ایک طبقے کا پاکستان
عملاً پاکستان ایک اسلامی یا عوامی جمہوریہ نہیں ہے بلکہ ’’ایک فی صد طبقے‘‘ کے کنٹرول میں ہے
ایک فلم میں سرمایہ دار اور مزدور رہنماء کے مابین مزدوروں کے مطالبات اور مسائل پر مباحثہ ہو رہا تھا۔ مزدور رہنماء کہتا ہے کہ ﷲ نے سب کے لیے رزق پیدا کیا ہے 'سرمایہ دار کہتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ ﷲ نے ہر فرد کے لیے رزق بھیجا ہے لیکن جس گودام میں یہ رزق رکھا ہے، اس کی چابی ہم سرمایہ داروں کے پاس ہوتی ہے اور اس کی تقسیم بھی ہمارے ہاتھ میں ہے۔ فلم کا یہ سین اور اس مکالمے سرمایہ دارانہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
ہمارے حکمران اوران کے پروردہ اہل علم ہمیں بتاتا ہیں کہ پاکستان تمام مسلمانوں کے لیے ﷲ کا تحفہ ہے، یہ بات سچ مانی جاسکتی ہے لیکن اس تحفے پر ہم عوام کا حق الفاظ کی حد تک ہے، عملاً پاکستان ایک اسلامی یا عوامی جمہوریہ نہیں ہے بلکہ ''ایک فی صد طبقے'' کے کنٹرول میں ہے۔
یہاں کے و سائل 'دولت اور اقتدار صرف ایک فی صد طبقے کے لوگوں تک محدود ہیں'باقی رعایا ہے اور ان کے پاس ترقی کرنے، آگے بڑھنے اور کامیابی کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں' پاکستان کی معیشت و تجارت پر اسی چھوٹی سی اشرافیہ کا کنٹرول ہے اور وہی پالیساں بناتے اور نافذ کراتے ہیں ' ملک میں زیادہ تر لوگوں کی صلاحیتوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے'اس لیے یہ مستقل پسماندگی کا شکار ہے'حالانکہ پاکستان کی افرادی قوت کو استعمال کرکے مشرق وسطی کے ممالک ترقی کے راستے پر رواں ہیں۔
اگر یہ فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم صرف بلوچستان سے منتخب کی جائے گی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دیگر صوبوں کے باصلاحیت کھلاڑی ٹیم کا حصہ نہیں بن سکیں گے، یوں یہ ایک کمزور ٹیم ہوگی۔اسی طرح پاکستان کے وسائل اور منصب اشرافیہ کے رحم و کرم پر ہوں گے تو ملک کبھی ترقی نہیں کرسکے گا۔
تعلیمی صورت حال کا جائزہ لیں تو اس سال تقریباً 40لاکھ پاکستانی بچے18سال کے ہو جائیں گے 'ان میں سے 25فی صد سے کم عام انٹرمیڈیٹ اسٹریم سے گریجویشن کریں گے اور تقریباً 30ہزار طالب علم Aاور Oلیول سٹریم سے گریجویٹ ہوں گے' 30لاکھ سے زیادہ بچے 'یا 75فی صد '12 سال کی تعلیم مکمل نہیں کر سکیں گے ۔
پاکستان کے کل بچوں کی آدھی تعداد اسکول نہیں جاتی' یہ بچے محنت مزدوری کرتے ہیں یا کباڑ جمع کرتے ہیں'یہ A لیول والے30ہزار طالبعلم ہماری اعلی یونیورسٹیوں پر حاوی ہوں گے'اعلی اداروںمیں تعلیم حاصل کریں گے بلکہ بہت سے بیرون ملک تعلیم حاصل کریںگے اور آگے چل کر لیڈر بنیں گے' یہ طالب علم '18سال کے کل جوانوں کے ایک فی صد سے بھی کم ہیں'یہ واحد پاکستانی ہیں جن کے لیے پورے پاکستان کے عوام محنت کرتے ہیں اور وسائل فراہم کرتے ہیں ۔
پاکستان میں تقریباً4لاکھ اسکول ہیں'پھر بھی کچھ عرصے سے ہمارے سپریم کورٹ کے نصف جج اور وفاقی کابینہ کے ارکان صرف چند اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیز سے آتے ہیں' ان میں ایچی سن کالج لاہور' کراچی گرامر اسکول 'لارنس کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور وغیرہ سر فہرست ہیں۔
