قیدیوں کی محبت کہانی…
احساسات کی محبت کہانی، اکثر قیدی کاغذوں پر لکھتے نظر آتے ہیں جنھیں لکھنا نہیں آتا۔۔۔
معصوم ہاتھ جب ہاتھوں میں لگی ہتھکڑی کے گرد گھومتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے سانسیں تھم جائیں گی،دھڑکن تیز اور دل میں جل تھل ہونے والے جذبات کے آگے کوئی قانون کی دیوار حائل نہیں ہوسکتی، کیونکہ یہ جذبات مصنوعی نہیں، بلکہ حقیقت سے زیادہ قریب اور تلخ ہوتے ہیں۔ عموماً ضلع عدالتوں میں ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے ملزمان اور قیدی اپنی فیملیوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں اور بادی النظر میں ایسا لگتا ہے، جیسے کسی پکنک پوائنٹ پر آئے ہوئے ہیں۔ خواتین برقعوں میں، چادروں میں جسم کو ڈھانپے ہر نظربد سے قطع نظر اپنے پیاروں کے پاس بیٹھی ہوتی ہیں۔ گھر سے اچھے سے اچھا کھانا، چائے اور تمام پرتعیش لوازمات لیے خاطر و مدارت میں لگے ہوتے ہیں۔ بال بچے دار قیدیوں کے بچے جب اپنے باپ سے ملتے ہیں تو ان کی دید و اشتیاق دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ معصوم آوازیں جیل سے آنے والی گاڑیوں میں جھانکتی آنکھوں کو پکارتے ہیں کہ فلاں ولد فلاں آیا ہے۔جیل کی گاڑی میں سنائی دینے والی صدا پر کئی آوازیں گونج اٹھتی ہیں اور اگر مطلوبہ قیدی موجود ہوتا ہے تو تڑپتا ہوا جالی کے قریب جاکر آواز لگاتا ہے کہ بیٹا! میں آگیا ہوں۔۔۔۔ اماں! میں آگیا ہوں۔۔۔۔بھائی! میں آگیا ہوں۔ پھر انتظار کی ایک مسافت جو بظاہر چند منٹوں پر لیکن کئی صدیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ قیدی وارفتگی میں لاک اپ سے باہر نکلتا ہے اور اس کے بچے، دوڑتے ہوئے اس کے کلیجے سے جالگتے ہیں۔سینے میں ٹھنڈک، سکون اور آزاد سانسیں ہی قیدی کی خوشی کو ظاہر کردیتی ہیں جیسے وہ آزاد ہوگیا ہو۔
عموماً ایسے قیدیوں کی بڑی تعداد کورٹ میں ہی اپنے اہل و عیال سے ملنا پسند کرتے ہیں۔ جیلوں میں ملاقات روم میں لگے خراب انٹرکام اور شیشے کے دھندلے خاکوں سے تشفی نہیں ہوتی، شیشے پر ہاتھ چپکا کر محبت کے احساسات کو اپنے پرائے تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انٹرکام پر اونچی آواز لگاتے ہوئے، کم سماعت پریشان کردیتی ہے۔ ملاقات روم میں ایسے کئی قیدی دیکھے جو اپنی شریک حیات سے گھنٹوں باتوں کرتے وقت دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔ چار چار گھنٹے متواتر ایک پیر پر کھڑے ہوکر باتیں کرتے ہیں، تو محبت کے وہ دن یاد آجاتے ہیں جب چوری چوری چپکے چپکے فونوں پر ساتھ مرنے و جینے کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔
ملاقات روم کے پولیس اہلکار کو خوش کرکے چند منٹوں کی انہونی خوشی میں مکمل تشفی قیدی کو نہیں مل پاتی۔ وہ ہزار مصیبتوں کو قبول کرتا ہے اور عدالت میں کیس چلے یا نہ چلے، اپنے اہل خانہ سے ملنے کے لیے ایک دن پہلے سے تیار ہوجاتا ہے۔ اکثر قیدیوں کو چہرے کو گورا کرنے اور خوب صورتی کے لیے دن رات مختلف بیوٹی کریمیں لگاتے دیکھا ہے بلکہ مختلف لیڈیز فارمولوں کو بھی رات کی تنہائی میں چپکے چپکے لگاتے دیکھ کر شرارت سے مسکراتے دیکھا ہے۔محبت کے یہ متلاشی اپنی محبت کو اپنے پاس دیکھنے اور انھیں یہ بتانے کے لیے کہ وہ جیل میں تکلیف میں نہیں ہیں اپنی ظاہری حالت میں نکھار پیدا کردیتے ہیں۔ جب اس کا سبب ان سے دریافت کرتا تو ان کا استدلال ہوتا تھا کہ ہم سے زیادہ تکلیف میں ہمارے گھر والے ہوتے ہیں۔ عام زندگی میں ان کے پردے اور چادر کے تقدس کو فوقیت دیتے ہیں لیکن حالات کی ستم ظریفی کہ جس خاتون نے گھر سے باہر قدم نہیں نکالا ہوتا وہ شومئی قسمت سے نامحرم کے پاس بیٹھی نظر آتی ہے۔
