سیاسی بہتان تراشیاں
یہ جنگ خاص طور پر پچھلے چار سال سے زیادہ شدت اور مسلسل جاری ہے
جناب عمران خان کی سیاست مخالفین پر الزامات عائد کرنے اور تہمتیں تراشنے سے شروع ہُوئی، اپنی حکومت کے پونے چار سال اُنھوں نے الزامات دہرانے میں گزار دیے اور اب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اُن کی سیاست تہمتوں ہی پر آ کر تھم سی گئی ہے۔
خان صاحب کو جواباً اب اپنے مخالفین کی طرف سے ''چند'' تہمتوںاور بہتانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے تو وہ پکار اُٹھے ہیں: ''ﷲ تعالیٰ نے برائیوں اور گناہوں پر پردہ ڈالنے کا حکم دیا ہے۔''یقیناً ﷲ تعالیٰ ستار العیوب ہے۔
خالقِ کائنات کا حکم اور اخلاقیات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسانی عیوب اور گناہوں پر پردہ ڈالا جائے ، لیکن عظیم خان کو یہ بات دیر سے یاد آئی ہے۔ٹھوس حقائق اور شواہد کے بغیر خان صاحب اب بھی اپنے مخالفین پر الزامات عائد کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ حیرت ہے کہ اُنہیں دوسروں کی پگڑی اچھالتے ہُوئے ﷲ کا حکم کیوں یادنہیں رہتا؟
بے بنیاد الزامات کی اساس پر عمران خان اور پی ٹی آئی نے نون لیگ، جے یو آئی ایف اورپیپلز پارٹی سے روزانہ کی بنیاد پر جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ یہ جنگ خاص طور پر پچھلے چار سال سے زیادہ شدت اور مسلسل جاری ہے۔ شیخ رشید احمد، بھی پیپلز پارٹی، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے خلاف شعلے اُگلتے رہتے ہیں۔
بلاول بھٹو کے خلاف شیخ صاحب کا طنزیہ اور مضحکہ خیز بیانیہ قابلِ گرفت بھی ہے اور سیاسی و اختلافی رویوں کے منافی بھی۔آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری مگر کم کم اپنے مذکورہ سیاسی مخالفین و معاندین کو برابری لہجے میں جواب دیتے ہیں۔
ان کا یہ محتاط رویہ شائد مخالفین کے نزدیک کمزوری کی کوئی شکل ہے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی 15ویں برسی کے آس پاس، چند روز قبل، عمران خان نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے خلاف ایک نیا الزاماتی گولہ داغتے ہوئے فرمایا ہے: '' جب سے بلاول بھٹو وزیر خارجہ بنا ہے، یہ اب تک اپنے غیر ملکی دَوروں پر پونے 2 ارب روپے خرچ کر چکا ہے''۔
معلوم نہیں خان صاحب نے یہ پونے دو ارب روپے کا تخمینہ کیسے لگایا ہے؟ لیکن اُن کے اس الزام کے ضمن میں کچھ بنیادی سوالات ضرور اُٹھائے جا سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کو وزیر خارجہ کا قلمدان سنبھالے تقریباً 9 ماہ گزر چکے ہیں۔اس دوران اُنھوں نے کئی غیر ممالک کے کامیاب دَورے کیے ہیں۔
اگر ہم عمران خان کے مذکورہ الزام کو سچا تسلیم کر لیں اور پونے 2 ارب روپوں کو 9 اور 30 پر تقسیم کریں تو یہ ہوشربا انکشاف ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان وزیر خارجہ، بلاول بھٹو زرداری، روزانہ 65 لاکھ روپے خرچ کررہے ہیں۔