یہ ادارے ہمارے اعلی پیشہ ور افراد اور امیر ترین تاجروں کی غیر معمولی تعداد فراہم کرتے ہیں'اگر ہم امریکی اسکولوں اور چند مہنگے پرائیویٹ اسکولوں کو شامل کریں تو شاید مجموعی طور پر 10ہزار بچے ان اداروں سے فارغ التحصیل ہوں'تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ چند بچے مستقبل میں پاکستان کے بیشتر شعبوںمیں سرفہرست ہوں گے جیسے کہ ان کے والدین آج سب سے اوپر ہیں۔
پانچ دہائیاں قبل 'ڈاکٹر محبوب الحق نے 22 خاندانوں کی نشاندہی کی تھی جو پاکستان میں درج مینوفیکچرنگ کے دو تہائی اور بینکنگ اثاثوں کے 4/5حصوں کے مالک تھے اور ان کو کنٹرول کرتے تھے' یہ تجزیہ دولت کے غیر معمولی ارتکاز کو ظاہر کرتا ہے'آج بھی صورتحال تبدیل نہیں ہوئی بلکہ آج بھی ہم اتنے خاندانوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں جو قومی دولت کے ایک بڑے حصے پر قابض ہیں۔
دولت کا ارتکاز پاکستان کے لیے منفرد نہیں ہے 'ایسا عالمی سطح پر ہوتاہے' خاص طور پر ترقی پذیر دنیا میں'مصیبت یہ ہے کہ ڈاکٹر محبوب الحق کی شناخت کے پانچ دہائیوں کے بعد بھی وہی پرانے خاندان آج تک دولت اور اقتدار پر قابض ہیں'کوئی نیا دولت مند پیدا نہیں ہوا، اگر معیشت صحیح ہو اور ترقی ہورہی ہو تو پھر نئے نئے کاروباری افراد آگے آتے ہیں'نئے کاروبار جنم لیتے ہیں'جو نئی ابھرتی ہوئی صنعتوں اور ٹیکنالوجیز کی نمائندگی کرتی ہیں'نئے لوگ امیر ترین افرادبنتے ہیں لیکن یہاں پاکستان میں نہیں جہاں دولت طاقت اور مواقع ایک مستقل اشرافیہ طبقے تک محدود ہیں۔
پاکستان میں ڈاکٹروں کے بچے ڈاکٹر بنتے ہیں' وکلاء کے بچے وکیل بنتے ہیں'علماء کے بچے علماء بنتے ہیں' جرنیلوں کے بچے جرنیل بنتے ہیں' سیاستدانوں کے بچے لیڈر بنتے ہیں'ایسے معاشرے میںڈرائیورکا بیٹا ڈرائیور بننے پر مجبور ہوتاہے' مزدور کے بیٹے کا مزدور بننا مقدر ہوتا ہے اور نوکرانی کی بیٹی نوکرانی بن جاتی ہے۔ہمارے پشتو کے انقلابی شاعر امیر شاد محبوب نے کہا تھا کہ ۔
؎غریبا تالہ مردہ باد اوزندہ بادکے سہ دی
دہ خان نالائق زوئے بہ قائد ایوان جوڑیگی
(اے غریب تم کو مردہ باد اور زندہ باد میں کیا ملے گا'آخر کار خان کا نا اہل بیٹا ہی قائد ایوان بنے گا۔)اعلی کارپوریٹ اور دیگر پیشہ ور صرف شہری 'انگریزی ' تعلیم یافتہ اشرافیہ سے آتے ہیں'خاص طورپر ان دو اسکولوں سے جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے' واحد با اثر پیشے جہاں غریب اور درمیانہ طبقے کے بچے بھی جا سکتے ہیں۔
وہ بیوروکریسی اور ملٹری ہیں۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہورہی ہے ، اعلی عہدوں پر پہنچ کر غریبوں کے بچے بھی امراء میں شامل ہونے کی جدوجہد میں شامل ہوجاتے ہیں اور وہ بھی اپنا طرز زندگی بھی روایتی اشرافیہ کی طرح نوآبادیاتی دور کے گورا صاحبوں جیسا ہو جاتا ہے۔
سیاسی طاقت بھی پارٹیوں میں نہیں بلکہ شخصیات اور خاندانوں میں مرتکز ہوتی ہے 'جماعت اسلامی کے سوا' تمام سیاست موروثیت پر چل رہی ہے 'جہاں سیاستدان الیکٹ ایبلز کے خاندان سے آتے ہیں' جہاں پر باپ دادا منتخب ہوتے آئے ہیں۔