کسی کا بیٹا، کسی کا شوہر، کسی کا بھائی، کورٹ اکیلے نہیں آتا بلکہ اس کی چین میں دوسرے قیدی بھی ہوتے ہیں۔ جس میں ان کا فاصلہ ایک فٹ سے بھی کم ہوتا ہے۔ کسی بھی گھرانے کا الگ سے بیٹھے رہنا ناممکن ہوتا ہے۔
رشتوں کی اہمیت اور محبت کا یہ انوکھا انداز دل دہلانے والا بھی ہوتا ہے کہ جب اس کی اولاد اس کی گود میں بیٹھ کر اپنی جاں سے زیادہ حیرت زدہ ہوکر یہ کہتی ہے کہ زنجیر اور تالے کیوں لگے ہیں؟
حساس بچے تو اپنے پیاروں کے ہاتھوں میں جکڑے سخت ہتھکڑی کی وجہ سے آنے والی سوجن کو سہلاتے رہتے ہیں اور زیر لب کہتے ہیں کہ ''درد تو نہیں ہو رہا ہے ناں؟ کتنا سخت باندھا ہے۔ کتنے ظالم ہیں یہ پولیس والے''۔
قیدی جانتے ہیں کہ یہ سن کر ان کے کلیجے پھٹ جاتے ہیں اور سرد آہ ان کے لبوں سے جانکلتی ہے۔آنسوؤں کی قطاریں، آنکھوں سے بہہ نکلتی ہیں اور معصوم ہاتھ چہرے سے آنسو صاف کرتے وقت خود رو پڑتے ہیں اور لبوں سے بددعا نکل جاتی ہے کہ انھیں تکلیف دینے والوں کو اللہ تعالیٰ غارت کرے۔ بے گناہوں پر یہ ساعتیں بہت گراں ہوتی ہیں اور ان کے لیے بڑے قیامت خیز لمحات ہوتے ہیں، لیکن یہ انسانی جذبات بڑے جارح ہیں، انھیں قیدی کے قصور یا بے گناہی سے بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔
کافی ایسے قیدیوں کو دیکھا ہے۔ جو یقینا کسی جرم میں آتے ہیں، سزا یافتہ اور عادی بھی ہوتے ہیں، لیکن ان کے دلی جذبات بھی وہی ہوتے ہیں جو کسی بے گناہ قیدی ملزم کے ہوتے ہیں، ان کی ماں، بہن، بیوی یا دوسری رشتے دار خاتون بھی ان سے اسی طرح ملتی ہیں جیسے ہزار جرم کرنے کے باوجود وہ مکمل بے قصور ہے۔ اور اسے جیل میں بند رکھ کر ظلم اور بے انصافی روا رکھی جا رہی ہے۔انسانی جذبات، احساسات اور محبت کی یہ انوکھی دنیا، مہذب دنیا کی آنکھوں سے چھپی ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کی دانست میں جیل میں بند کسی اسیر کو محبت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ محبت کے اصل معنی اگر کسی کو جانچنے کے ہوں تو جیل کی زندگی سے زیادہ کوئی دوسرا نہیں سمجھا سکتا۔
احساسات کی محبت کہانی، اکثر قیدی کاغذوں پر لکھتے نظر آتے ہیں جنھیں لکھنا نہیں آتا وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں غلط سلط لکھ لے گا، لیکن محبت کے انوکھے کردار اپنے احساسات کو کسی دوسرے قیدی کے ساتھ شیئر نہیں کرتے، کیونکہ یہاں اس معاملے میں وہ مزید حساس و جذباتی نظر آتے ہیں اور غیرت کے اصل مفہوم کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس لیے جب یہ خبر ملتی ہے کہ کسی ماں نے اپنے بچوں کو مار ڈالا یا باپ نے یہ عمل کیا تو قیدی کے دل میں طوفان عظیم امڈ پڑتا ہے کہ بھلا اس ظالم نے یہ عمل کیا ہوگا تو بھلا کس طرح کیا ہوگا؟ یہاں تو ایک ایک پل اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے ترستا ہے۔ اپنے پیاروں کو اپنی اولاد کو سینے سے لگانے اور ماتھا چومنے کے لیے لب جل جاتے ہیں۔ اپنے گالوں اور سر پر شفقت کا ہاتھ پانے کے لیے ہر دکھ کو بھول جاتے ہیں۔ وہاں ایسے شقی القلب انسان بھی ہیں جن کے ہاتھ اپنے جگرگوشوں پر چلتے وقت کانپتے تک نہیں ہیں۔