کیا یہ ممکن ہے؟ ہمیں تو یہ ناممکن نظر آتا لیکن خان صاحب کے نزدیک یہ عین ممکن ہے۔ بلاول بھٹو نے بھی خان صاحب کے الزام کا یہ کہہ کر جواب دیا ہے کہ'' میں جہاں بھی غیر ملکی دَورے پر جاتا ہُوں، اپنا ٹکٹ اپنے پیسوں سے خریدتا ہُوں اور قیام و طعام کے اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کرتا ہُوں۔''۔
عمران خان مگر بلاول بھٹو زرداری کے جوابی بیان پر یقین نہیں کررہے۔ اُنھوں نے جواب میں پھر بلاول بھٹو پر الزام عائد کر دیا ہے۔ عجب تماشہ ہے۔پچھلے دنوں جب وزیراعظم شہباز شریف امریکہ گئے اور نیویارک کے ایک مہنگے ہوٹل میں قیام کیا تو بھی عمران خان کی طرف سے شہباز شریف کے ''اسراف'' پر ایسا ہی الزام عائد کر دیا گیا تھا۔ پلٹ کر شہباز شریف نے بھی یہی جواب دیا تھا کہ'' خان صاحب کا یہ بہتان بے بنیاد ہے۔
اس لیے کہ مَیں اپنے سفر اور قیام و طعام کے اخراجات خود برداشت کرتا ہُوں۔'' گریٹ خان مگر اپنی ہٹ کے ایسے پکّے ہیں کہ شہباز شریف کا جواب مانا نہ بلاول بھٹو زرداری کے جواب کو سچا تسلیم کررہے ہیں۔ اور اگر خان صاحب نہیں مان رہے تو اُن کے مریدینِ باصفا بھلا ان جوابات کی سچائی اور حقانیت کو کیسے مان سکتے ہیں؟
ہمارا خیال ہے کہ ایک عرصے بعد بلاول بھٹو کی شکل میں پاکستان کو ایک توانا،متحرک اور قابل وزیر خارجہ ملا ہے۔پچھلے 9 ماہ کے دوران انھوں نے خارجہ محاذ پر جو بڑی کامیابیاں سمیٹی ہیں، انھوں نے اپنے نانا، زیڈ اے بھٹو، کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ نہ تو بڑے بھٹو صاحب کی مخالفت میں اب تک کمی آئی ہے، نہ اُن کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو کی مخالفت کم کی گئی اور اب نہ ہی بھٹو مرحوم کے نواسے بلاول بھٹو کی مخالفت میں کمی آ رہی ہے۔ بھٹو اور اُن کی بیٹی کی تو جانیں بھی لے لی گئیں ۔ سوال یہ ہے کہ عزت کروانے اور کمانے کے لیے بھٹو خاندان کو مزید کتنی قربانیاں دینا پڑیں گی ؟
ہمارے نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے عالمی سطح پر وطنِ عزیز کے مفادات کے تحفظ اور وقار کے لیے جو کوششیں کی ہیں اور جتنی بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان سے پاکستان کی عزت و آبرو اور شوبھا میں اضافہ ہی ہُوا ہے ۔
اُن کے کسی اقدام، فیصلے اور بیان سے کسی بھی جگہ ملک و قوم کو سبکی اور ندامت نہیں اُٹھانا پڑی ہے ۔ ابھی چند دن پہلے امریکہ کے ایک اہم پلیٹ فارم سے بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی وزیر خارجہ،ایس جے شنکر، اور بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، کو جو ترنت اور دندان شکن جواب دیا ہے،اِس نے سارے پاکستانیوں کے دل مسرت سے بھر دیے ہیں۔
بلاول بھٹو کے اس جواب سے بھارت میں اب تک صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔بھارتی میڈیااب بھی غصے میں انگاروں پر لوٹتا نظر آ رہا ہے۔بلاول بھٹو کے بیان کی بنیاد پر بھارتی میڈیا کی لگائی گئی آگ اس قدرتیز ہے کہ اس سے متاثر ہو کر بھارتی مقتدر پارٹی، بی جے پی، کے ایک مشہور سیاستدان نے ایک عوامی اجتماع میں بلاول بھٹو کے سر کی قیمت تک لگا دی ہے۔
