یہ معصوم کلیاں

ادھر جب گھر میں ماں گئی تو دیکھا تیرہ سالہ زینب خون میں لت پت پڑی تھی

fatimaqazi7@gmail.com

تیرہ سالہ زینب آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی۔ تین بیٹیوں اور دو ماں باپ پر مشتمل یہ خاندان کراچی میں گلستان جوہر میں کرائے کے فلیٹ میں رہتا ہے، مڈل کلاس فیملی ہے۔ ایک بہن شادی شدہ ہے۔

والدہ ایک اسپتال میں ملازمت کرتی ہیں۔ دو ہفتے قبل انھیں اپنے فلیٹ میں واش بیسن لگوانا تھا، جس پلمبر کو آنا تھا وہ زینب کے رشتے داروں کے گھر بھی کام کر چکا تھا، اس لیے زینب کی والدہ نے بھی ارادہ کیا کہ وہ اسی سے کام کروا لیں گی۔ وقوعہ کے روز زینب گھر پر تھی،اس کے پیپرز ہو رہے تھے، اس دن کوئی پیپر نہ تھا، زینب کے والد فالج زدہ ہیں۔ زینب کی والدہ نے صبح نو بجے اسے اٹھایا کہ دروازہ بند کرلے۔

وہ طوہاً و کرہاً اٹھی اور ماں کے جانے کے بعد دروازہ لاک کرکے دوبارہ سو گئی۔ بچی کی والدہ فلیٹ سے نیچے اتریں تو سیڑھیوں کے پاس وہ پلمبر کھڑا تھا جس کا نام عرفان ہے۔

اس نے پوچھا'' کیا وہ آج کام کرائیں گی؟ ''تو انھوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ ''آج نہیں بلکہ اتوار کو کام کرائیں گی'' وہ یہ کہہ کر چلی گئیں۔ ان کے جانے کے بعد وہ بدبخت پلمبر اوپر آیا اور بیل بجائی، بچی نے اندر ہی سے پوچھا کہ ''کون ہے؟ ''تو اس نے کہا کہ ''تمہاری امی کہہ گئی ہیں کام کرنے کو۔'' بچی نے منع کیا تو کہنے لگا ''صرف بیسن ہی تو اٹھانا ہے، دروازہ کھول دو۔'' تب بھی بچی نے دروازہ نہ کھولا اور اس نے اپنی ماں کو فون کیے لیکن وہ راستے میں تھیں۔

اس لیے کال اٹینڈ نہ کرسکیں، پھر زینب نے اپنی بڑی بہن کو کئی فون کیے جو اسی اسکوائر میں رہتی ہیں، لیکن صبح کا وقت تھا، فون اٹینڈ نہ کیا گیا۔ زینب کی والدہ جب اسپتال پہنچی تو انھوں نے موبائل دیکھا تو اس پر بے شمار مس کالز زینب کی آئی ہوئی تھیں۔ وہ پریشان ہوگئیں اور انھوں نے اپنی بڑی بیٹی کو فون کرکے زینب کی خبر لینے کو کہا، زینب کی بہن نے بھی اپنا موبائل دیکھا تو اس پر بھی زینب کی مس کالز تھیں، وہ بھی گھبرا گئی کہ وہ فون کیوں کر رہی تھی؟ اس نے ایک خاتون کو ساتھ لیا اور ماں کے فلیٹ پر پہنچی۔

بیل بجائی، دروازہ اندر سے بند تھا۔ بہن کے پاس ڈپلیکیٹ چابی تھی، وہ چابی سے دروازہ کھول کر اندر گئی تو وہاں لاؤنج میں عرفان پلمبر کھڑا تھا، وہ حیرت زدہ ہوگئی اور پوچھا کہ ''وہ اندر کیا کر رہا تھا اور اندر آیا کیسے؟'' یہ سنتے ہی پلمبر نے بھاگنے کی کوشش کی، دونوں خواتین اس کے پیچھے دوڑیں، اسکوائر کے لوگ بھی آگئے اور ان سب نے پلمبر کو پکڑ لیا، زینب کی والدہ کا اچانک جی گھبرانے لگا، وہ ڈاکٹر سے معذرت کرکے رکشے میں گھر پہنچیں تو ایک قیامت ان کی منتظر تھی، پلمبر کو لوگوں نے بہت مارا اور پولیس کے حوالے کردیا۔

