آخر یہ کیا ہو رہا ہے

اپنے مقصد کے حصول کے لیے درس گاہوں کو سیاسی و مذہبی اکھاڑے بنادیا گیا۔۔۔

زیارت ریزیڈنسی کی بے حرمتی کے بعد اب بابائے قوم کے مزار پر حملے کی دھمکی بھی دی جارہی ہے اخبارات میں یہ خبر نمایاں طور پر شایع کی گئی اور اس سلسلے میں جو حفاظتی انتظامات کیے گئے ان کو بھی واضح طور پر بتایا گیا ہے۔ اگرچہ ہم آج تک قیام پاکستان کے بعد اس قدر جلد قائد اعظم کی رحلت کو ملک کی بدقسمتی کہتے رہے مگر اس خبر کے بعد ہم یہ قائد اعظم کی خوش قسمتی تصور کر رہے ہیں کہ وہ لوگوں کے دلوں میں محبت و عقیدت اور پوری قوم کی طرف سے اپنے احترام کے عروج کے زمانے میں ہی اس دار فانی سے کوچ کرگئے، ورنہ یہ قوم شاید ان کو بھی قتل کرکے ہی دم لیتی۔ تمام تر علاقائی، لسانی، مذہبی اور سیاسی اختلافات کے باوجود اللہ تعالیٰ کے خاص کرم سے بابائے قوم ابھی تک ایک غیر متنازعہ شخصیت بلکہ ہر علاقے اور صوبے کے ہر دلعزیز رہنما ہیں مگر ہمارے وطن عزیز پر جو بدبختی اور نحوست آج کل سایہ فگن ہے اور جس کی سیاہی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کا انجام ہر قابل احترام شخصیت، ہر مقدس مقام، ہر عقیدے اور مکتبہ فکر کے خلاف اعلان جنگ، ہر اس ادارے اور شعبے جو کسی بھی صورت ملک کو فائدہ پہنچا سکے اس کو ترقی کی راہ پر ڈال کر اقوام عالم کے درمیان سربلند کرسکے کی بربادی کے سوا اور ہو بھی کیا سکتا ہے۔

روشن خیالی، وسعت نظر، غیر متعصبانہ انداز فکر اور سادات انسانی کے حامی ذرایع ابلاغ، کالم نگار، شاعروادیب اور تجزیہ کار سب اس نادیدہ قوت کی زد پر ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ نجی محفلوں میں بھی اس تنگ نظری اور تعصب کے خلاف گفتگو نہیں کی جاسکتی وہاں بھی آپ کو شدید مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آج سے محض دس پندرہ سال قبل تک یہ صورت حال نہ تھی مگر آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے، اگر صاحبان اقتدار، دانشور اور ذمے داران اس صورتحال کو اسی وقت بھانپ کر اس کے تدارک کے لیے سرگرم ہوجاتے تو نفرت وتعصب کا یہ پودہ تناور درخت نہ بنتا۔ مگر ہماری عاقبت نااندیشی، کاہلی اور بروقت عملی اقدامات نہ کرنے کی عادت نے یہ دن دکھائے ہیں کہ اب کوشش کے باوجود (جوکہ ہو بھی نہیں رہی) حالات کو قابو کرنا کسی کے بس میں نہیں رہا کیونکہ ہم نے کچھ نہ کرنے کی قسم کھالی ہے بات زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھنے ہی نہیں پاتی ، ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھے ہیں کہ جو ہوگا دیکھ لیا جائے گا۔

رات دن گردش میں ہیں سات آسمان

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا


بات یہ ہے کہ جب بے حسی عام ہوجائے تو پھر احساس زیاں بھی نہیں رہتا، حس لطیف مفقود ہوجاتی ہے جب کہ حس لطافت ہی وہ حس ہے جو انسان کو دوسری مخلوقات سے مختلف، برتر اور عظیم بناتی ہے۔

وہ نسل جو آگ اور خون کا سمندر پار کرکے پاکستان قائم کرنے میں کامیاب ہوئی وہ جذبہ حب الوطنی اور ہر طرح کی قربانی کے جذبے سے سرشار تھی اس نے نئے حالات سے خود کو ہم آہنگ کرنے کے لیے بھی کسی قربانی سے دریغ نہ کیا وہ اپنے بچوں کو محنت و مشقت سے حلال روٹی کھلاتے رہے، سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے اس وقت کے بچے بعد میں نامی گرامی افراد تقریباً ہر شعبہ زندگی میں آئے اس وقت کے اساتذہ و طلبا دونوں ہی علم فراہم کرنے اور حاصل کرنے میں مخلص تھے۔ جن کی رواداری اور مہذب طرز زندگی کے باعث انسانیت کا سربلند رہا۔ قیام پاکستان کی جدوجہد کرنے والی نسل نے اپنی اگلی نسل کو وقار سے سر اٹھاکر چلنے اور شرافت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کا درس دیا تھا۔