ایک پاکستانی سائنسدان کے سوا کسی پاکستانی سائنسدان نے نوبل پرائز نہیں جیتتے؟چونکہ ہم اپنے ایک فی صدسے بھی کم بچوں کو صحیح طریقے سے تعلیم دیتے ہیں' یقیناً ہمارے پاس ذہین'با صلاحیت لوگ ہیںلیکن ہمارے زیادہ تر ہونہار بچے کبھی بھی اسکول ختم نہیں کرتے اور نوکروںاور دھوبیوں کے طور کام کرتے ہیں'اگر وسائل ہوتے تو وہ بھی ماہر طبیعات اور ماہر معاشیات بن سکتے تھے 'پاکستان ہمارے قابل لوگوں کی صلاحیتوں اور امنگوں کا قبرستان بن چکا ہے۔
یونیسف کے مطابق پانچ سال سے کم عمر 40فی صد بچے نشو و نما کا شکار ہیں'مزید 18فی صد ضایع ہورہے ہیںاور 28فی صد کا وزن کم ہے 'اس کا مطلب ہے کہ ہمارے 86فی صد بچے زیادہ تر رات کو بھوکے سوتے ہیںاور جنوبی ایشیاء میں ان کی پانچویں سال سے پہلے مرنے کا سب سے زیادہ امکان ہے۔
یہ ہماری حقیقت ہے۔پاکستان سماجی طور پر اعلی اور گالف کلبوں کے اراکین کے لیے بہترین کام کرتا ہے لیکن ا گر آپ بھوکے بچے 'بے ز مین ہاری'مدرسہ کے طالب علم 'یومیہ مزدوری کرنے والے باپ یا دوسرے لوگوں کے بچوں کی پرورش کرنے والی آیا ہیںتو یہ کام نہیں کرتا'پاکستان ہمارے زیادہ تر متوسط طبقوں کے لیے کوئی وسائل فراہم نہیں کرتا'ان کے لیے یہ ماںکا کردار ادا نہیں کرتا' یہی وجہ ہے کہ عدم اطمینان غالب رہتا ہے اور سینٹری فیوگل قوتیں طاقت پاتی ہیں۔
کامیابی کی اصل وجہ انسان کے والد کا طبقہ ہوتاہے ' ذہانت 'قابلیت'اور کام کی اخلاقیات متعلقہ نہیں ہیں'بلا شبہ بعض لوگ اشرافیہ کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن یہ مستشنیات ہیںجو اصول کو ثابت کرتی ہیں۔
پاکستان کی اشرافیہ دولت اور طاقت اپنی نسلوں تک قائم رکھنے کی روش پر چل رہی ہے اور باقی سب کو باہر رکھتی ہے 'یہی وہ چیز ہے جو پاکستانیوں کو غریب بنا رہی ہیںاور اشرافیہ کی گرفت کوتوڑنا اس لیے ضروری ہے 'ہمیں متحد ہونے اور بحیثیت قوم ترقی کرنے کے لیے ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت ہے۔
ہمارے حکمران اوران کے پروردہ اہل علم ہمیں بتاتا ہیں کہ پاکستان تمام مسلمانوں کے لیے ﷲ کا تحفہ ہے، یہ بات سچ مانی جاسکتی ہے لیکن اس تحفے پر ہم عوام کا حق الفاظ کی حد تک ہے، عملاً پاکستان ایک اسلامی یا عوامی جمہوریہ نہیں ہے بلکہ ''ایک فی صد طبقے'' کے کنٹرول میں ہے۔
یہاں کے و سائل 'دولت اور اقتدار صرف ایک فی صد طبقے کے لوگوں تک محدود ہیں'باقی رعایا ہے اور ان کے پاس ترقی کرنے، آگے بڑھنے اور کامیابی کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں' پاکستان کی معیشت و تجارت پر اسی چھوٹی سی اشرافیہ کا کنٹرول ہے اور وہی پالیساں بناتے اور نافذ کراتے ہیں ' ملک میں زیادہ تر لوگوں کی صلاحیتوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے'اس لیے یہ مستقل پسماندگی کا شکار ہے'حالانکہ پاکستان کی افرادی قوت کو استعمال کرکے مشرق وسطی کے ممالک ترقی کے راستے پر رواں ہیں۔
اگر یہ فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم صرف بلوچستان سے منتخب کی جائے گی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دیگر صوبوں کے باصلاحیت کھلاڑی ٹیم کا حصہ نہیں بن سکیں گے، یوں یہ ایک کمزور ٹیم ہوگی۔اسی طرح پاکستان کے وسائل اور منصب اشرافیہ کے رحم و کرم پر ہوں گے تو ملک کبھی ترقی نہیں کرسکے گا۔