ادھر جب گھر میں ماں گئی تو دیکھا تیرہ سالہ زینب خون میں لت پت پڑی تھی۔ اس کا سر بھی کچلا ہوا تھا، بدن کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، بچی بالکل چکنا چور تھی۔ جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جس سے خون نہ رس رہا ہو۔ فوراً اسپتال لے کر گئے، وہاں ڈاکٹروں نے موت کی تصدیق کردی۔

پولیس نے بہرحال بہت تعاون کیا اور مجرم سے سارا سچ اگلوا لیا، اس نے بتایا کہ بچی اس کے زور دینے پر اور یہ کہنے پر کہ اس کی ماں نے بھیجا ہے، دروازہ کھول دیا، لیکن وہ بہت دیر تک کسی کو فون کرتی رہی، اس نے یہ بھی بتایا کہ بچی پر جب اس نے حملہ کیا تو وہ گھبرا کر واش روم کی طرف بھاگی اور دروازہ بند کرلیا، لیکن واش روم کے دروازے میں لاک نہیں تھا۔

مجرم پلمبر نے زور دے کر دروازہ کھول لیا اور اس بچی کو بالوں سے پکڑ کر کمرے میں لایا، اس کے ساتھ وحشیانہ طریقے سے زیادتی کی اور اس کی مزاحمت پر اس پر جسمانی اور جنسی تشدد بھی کیا۔ اس کا منہ کشن رکھ کر بند کیا، بچی نے سخت مزاحمت کی لیکن اس وحشی درندے نے اپنی بربریت جاری رکھی تا وقت یہ کہ بچی مر نہ گئی۔

پولیس کی مار کے آگے تو بھوت بھی بھاگتے ہیں، جب مار پڑی تو طوطے کی طرح فر فر سبق سنانے لگا۔ پتا چلا کہ پہلے بھی دو بار یہ شخص دو لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کر چکا ہے۔ ان میں سے ایک تو مر گئی اور دوسری بچ تو گئی لیکن زندہ درگور ہوگئی ہوگی۔ یہ خبیث دونوں جگہوں سے واردات کرکے بھاگ نکلا اور پکڑا نہ گیا، لیکن اس بار محلے والوں کے تعاون کی وجہ سے اور کچھ ماں کی چھٹی حس کی وجہ سے یہ پکڑا گیا۔


بدبخت شادی شدہ اور کئی بچوں کا باپ ہے، بیٹیاں بھی ہیں اس کی اور اس نے یہ شرم ناک حرکت کرتے وقت اپنی بیٹیوں کے متعلق نہ سوچا کہ جب بڑی ہوں گی تو قاتل اور ریپیسٹ کی بیٹیاں کہلائیں گی۔ کون کرے گا ان سے شادی؟ بیوی بھی کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہی۔

معصوم بچیوں سے زیادتی کے کیس بڑھتے جا رہے ہیں، چار سال قبل زینب انصاری کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا، جس گندی اور غلیظ جگہ پر زینب کو رکھا گیا تھا وہاں ایمان فاطمہ، نور فاطمہ، عائشہ اور لائبہ کو بھی یہیں رکھا گیا تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس بدبخت کا نام بھی عمران تھا، جس نے بارہ بچیوں کو یہاں لا کر زیادتی کے بعد قتل کیا، یہ واقعہ قصور شہر میں پیش آیا تھا۔