محبت کسی جرم یا قانون کی محتاج نہیں ہے۔ قیدی اپنی ماں، بیوی، بچوں سے ملنے کے لیے جیل کی ہر تکلیف کو بھول جاتا ہے۔ مہینے میں آنے والی ملاقات میں اس کے جسم کی سانسیں چلنے لگتی ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ سے مزید قریب ہونے کے لیے ذکر الٰہی میں مشغول ہوجاتا ہے کہ رب کو راضی کرلوں تو شاید مجھ پر رحم ہوجائے۔ کوئی عادی مجرم بھی ہو تو وہ بھی چاہتا ہے کہ اس کو پیار دیا جائے وہ اس محبت سے محروم نہیں رہنا چاہتا۔ لیکن ارباب اختیار تو شقی القلب انسان سے بھی زیادہ سخت ہیں جو حساس انسان کو نظرانداز کردیتے ہیں۔
عموماً ایسے قیدیوں کی بڑی تعداد کورٹ میں ہی اپنے اہل و عیال سے ملنا پسند کرتے ہیں۔ جیلوں میں ملاقات روم میں لگے خراب انٹرکام اور شیشے کے دھندلے خاکوں سے تشفی نہیں ہوتی، شیشے پر ہاتھ چپکا کر محبت کے احساسات کو اپنے پرائے تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انٹرکام پر اونچی آواز لگاتے ہوئے، کم سماعت پریشان کردیتی ہے۔ ملاقات روم میں ایسے کئی قیدی دیکھے جو اپنی شریک حیات سے گھنٹوں باتوں کرتے وقت دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔ چار چار گھنٹے متواتر ایک پیر پر کھڑے ہوکر باتیں کرتے ہیں، تو محبت کے وہ دن یاد آجاتے ہیں جب چوری چوری چپکے چپکے فونوں پر ساتھ مرنے و جینے کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔
ملاقات روم کے پولیس اہلکار کو خوش کرکے چند منٹوں کی انہونی خوشی میں مکمل تشفی قیدی کو نہیں مل پاتی۔ وہ ہزار مصیبتوں کو قبول کرتا ہے اور عدالت میں کیس چلے یا نہ چلے، اپنے اہل خانہ سے ملنے کے لیے ایک دن پہلے سے تیار ہوجاتا ہے۔ اکثر قیدیوں کو چہرے کو گورا کرنے اور خوب صورتی کے لیے دن رات مختلف بیوٹی کریمیں لگاتے دیکھا ہے بلکہ مختلف لیڈیز فارمولوں کو بھی رات کی تنہائی میں چپکے چپکے لگاتے دیکھ کر شرارت سے مسکراتے دیکھا ہے۔محبت کے یہ متلاشی اپنی محبت کو اپنے پاس دیکھنے اور انھیں یہ بتانے کے لیے کہ وہ جیل میں تکلیف میں نہیں ہیں اپنی ظاہری حالت میں نکھار پیدا کردیتے ہیں۔ جب اس کا سبب ان سے دریافت کرتا تو ان کا استدلال ہوتا تھا کہ ہم سے زیادہ تکلیف میں ہمارے گھر والے ہوتے ہیں۔ عام زندگی میں ان کے پردے اور چادر کے تقدس کو فوقیت دیتے ہیں لیکن حالات کی ستم ظریفی کہ جس خاتون نے گھر سے باہر قدم نہیں نکالا ہوتا وہ شومئی قسمت سے نامحرم کے پاس بیٹھی نظر آتی ہے۔
کسی کا بیٹا، کسی کا شوہر، کسی کا بھائی، کورٹ اکیلے نہیں آتا بلکہ اس کی چین میں دوسرے قیدی بھی ہوتے ہیں۔ جس میں ان کا فاصلہ ایک فٹ سے بھی کم ہوتا ہے۔ کسی بھی گھرانے کا الگ سے بیٹھے رہنا ناممکن ہوتا ہے۔
رشتوں کی اہمیت اور محبت کا یہ انوکھا انداز دل دہلانے والا بھی ہوتا ہے کہ جب اس کی اولاد اس کی گود میں بیٹھ کر اپنی جاں سے زیادہ حیرت زدہ ہوکر یہ کہتی ہے کہ زنجیر اور تالے کیوں لگے ہیں؟