تعلیمی صورت حال کا جائزہ لیں تو اس سال تقریباً 40لاکھ پاکستانی بچے18سال کے ہو جائیں گے 'ان میں سے 25فی صد سے کم عام انٹرمیڈیٹ اسٹریم سے گریجویشن کریں گے اور تقریباً 30ہزار طالب علم Aاور Oلیول سٹریم سے گریجویٹ ہوں گے' 30لاکھ سے زیادہ بچے 'یا 75فی صد '12 سال کی تعلیم مکمل نہیں کر سکیں گے ۔
پاکستان کے کل بچوں کی آدھی تعداد اسکول نہیں جاتی' یہ بچے محنت مزدوری کرتے ہیں یا کباڑ جمع کرتے ہیں'یہ A لیول والے30ہزار طالبعلم ہماری اعلی یونیورسٹیوں پر حاوی ہوں گے'اعلی اداروںمیں تعلیم حاصل کریں گے بلکہ بہت سے بیرون ملک تعلیم حاصل کریںگے اور آگے چل کر لیڈر بنیں گے' یہ طالب علم '18سال کے کل جوانوں کے ایک فی صد سے بھی کم ہیں'یہ واحد پاکستانی ہیں جن کے لیے پورے پاکستان کے عوام محنت کرتے ہیں اور وسائل فراہم کرتے ہیں ۔
پاکستان میں تقریباً4لاکھ اسکول ہیں'پھر بھی کچھ عرصے سے ہمارے سپریم کورٹ کے نصف جج اور وفاقی کابینہ کے ارکان صرف چند اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیز سے آتے ہیں' ان میں ایچی سن کالج لاہور' کراچی گرامر اسکول 'لارنس کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور وغیرہ سر فہرست ہیں۔
یہ ادارے ہمارے اعلی پیشہ ور افراد اور امیر ترین تاجروں کی غیر معمولی تعداد فراہم کرتے ہیں'اگر ہم امریکی اسکولوں اور چند مہنگے پرائیویٹ اسکولوں کو شامل کریں تو شاید مجموعی طور پر 10ہزار بچے ان اداروں سے فارغ التحصیل ہوں'تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ چند بچے مستقبل میں پاکستان کے بیشتر شعبوںمیں سرفہرست ہوں گے جیسے کہ ان کے والدین آج سب سے اوپر ہیں۔
پانچ دہائیاں قبل 'ڈاکٹر محبوب الحق نے 22 خاندانوں کی نشاندہی کی تھی جو پاکستان میں درج مینوفیکچرنگ کے دو تہائی اور بینکنگ اثاثوں کے 4/5حصوں کے مالک تھے اور ان کو کنٹرول کرتے تھے' یہ تجزیہ دولت کے غیر معمولی ارتکاز کو ظاہر کرتا ہے'آج بھی صورتحال تبدیل نہیں ہوئی بلکہ آج بھی ہم اتنے خاندانوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں جو قومی دولت کے ایک بڑے حصے پر قابض ہیں۔
دولت کا ارتکاز پاکستان کے لیے منفرد نہیں ہے 'ایسا عالمی سطح پر ہوتاہے' خاص طور پر ترقی پذیر دنیا میں'مصیبت یہ ہے کہ ڈاکٹر محبوب الحق کی شناخت کے پانچ دہائیوں کے بعد بھی وہی پرانے خاندان آج تک دولت اور اقتدار پر قابض ہیں'کوئی نیا دولت مند پیدا نہیں ہوا، اگر معیشت صحیح ہو اور ترقی ہورہی ہو تو پھر نئے نئے کاروباری افراد آگے آتے ہیں'نئے کاروبار جنم لیتے ہیں'جو نئی ابھرتی ہوئی صنعتوں اور ٹیکنالوجیز کی نمائندگی کرتی ہیں'نئے لوگ امیر ترین افرادبنتے ہیں لیکن یہاں پاکستان میں نہیں جہاں دولت طاقت اور مواقع ایک مستقل اشرافیہ طبقے تک محدود ہیں۔
پاکستان میں ڈاکٹروں کے بچے ڈاکٹر بنتے ہیں' وکلاء کے بچے وکیل بنتے ہیں'علماء کے بچے علماء بنتے ہیں' جرنیلوں کے بچے جرنیل بنتے ہیں' سیاستدانوں کے بچے لیڈر بنتے ہیں'ایسے معاشرے میںڈرائیورکا بیٹا ڈرائیور بننے پر مجبور ہوتاہے' مزدور کے بیٹے کا مزدور بننا مقدر ہوتا ہے اور نوکرانی کی بیٹی نوکرانی بن جاتی ہے۔ہمارے پشتو کے انقلابی شاعر امیر شاد محبوب نے کہا تھا کہ ۔