25دسمبر کوہمارے صدرِ مملکت جناب عارف علوی نے بھی بھارت کو دیے گئے بلاول بھٹو کے اِس جواب کی یوں تحسین کی ہے:''بلاول بھٹو کی جانب سے بھارت کو جو جواب دیا گیا ہے، خوب ہے۔''ہمیشہ عمران خان کے بارے میں رطب اللسان رہنے والے عارف علوی صاحب نے بلاول بھٹو کی کارکردگی کی تعریف کی ہے تو اِسے اہمیت دی جانی چاہیے ۔
افسوس کہ وطنِ عزیز میں بلاول بھٹو کی جانب سے بھارت کو دیے گئے اس جرأت مندانہ جواب کی بھرپور اور اجتماعی تحسین نہیں کی گئی ہے۔اس کی وجہ شائد یہ بھی ہے کہ ہم اپنے سیاسی بکھیڑوں میں اسقدر اُلجھ کر رہ گئے ہیں کہ ہمیں قومی مفادات کا ہوش ہی نہیں رہا۔قومی خدمات کے باوصف بعض اطراف سے شکوہ کیا جا رہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو اپنے ملک میں بھی ٹکنا چاہیے۔
یہ عجب مطالبہ ہے۔وزیر خارجہ کو تو خارجہ محاذ ہی پر سرگرم اور متحرک رہنما چاہیے۔ مگر بغض رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو امریکا،برطانیہ اور چین کے مسلسل دَورے کرکے دراصل اپنی وزارتِ عظمیٰ کی راہیں ہموار کررہے ہیں۔
چہ عجب!یہ بھی گلہ کیا جارہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو مغربی ممالک کے دَوروں سے تو فرصت نہیں ملتی لیکن وہ تھوڑے سے وقت کے لیے اپنے ہمسائے، افغانستان، جانے کا وقت نہیں نکال سکتے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ گلہ اتنا بے بنیاد بھی نہیں کہ افغانستان تو پاکستان سے صرف45منٹ کی ہوائی مسافت کے فاصلے پر ہے۔
خان صاحب کو جواباً اب اپنے مخالفین کی طرف سے ''چند'' تہمتوںاور بہتانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے تو وہ پکار اُٹھے ہیں: ''ﷲ تعالیٰ نے برائیوں اور گناہوں پر پردہ ڈالنے کا حکم دیا ہے۔''یقیناً ﷲ تعالیٰ ستار العیوب ہے۔
خالقِ کائنات کا حکم اور اخلاقیات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسانی عیوب اور گناہوں پر پردہ ڈالا جائے ، لیکن عظیم خان کو یہ بات دیر سے یاد آئی ہے۔ٹھوس حقائق اور شواہد کے بغیر خان صاحب اب بھی اپنے مخالفین پر الزامات عائد کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ حیرت ہے کہ اُنہیں دوسروں کی پگڑی اچھالتے ہُوئے ﷲ کا حکم کیوں یادنہیں رہتا؟
بے بنیاد الزامات کی اساس پر عمران خان اور پی ٹی آئی نے نون لیگ، جے یو آئی ایف اورپیپلز پارٹی سے روزانہ کی بنیاد پر جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ یہ جنگ خاص طور پر پچھلے چار سال سے زیادہ شدت اور مسلسل جاری ہے۔ شیخ رشید احمد، بھی پیپلز پارٹی، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے خلاف شعلے اُگلتے رہتے ہیں۔
