علمائے کرام کو ذمے داری دیں
اس برائی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے پاکستان ہر آپشن آزمائے گا
موجودہ دہشت گردی کی لہر نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قطر میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات جب کامیاب ہوئے تو پاکستان نے اطمینان کا سانس لیا۔
15اگست 2021کو افغان طالبان کابل میں داخل ہوگئے تو پاکستانیوں نے اسے اپنی کامیابی جانا۔ مسرت ہر ایک کے چہرے پر عیاں تھی۔ یہ خوشی، یہ یوفوریا چند مہینے ہی چلا اور پھر ٹی ٹی پی نے افغان سر زمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کو ازسرِ نو شروع کر دیا۔
ابتدا میں ہر ایک یہ سمجھتا تھا کہ افغان طالبان اپنی سرزمین پر کسی کو بھی پاکستان مخالف کارروائیوں کی اجازت نہیں دیں گے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا، حقائق عیاں ہوتے گئے۔ ٹی ٹی پی کی پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں شدت آتی گئی۔
ایسے میں افغان طالبان کی حکومت کی طرف سے ایک بھی ایسا قابلِ ذکر قدم نہیں اُٹھایا گیا جس سے ٹی ٹی پی کو یہ واضح پیغام ملا ہو کہ پاکستان کے خلاف کوئی بھی قدم افغان حکومت کوقابلِ قبول نہیں ہوگا۔
25دسمبر 2022کو کاہان بلوچستان میں بارودی سرنگ پھٹنے سے ہمارے 5خوبصورت، نڈر اور جری فوجی شہادت کے منصب پر فائز ہوئے۔ کیپٹن فہد جواں سال افسر تھا۔ بارودی سرنگ پھٹنے سے اس خوبصورت اور وجیہہ افسر کے ساتھ لائنس نائیک امتیاز، سپاہی اصغر، مہران اور شمعون نے اپنی جان اپنے پیارے وطن پر نچھاور کر دی۔
اسی دن کاہان کے علاوہ ژوب میں فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں سپاہی حق نواز شہید اور دو جوان زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ کوئٹہ میں دو جب کہ خضدار اور تربت میں تین بم حملوں میں سیکیورٹی فورسز کے 14افراد زخمی ہوئے۔ جمعہ 23دسمبر کو اسلام آباد کے سیکٹر آئی ٹن فور میں خود کش حملے میں پولیس کا ایک انتہائی نڈر اور بے باک فرض شناس اہلکار شہادت سے شرف یاب ہوا اور تین اہلکار زخمی ہوئے۔
اُسی روز ڈی آئی خان کے علاقے کلاچی میں پولیس موبائل اور اے پی سی پر یکے بعد دیگرے حملے کیے گئے۔ اگرچہ پولیس کے فرض شناس اہلکاروں نے ہمت اور جواں مردی سے کلاچی کے علاقے میں ان حملوں کو ناکام بنایا لیکن اس امر سے نظریں نہیں ہٹائی جا سکتیں کہ کلاچی میں ایک ہی دن میں پولیس پر متعدد بار حملے ہوئے۔ ابھی چند دن پہلے ہی بنوں میں سی ٹی ڈی مرکز میں ٹی ٹی پی نے خون کی ہولی کھیلی۔ چمن بارڈر پر تو دوبار ہمارے سویلین لوگ افغان فوجی توپوں کی زد میں آ کر شہید اور زخمی ہوئے۔
کابل میں ہمارے بہت ہی محنتی، صالح اور فرض شناس سفیر جناب عبیدالرحمان نظامانی صاحب کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا لیکن ان کے جان نثار محافظ نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سفیرِ پاکستان کی زندگی بچائی۔ ہفتے، دس دن کے اندر اس قدر دہشتگرد کاروائیاں اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔
حملوں میں شدت اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ ٹی ٹی پی کے اوپر افغان طالبان کا پاکستان کے حق میں ذرا برابر بھی دباؤ نہیں ہے۔یہ بھی صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ٹی ٹی پی نے اپنی اسٹریٹیجی تبدیل کر کے ہماری سیکیورٹی فورسز کو نشانے پر رکھ لیا ہے تاکہ فورسز کا مورال کمزور ہو اور پاکستانی عوام میں دہشت کی فضاء پیدا ہو۔یہ بات بھی اب عیاں ہے کہ سابق حکومت کے دور میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہوئے اور اسے وہ مراعات اور رعاتیں دی گئیں جن سے پاکستانی طالبان کو پاکستان کے اندر اپنی پناہ گاہیں بنانے میں بہت مدد ملی۔
ہماری شمال مغربی سرحد پر افغانستان سے پاکستان پر گولہ باری اور ہر روز بڑھتے دہشتگردی کے واقعات سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں گہری دراڑ پڑنے کا شدید خطرہ ہے۔پاکستان ہمیشہ سے تحمل کا مظاہرہ کرتا رہا ہے اور اب بھی اسی عزم پر قائم ہے لیکن حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ جناب بلاول نے واشنگٹن میں ایک بیان میں کہا کہ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ افغان طالبان حکومت اپنی سرزمین پر دہشت گرد گروہوں کو کب نکیل ڈالتی ہے۔انھوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ اگر افغان طالبان حکومت نے ایسا نہ کیا تو پاکستان اس بات پر مجبور ہو جائے گا کہ وہ ان گروہوں کے خلاف افغانستان کے اندر کارروائی کرے۔ پاکستان ایسے اقدام کا حق رکھتا ہے۔