؎غریبا تالہ مردہ باد اوزندہ بادکے سہ دی
دہ خان نالائق زوئے بہ قائد ایوان جوڑیگی
(اے غریب تم کو مردہ باد اور زندہ باد میں کیا ملے گا'آخر کار خان کا نا اہل بیٹا ہی قائد ایوان بنے گا۔)اعلی کارپوریٹ اور دیگر پیشہ ور صرف شہری 'انگریزی ' تعلیم یافتہ اشرافیہ سے آتے ہیں'خاص طورپر ان دو اسکولوں سے جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے' واحد با اثر پیشے جہاں غریب اور درمیانہ طبقے کے بچے بھی جا سکتے ہیں۔
وہ بیوروکریسی اور ملٹری ہیں۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہورہی ہے ، اعلی عہدوں پر پہنچ کر غریبوں کے بچے بھی امراء میں شامل ہونے کی جدوجہد میں شامل ہوجاتے ہیں اور وہ بھی اپنا طرز زندگی بھی روایتی اشرافیہ کی طرح نوآبادیاتی دور کے گورا صاحبوں جیسا ہو جاتا ہے۔
سیاسی طاقت بھی پارٹیوں میں نہیں بلکہ شخصیات اور خاندانوں میں مرتکز ہوتی ہے 'جماعت اسلامی کے سوا' تمام سیاست موروثیت پر چل رہی ہے 'جہاں سیاستدان الیکٹ ایبلز کے خاندان سے آتے ہیں' جہاں پر باپ دادا منتخب ہوتے آئے ہیں۔
ایک پاکستانی سائنسدان کے سوا کسی پاکستانی سائنسدان نے نوبل پرائز نہیں جیتتے؟چونکہ ہم اپنے ایک فی صدسے بھی کم بچوں کو صحیح طریقے سے تعلیم دیتے ہیں' یقیناً ہمارے پاس ذہین'با صلاحیت لوگ ہیںلیکن ہمارے زیادہ تر ہونہار بچے کبھی بھی اسکول ختم نہیں کرتے اور نوکروںاور دھوبیوں کے طور کام کرتے ہیں'اگر وسائل ہوتے تو وہ بھی ماہر طبیعات اور ماہر معاشیات بن سکتے تھے 'پاکستان ہمارے قابل لوگوں کی صلاحیتوں اور امنگوں کا قبرستان بن چکا ہے۔
یونیسف کے مطابق پانچ سال سے کم عمر 40فی صد بچے نشو و نما کا شکار ہیں'مزید 18فی صد ضایع ہورہے ہیںاور 28فی صد کا وزن کم ہے 'اس کا مطلب ہے کہ ہمارے 86فی صد بچے زیادہ تر رات کو بھوکے سوتے ہیںاور جنوبی ایشیاء میں ان کی پانچویں سال سے پہلے مرنے کا سب سے زیادہ امکان ہے۔
یہ ہماری حقیقت ہے۔پاکستان سماجی طور پر اعلی اور گالف کلبوں کے اراکین کے لیے بہترین کام کرتا ہے لیکن ا گر آپ بھوکے بچے 'بے ز مین ہاری'مدرسہ کے طالب علم 'یومیہ مزدوری کرنے والے باپ یا دوسرے لوگوں کے بچوں کی پرورش کرنے والی آیا ہیںتو یہ کام نہیں کرتا'پاکستان ہمارے زیادہ تر متوسط طبقوں کے لیے کوئی وسائل فراہم نہیں کرتا'ان کے لیے یہ ماںکا کردار ادا نہیں کرتا' یہی وجہ ہے کہ عدم اطمینان غالب رہتا ہے اور سینٹری فیوگل قوتیں طاقت پاتی ہیں۔
کامیابی کی اصل وجہ انسان کے والد کا طبقہ ہوتاہے ' ذہانت 'قابلیت'اور کام کی اخلاقیات متعلقہ نہیں ہیں'بلا شبہ بعض لوگ اشرافیہ کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن یہ مستشنیات ہیںجو اصول کو ثابت کرتی ہیں۔
پاکستان کی اشرافیہ دولت اور طاقت اپنی نسلوں تک قائم رکھنے کی روش پر چل رہی ہے اور باقی سب کو باہر رکھتی ہے 'یہی وہ چیز ہے جو پاکستانیوں کو غریب بنا رہی ہیںاور اشرافیہ کی گرفت کوتوڑنا اس لیے ضروری ہے 'ہمیں متحد ہونے اور بحیثیت قوم ترقی کرنے کے لیے ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت ہے۔