ملزم حلیے بدل بدل کر بچیوں کو اغوا کرتا تھا اور پھر قتل کردیتا تھا، پولیس نے پہلے تو عمران کو گرفتار کرکے چھوڑ دیا تھا لیکن بعد میں لوگوں کے دباؤ پر اسے پکڑا گیا اور ایک ہزار پچاس لوگوں کے ڈی این اے کی جانچ کی گئی تھی تو عمران کا ڈی این اے میچ کرگیا پھر اس نے اقرار بھی کرلیا تھا۔ یہ بدبخت زینب کا پڑوسی تھا اور زینب کو ڈھونڈنے میں اس کے باپ کی مدد بھی کر رہا تھا تاکہ اس پر شک نہ جائے۔ مجرم کو دہشت گردی کی عدالت نے چار بار سزائے موت سنائی تھی اور اسے پھانسی دے دی گئی۔

والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو ایسی تربیت دیں کہ وہ کبھی کسی اجنبی پر بھروسہ نہ کرسکیں، جس تیرہ سالہ زینب کا ذکر میں نے شروع میں کیا ہے، ان کا گھر کرائے کا ہے، والدین اب بڑی بیٹی کے گھر رہ رہے ہیں کیونکہ جس کمرے میں زینب کے ساتھ زیادتی اور تشدد کیا گیا اس میں خون پڑا ہے، جو زینب کے جسم سے نکلا تھا۔

اب یہ لوگ یہاں نہیں رہنا چاہتے کہ اتنا ہولناک واقعہ ہو چکا ہے، لیکن انھیں کوئی اپنا گھر کرائے پر نہیں دینا چاہتا کہ ان کو گھر دیا تو آئے دن پولیس آتی رہے گی۔

ایسے میں JDC کے ایک سماجی کارکن نے اس خاندان کی بڑی مدد کی اور متاثرہ خاندان کو گورنر سندھ کے پاس لے کر گئے، گورنر صاحب بہت اچھی طرح ملے اور انھوں نے انھیں گھر دینے کا وعدہ کیا کہ اس خاندان کا کوئی بیٹا نہیں ہے جو بڑا ہو کر والدین کی ذمے داری سنبھالے۔ گورنر صاحب خدا کرے اپنا وعدہ پورا کریں تو بڑی بات ہے۔

والدین لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو آگاہی دیں کہ اگر کوئی بھی شخص ان کے پرائیویٹ پارٹس کو ہاتھ لگائے تو وہ فوراً ماں باپ ، بڑی بہن یا اسکول ٹیچرکو بتائیں۔ لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کرنے والے بچوں کو ڈرا دیتے ہیں کہ اگر کسی سے کہا تو وہ انھیں جان سے مار دیں گے۔

یہی تربیت دیجیے کہ بچے کسی سے خوف زدہ نہ ہوں، ہمارے ہاں ایک عام چلن ہے کہ بچے چیز لینے دکانوں پر چلے جاتے ہیں، راستے میں ایسے لوگ ملتے ہیں جنھیں وہ جانتے ہیں، اسی لیے وہ اس کے ساتھ چلے جاتے ہیں اور زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔

مساجد اور مدارس، اسکولز وغیرہ میں اکثر و بیشتر بدفعلی کے واقعات ہوتے قرار پاتے ہیں۔ اس اسلامی مملکت میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی اور تشدد کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن جرم ثابت ہو جانے اور مجرم کے اقرار جرم کے بعد فوری سزا پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ عمران پلمبر کو سخت سے سخت سزا دی جائے کہ وہ ایک گھناؤنے جرم کا مرتکب ہوا ہے۔

تیرہ سالہ زینب کے والدین کا کلیجہ پھٹا جا رہا ہے، گورنر سندھ کو اپنے وعدے کا پاس کرنا چاہیے اور اس بدنصیب اور مصیبت زدہ گھرانے کی مدد کرنی چاہیے۔ آخر میں اس سماجی کارکن ظفر عباس کی بھی بہت شکر گزار ہوں کہ انھوں نے ایسے کڑے وقت میں اس خاندان کی مدد کی۔
Load Next Story