کابل میں افغان طالبان حکومت کے اگست 2021میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے 500سے زیادہ افراد شہادت پاچکے ہیں۔ وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی بڑھتی کارروائیوں کو ہم کسی صورت بھی برداشت نہیں کریں گے۔ٹی ٹی پی ہماری ریڈ لائن ہے، اس برائی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے پاکستان ہر آپشن آزمائے گا۔
پاکستان کی سرحد پر افغانستان کے اندر سے ہونے والے حملوں سے وہ تاثر زائل ہو چکا ہے کہ افغان طالبان کے حکومت میں آنے سے پاکستان کی شمال مغربی سرحد محفوظ ہو جائے گی اور پاکستان اپنی ساری توجہ مشرقی سرحد کی طرف مرکوز کر سکے گا۔اگر افغانی کردار کو سامنے رکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ افغانی بھارت سے مفادات لے رہے ہیں جب کہ پاکستان سے دشمن والا رویہ رکھتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی حکومت،پاکستان کی مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں، دہشت گرد حملوں میں اس بے پناہ اضافے پر گہری نگاہ رکھ رہی ہوں گی اور پاکستان کی پاک سرزمین کو ان حملوں سے بچانے کے لیے سرگرم ہوں گی۔
پاکستان کے اندر اور خاص کر بلوچستان کے اندر سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں پر ان حملوں کو ہر صورت روکنا ہو گا۔ہمیں اپنی جامد افغان پالیسی پر جلد از جلد انتہائی غور وخوض کر کے نظر ثانی کرنی ہو گی اور خیبر پختون خواہ،بلوچستان میں سہولت کاری کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا۔
افغان طالبان دینی مدرسوں میں پڑھے ہیں۔ پاکستان میں ایک مکتبہء فکر کے معزز علماء کی افغان طالبان سے ایک گونہ فکری اورنظریاتی ہم آہنگی ہے۔ ہمارے چند معزز اور جید علماء نے بات چیت کا دروازہ کھولا تھا اور اس سلسلے میں کابل کا دورہ بھی کیا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا۔
مجھے امید ہے کہ حکومت کے کہنے پر معزز علمائے کرام ایک دفعہ پھر مذاکرات کا ڈول ڈالنے میں پس و پیش نہیں کریں گے بلکہ پاکستان کی خدمت کے جذبے سے اپنی پوری حکمت،فہم و فراست اور توانائیاں بروئے کار لا کر افغان طالبان کو باور کرا پائیں گے کہ پاکستان کی سرزمین کے دفاع میں ہی افغان طالبان کا بھلا ہے۔ہماری حکومت اور اداروں کو چاہیے کہ معزز علماے کرام کو تفصیلی بریفنگ دے کے واضح اہداف دیں تاکہ وہ یہ انتہائی مشکل کام بہ حسن و خوبی انجام دے سکیں۔اﷲ پاکستان کو ہر میلی آنکھ سے بچائے۔
15اگست 2021کو افغان طالبان کابل میں داخل ہوگئے تو پاکستانیوں نے اسے اپنی کامیابی جانا۔ مسرت ہر ایک کے چہرے پر عیاں تھی۔ یہ خوشی، یہ یوفوریا چند مہینے ہی چلا اور پھر ٹی ٹی پی نے افغان سر زمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کو ازسرِ نو شروع کر دیا۔
ابتدا میں ہر ایک یہ سمجھتا تھا کہ افغان طالبان اپنی سرزمین پر کسی کو بھی پاکستان مخالف کارروائیوں کی اجازت نہیں دیں گے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا، حقائق عیاں ہوتے گئے۔ ٹی ٹی پی کی پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں شدت آتی گئی۔
ایسے میں افغان طالبان کی حکومت کی طرف سے ایک بھی ایسا قابلِ ذکر قدم نہیں اُٹھایا گیا جس سے ٹی ٹی پی کو یہ واضح پیغام ملا ہو کہ پاکستان کے خلاف کوئی بھی قدم افغان حکومت کوقابلِ قبول نہیں ہوگا۔
25دسمبر 2022کو کاہان بلوچستان میں بارودی سرنگ پھٹنے سے ہمارے 5خوبصورت، نڈر اور جری فوجی شہادت کے منصب پر فائز ہوئے۔ کیپٹن فہد جواں سال افسر تھا۔ بارودی سرنگ پھٹنے سے اس خوبصورت اور وجیہہ افسر کے ساتھ لائنس نائیک امتیاز، سپاہی اصغر، مہران اور شمعون نے اپنی جان اپنے پیارے وطن پر نچھاور کر دی۔