بلاول بھٹو کے خلاف شیخ صاحب کا طنزیہ اور مضحکہ خیز بیانیہ قابلِ گرفت بھی ہے اور سیاسی و اختلافی رویوں کے منافی بھی۔آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری مگر کم کم اپنے مذکورہ سیاسی مخالفین و معاندین کو برابری لہجے میں جواب دیتے ہیں۔
ان کا یہ محتاط رویہ شائد مخالفین کے نزدیک کمزوری کی کوئی شکل ہے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی 15ویں برسی کے آس پاس، چند روز قبل، عمران خان نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے خلاف ایک نیا الزاماتی گولہ داغتے ہوئے فرمایا ہے: '' جب سے بلاول بھٹو وزیر خارجہ بنا ہے، یہ اب تک اپنے غیر ملکی دَوروں پر پونے 2 ارب روپے خرچ کر چکا ہے''۔
معلوم نہیں خان صاحب نے یہ پونے دو ارب روپے کا تخمینہ کیسے لگایا ہے؟ لیکن اُن کے اس الزام کے ضمن میں کچھ بنیادی سوالات ضرور اُٹھائے جا سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کو وزیر خارجہ کا قلمدان سنبھالے تقریباً 9 ماہ گزر چکے ہیں۔اس دوران اُنھوں نے کئی غیر ممالک کے کامیاب دَورے کیے ہیں۔
اگر ہم عمران خان کے مذکورہ الزام کو سچا تسلیم کر لیں اور پونے 2 ارب روپوں کو 9 اور 30 پر تقسیم کریں تو یہ ہوشربا انکشاف ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان وزیر خارجہ، بلاول بھٹو زرداری، روزانہ 65 لاکھ روپے خرچ کررہے ہیں۔
کیا یہ ممکن ہے؟ ہمیں تو یہ ناممکن نظر آتا لیکن خان صاحب کے نزدیک یہ عین ممکن ہے۔ بلاول بھٹو نے بھی خان صاحب کے الزام کا یہ کہہ کر جواب دیا ہے کہ'' میں جہاں بھی غیر ملکی دَورے پر جاتا ہُوں، اپنا ٹکٹ اپنے پیسوں سے خریدتا ہُوں اور قیام و طعام کے اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کرتا ہُوں۔''۔
عمران خان مگر بلاول بھٹو زرداری کے جوابی بیان پر یقین نہیں کررہے۔ اُنھوں نے جواب میں پھر بلاول بھٹو پر الزام عائد کر دیا ہے۔ عجب تماشہ ہے۔پچھلے دنوں جب وزیراعظم شہباز شریف امریکہ گئے اور نیویارک کے ایک مہنگے ہوٹل میں قیام کیا تو بھی عمران خان کی طرف سے شہباز شریف کے ''اسراف'' پر ایسا ہی الزام عائد کر دیا گیا تھا۔ پلٹ کر شہباز شریف نے بھی یہی جواب دیا تھا کہ'' خان صاحب کا یہ بہتان بے بنیاد ہے۔
اس لیے کہ مَیں اپنے سفر اور قیام و طعام کے اخراجات خود برداشت کرتا ہُوں۔'' گریٹ خان مگر اپنی ہٹ کے ایسے پکّے ہیں کہ شہباز شریف کا جواب مانا نہ بلاول بھٹو زرداری کے جواب کو سچا تسلیم کررہے ہیں۔ اور اگر خان صاحب نہیں مان رہے تو اُن کے مریدینِ باصفا بھلا ان جوابات کی سچائی اور حقانیت کو کیسے مان سکتے ہیں؟
ہمارا خیال ہے کہ ایک عرصے بعد بلاول بھٹو کی شکل میں پاکستان کو ایک توانا،متحرک اور قابل وزیر خارجہ ملا ہے۔پچھلے 9 ماہ کے دوران انھوں نے خارجہ محاذ پر جو بڑی کامیابیاں سمیٹی ہیں، انھوں نے اپنے نانا، زیڈ اے بھٹو، کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ نہ تو بڑے بھٹو صاحب کی مخالفت میں اب تک کمی آئی ہے، نہ اُن کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو کی مخالفت کم کی گئی اور اب نہ ہی بھٹو مرحوم کے نواسے بلاول بھٹو کی مخالفت میں کمی آ رہی ہے۔ بھٹو اور اُن کی بیٹی کی تو جانیں بھی لے لی گئیں ۔ سوال یہ ہے کہ عزت کروانے اور کمانے کے لیے بھٹو خاندان کو مزید کتنی قربانیاں دینا پڑیں گی ؟