حساس بچے تو اپنے پیاروں کے ہاتھوں میں جکڑے سخت ہتھکڑی کی وجہ سے آنے والی سوجن کو سہلاتے رہتے ہیں اور زیر لب کہتے ہیں کہ ''درد تو نہیں ہو رہا ہے ناں؟ کتنا سخت باندھا ہے۔ کتنے ظالم ہیں یہ پولیس والے''۔
قیدی جانتے ہیں کہ یہ سن کر ان کے کلیجے پھٹ جاتے ہیں اور سرد آہ ان کے لبوں سے جانکلتی ہے۔آنسوؤں کی قطاریں، آنکھوں سے بہہ نکلتی ہیں اور معصوم ہاتھ چہرے سے آنسو صاف کرتے وقت خود رو پڑتے ہیں اور لبوں سے بددعا نکل جاتی ہے کہ انھیں تکلیف دینے والوں کو اللہ تعالیٰ غارت کرے۔ بے گناہوں پر یہ ساعتیں بہت گراں ہوتی ہیں اور ان کے لیے بڑے قیامت خیز لمحات ہوتے ہیں، لیکن یہ انسانی جذبات بڑے جارح ہیں، انھیں قیدی کے قصور یا بے گناہی سے بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔
کافی ایسے قیدیوں کو دیکھا ہے۔ جو یقینا کسی جرم میں آتے ہیں، سزا یافتہ اور عادی بھی ہوتے ہیں، لیکن ان کے دلی جذبات بھی وہی ہوتے ہیں جو کسی بے گناہ قیدی ملزم کے ہوتے ہیں، ان کی ماں، بہن، بیوی یا دوسری رشتے دار خاتون بھی ان سے اسی طرح ملتی ہیں جیسے ہزار جرم کرنے کے باوجود وہ مکمل بے قصور ہے۔ اور اسے جیل میں بند رکھ کر ظلم اور بے انصافی روا رکھی جا رہی ہے۔انسانی جذبات، احساسات اور محبت کی یہ انوکھی دنیا، مہذب دنیا کی آنکھوں سے چھپی ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کی دانست میں جیل میں بند کسی اسیر کو محبت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ محبت کے اصل معنی اگر کسی کو جانچنے کے ہوں تو جیل کی زندگی سے زیادہ کوئی دوسرا نہیں سمجھا سکتا۔
احساسات کی محبت کہانی، اکثر قیدی کاغذوں پر لکھتے نظر آتے ہیں جنھیں لکھنا نہیں آتا وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں غلط سلط لکھ لے گا، لیکن محبت کے انوکھے کردار اپنے احساسات کو کسی دوسرے قیدی کے ساتھ شیئر نہیں کرتے، کیونکہ یہاں اس معاملے میں وہ مزید حساس و جذباتی نظر آتے ہیں اور غیرت کے اصل مفہوم کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس لیے جب یہ خبر ملتی ہے کہ کسی ماں نے اپنے بچوں کو مار ڈالا یا باپ نے یہ عمل کیا تو قیدی کے دل میں طوفان عظیم امڈ پڑتا ہے کہ بھلا اس ظالم نے یہ عمل کیا ہوگا تو بھلا کس طرح کیا ہوگا؟ یہاں تو ایک ایک پل اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے ترستا ہے۔ اپنے پیاروں کو اپنی اولاد کو سینے سے لگانے اور ماتھا چومنے کے لیے لب جل جاتے ہیں۔ اپنے گالوں اور سر پر شفقت کا ہاتھ پانے کے لیے ہر دکھ کو بھول جاتے ہیں۔ وہاں ایسے شقی القلب انسان بھی ہیں جن کے ہاتھ اپنے جگرگوشوں پر چلتے وقت کانپتے تک نہیں ہیں۔
محبت کسی جرم یا قانون کی محتاج نہیں ہے۔ قیدی اپنی ماں، بیوی، بچوں سے ملنے کے لیے جیل کی ہر تکلیف کو بھول جاتا ہے۔ مہینے میں آنے والی ملاقات میں اس کے جسم کی سانسیں چلنے لگتی ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ سے مزید قریب ہونے کے لیے ذکر الٰہی میں مشغول ہوجاتا ہے کہ رب کو راضی کرلوں تو شاید مجھ پر رحم ہوجائے۔ کوئی عادی مجرم بھی ہو تو وہ بھی چاہتا ہے کہ اس کو پیار دیا جائے وہ اس محبت سے محروم نہیں رہنا چاہتا۔ لیکن ارباب اختیار تو شقی القلب انسان سے بھی زیادہ سخت ہیں جو حساس انسان کو نظرانداز کردیتے ہیں۔