پاکستان مخالف عناصر نے ابتدا میں دل سے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لیے پاکستان میں رہنا ہی پسند کیا۔ ان عناصر نے اپنی پوری توجہ اس امر پر مرکوز کی کہ کس طرح ان محبان وطن، محنت کش اور حصول علم کے لیے کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لانے والوں کو راتوں رات دولت اکٹھی کرنے، تہذیب و شرافت کا دامن چھوڑنے کی راہ پر لگایا جائے، اس انداز فکر کی پشت پر وڈیروں اور جاگیرداروں کے وہ مفادات تھے جن سے ان کی اہمیت اور طاقت پر ضرب کاری لگ سکتی تھی یعنی تعلیم عام ہونا اور پڑھ لکھ کر پاکستان کا ہر فرد اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے علاوہ شعور و حقوق کے احساس سے مالا مال ہوکر ان کے اقتدار کے سورج کو غروب کرسکتا تھا ۔چنانچہ پاکستان مخالف عناصر کو ان کی پوری پوری سرپرستی حاصل تھی انھوں نے رفتہ رفتہ بڑی خاموشی سے لوگوں کو جائز و ناجائز کے چکر سے نکال کر ترقی کی راہ پر لگانے کے بہانے طرح طرح کے تنگ نظر خیالات اور مختلف تعصبات کو فروغ دینا شروع کردیا۔ ابتدا میں تعلیمی اداروں میں طلبہ پر یہ تجربات کیے گئے اور پھر آہستہ آہستہ گھروں میں درس کے نام پر ہر دوسرے فرقے کے لیے نفرت اور ہر علاقے کے خلاف تعصب پھیلایا جانے لگا۔

قائد اعظم کے واضح بیانات اور نظریات کو نظرانداز کرکے پہلے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان ایک خلیج پیدا کی گئی تو لوگ دوستی کرنے اور محلہ داری نبھاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے فرقوں کو مدنظر رکھنے لگے یوں معاشرتی ہم آہنگی کا خاتمہ ہوتا گیا، پڑوسی پڑوسی کے لیے اجنبی بن گئے۔ آخر نوبت دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے حقوق سلب کرنے اور ان کو پاکستانی تسلیم کرنے سے انکار تک پہنچ گئی۔ آجعبادت گاہوں کو بموں اڑایا جا رہا ہے نذر آتش کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال کی بنیادی وجوہات لکھنے کی بجائے آپ کو آفتاب احمد خانزادہ کے کالم ''فتح طاقت کی نہیں ہوتی'' (30 مارچ) پڑھنے کا مشورہ دوں گی انھوں نے بڑے موثر اور واضح طور پر ان کی نشاندہی کی ہے۔ میں اپنی بات کو یہاں تک ہی محدود رکھوں گی کہ ان تمام اداروں میں تعصب کا زہر گھولا گیا جو ملک میں یکجہتی، حب الوطنی، بھائی چارے اور رواداری کو فروغ دے سکتے تھے۔

اپنے مقصد کے حصول کے لیے درس گاہوں کو سیاسی و مذہبی اکھاڑے بنادیا گیا۔ طلبہ کو اپنی تمام صلاحیتوں کے اظہار سے روک کر صرف رٹو طوطے بنانے اور مخصوص نظریات و افکار پھیلانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ قومی زبان جو پورے ملک میں رابطے کا اہم ذریعہ تھی جو تمام علاقوں کے افراد کو ایک دوسرے کے قریب لاسکتی تھی کے خلاف محاذ کھولے گئے مساجد کو عبادت گاہوں کے بجائے مختلف فرقوں کے مراکز اور دوسرے فرقوں کے لیے نفرت اور بے زاری پھیلانے کے لیے مخصوص کردیا گیا۔سب سے بڑا ظلم تعلیمی اداروں سے تمام فنون لطیفہ کا دیس نکالا اور طلبہ کی تمام غیر نصابی سرگرمیوں کو ختم کرکے کیا گیا۔ جب طلبہ سے ان کی صلاحیتوں کے اظہار کے تمام ذرایع چھین لیے جائیں تو زندگی کے تمام شعبوں میں لائق اور باصلاحیت افراد کی نایابی کے علاوہ لیڈرشپ کا فقدان بھی ہوگا جس کے نتیجے میں نااہل، ہوس پرست، ابن الوقت افراد تمام اہم اداروں پر چھا گئے۔ ڈگری یافتہ جاہلوں کی ایک پوری کھیپ تیار ہوئی، رشوت، اقربا پروری اور سفارش کلچر کے فروغ نے ملکی معیشت و صلاحیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور یوں موجودہ معاشرتی صورتحال پیدا ہوئی کہ جو چند اہل جنوں باقی رہ گئے ان کو پاکستان دشمن عناصر نے یرغمال بنالیا۔ اب تحریک آزادی کا کوئی کارکن لائق احترام ہے اور نہ بانی پاکستان کا مزار یا رہائش گاہ محفوظ ہے۔
Load Next Story