بوجوہ جماعتِ اسلامی کے بارے میں پیدا ہو چکے ہیں۔ وزیر اعظم حسینہ واجد تو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے وابستگان کے لیے قاتل حسینہ بن چکی ہیں۔