ہمارے نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے عالمی سطح پر وطنِ عزیز کے مفادات کے تحفظ اور وقار کے لیے جو کوششیں کی ہیں اور جتنی بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان سے پاکستان کی عزت و آبرو اور شوبھا میں اضافہ ہی ہُوا ہے ۔
اُن کے کسی اقدام، فیصلے اور بیان سے کسی بھی جگہ ملک و قوم کو سبکی اور ندامت نہیں اُٹھانا پڑی ہے ۔ ابھی چند دن پہلے امریکہ کے ایک اہم پلیٹ فارم سے بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی وزیر خارجہ،ایس جے شنکر، اور بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، کو جو ترنت اور دندان شکن جواب دیا ہے،اِس نے سارے پاکستانیوں کے دل مسرت سے بھر دیے ہیں۔
بلاول بھٹو کے اس جواب سے بھارت میں اب تک صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔بھارتی میڈیااب بھی غصے میں انگاروں پر لوٹتا نظر آ رہا ہے۔بلاول بھٹو کے بیان کی بنیاد پر بھارتی میڈیا کی لگائی گئی آگ اس قدرتیز ہے کہ اس سے متاثر ہو کر بھارتی مقتدر پارٹی، بی جے پی، کے ایک مشہور سیاستدان نے ایک عوامی اجتماع میں بلاول بھٹو کے سر کی قیمت تک لگا دی ہے۔
25دسمبر کوہمارے صدرِ مملکت جناب عارف علوی نے بھی بھارت کو دیے گئے بلاول بھٹو کے اِس جواب کی یوں تحسین کی ہے:''بلاول بھٹو کی جانب سے بھارت کو جو جواب دیا گیا ہے، خوب ہے۔''ہمیشہ عمران خان کے بارے میں رطب اللسان رہنے والے عارف علوی صاحب نے بلاول بھٹو کی کارکردگی کی تعریف کی ہے تو اِسے اہمیت دی جانی چاہیے ۔
افسوس کہ وطنِ عزیز میں بلاول بھٹو کی جانب سے بھارت کو دیے گئے اس جرأت مندانہ جواب کی بھرپور اور اجتماعی تحسین نہیں کی گئی ہے۔اس کی وجہ شائد یہ بھی ہے کہ ہم اپنے سیاسی بکھیڑوں میں اسقدر اُلجھ کر رہ گئے ہیں کہ ہمیں قومی مفادات کا ہوش ہی نہیں رہا۔قومی خدمات کے باوصف بعض اطراف سے شکوہ کیا جا رہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو اپنے ملک میں بھی ٹکنا چاہیے۔
یہ عجب مطالبہ ہے۔وزیر خارجہ کو تو خارجہ محاذ ہی پر سرگرم اور متحرک رہنما چاہیے۔ مگر بغض رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو امریکا،برطانیہ اور چین کے مسلسل دَورے کرکے دراصل اپنی وزارتِ عظمیٰ کی راہیں ہموار کررہے ہیں۔
چہ عجب!یہ بھی گلہ کیا جارہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو مغربی ممالک کے دَوروں سے تو فرصت نہیں ملتی لیکن وہ تھوڑے سے وقت کے لیے اپنے ہمسائے، افغانستان، جانے کا وقت نہیں نکال سکتے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ گلہ اتنا بے بنیاد بھی نہیں کہ افغانستان تو پاکستان سے صرف45منٹ کی ہوائی مسافت کے فاصلے پر ہے۔