اسی دن کاہان کے علاوہ ژوب میں فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں سپاہی حق نواز شہید اور دو جوان زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ کوئٹہ میں دو جب کہ خضدار اور تربت میں تین بم حملوں میں سیکیورٹی فورسز کے 14افراد زخمی ہوئے۔ جمعہ 23دسمبر کو اسلام آباد کے سیکٹر آئی ٹن فور میں خود کش حملے میں پولیس کا ایک انتہائی نڈر اور بے باک فرض شناس اہلکار شہادت سے شرف یاب ہوا اور تین اہلکار زخمی ہوئے۔
اُسی روز ڈی آئی خان کے علاقے کلاچی میں پولیس موبائل اور اے پی سی پر یکے بعد دیگرے حملے کیے گئے۔ اگرچہ پولیس کے فرض شناس اہلکاروں نے ہمت اور جواں مردی سے کلاچی کے علاقے میں ان حملوں کو ناکام بنایا لیکن اس امر سے نظریں نہیں ہٹائی جا سکتیں کہ کلاچی میں ایک ہی دن میں پولیس پر متعدد بار حملے ہوئے۔ ابھی چند دن پہلے ہی بنوں میں سی ٹی ڈی مرکز میں ٹی ٹی پی نے خون کی ہولی کھیلی۔ چمن بارڈر پر تو دوبار ہمارے سویلین لوگ افغان فوجی توپوں کی زد میں آ کر شہید اور زخمی ہوئے۔
کابل میں ہمارے بہت ہی محنتی، صالح اور فرض شناس سفیر جناب عبیدالرحمان نظامانی صاحب کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا لیکن ان کے جان نثار محافظ نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سفیرِ پاکستان کی زندگی بچائی۔ ہفتے، دس دن کے اندر اس قدر دہشتگرد کاروائیاں اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔
حملوں میں شدت اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ ٹی ٹی پی کے اوپر افغان طالبان کا پاکستان کے حق میں ذرا برابر بھی دباؤ نہیں ہے۔یہ بھی صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ٹی ٹی پی نے اپنی اسٹریٹیجی تبدیل کر کے ہماری سیکیورٹی فورسز کو نشانے پر رکھ لیا ہے تاکہ فورسز کا مورال کمزور ہو اور پاکستانی عوام میں دہشت کی فضاء پیدا ہو۔یہ بات بھی اب عیاں ہے کہ سابق حکومت کے دور میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہوئے اور اسے وہ مراعات اور رعاتیں دی گئیں جن سے پاکستانی طالبان کو پاکستان کے اندر اپنی پناہ گاہیں بنانے میں بہت مدد ملی۔
ہماری شمال مغربی سرحد پر افغانستان سے پاکستان پر گولہ باری اور ہر روز بڑھتے دہشتگردی کے واقعات سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں گہری دراڑ پڑنے کا شدید خطرہ ہے۔پاکستان ہمیشہ سے تحمل کا مظاہرہ کرتا رہا ہے اور اب بھی اسی عزم پر قائم ہے لیکن حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ جناب بلاول نے واشنگٹن میں ایک بیان میں کہا کہ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ افغان طالبان حکومت اپنی سرزمین پر دہشت گرد گروہوں کو کب نکیل ڈالتی ہے۔انھوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ اگر افغان طالبان حکومت نے ایسا نہ کیا تو پاکستان اس بات پر مجبور ہو جائے گا کہ وہ ان گروہوں کے خلاف افغانستان کے اندر کارروائی کرے۔ پاکستان ایسے اقدام کا حق رکھتا ہے۔
کابل میں افغان طالبان حکومت کے اگست 2021میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے 500سے زیادہ افراد شہادت پاچکے ہیں۔ وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی بڑھتی کارروائیوں کو ہم کسی صورت بھی برداشت نہیں کریں گے۔ٹی ٹی پی ہماری ریڈ لائن ہے، اس برائی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے پاکستان ہر آپشن آزمائے گا۔
پاکستان کی سرحد پر افغانستان کے اندر سے ہونے والے حملوں سے وہ تاثر زائل ہو چکا ہے کہ افغان طالبان کے حکومت میں آنے سے پاکستان کی شمال مغربی سرحد محفوظ ہو جائے گی اور پاکستان اپنی ساری توجہ مشرقی سرحد کی طرف مرکوز کر سکے گا۔اگر افغانی کردار کو سامنے رکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ افغانی بھارت سے مفادات لے رہے ہیں جب کہ پاکستان سے دشمن والا رویہ رکھتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی حکومت،پاکستان کی مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں، دہشت گرد حملوں میں اس بے پناہ اضافے پر گہری نگاہ رکھ رہی ہوں گی اور پاکستان کی پاک سرزمین کو ان حملوں سے بچانے کے لیے سرگرم ہوں گی۔
پاکستان کے اندر اور خاص کر بلوچستان کے اندر سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں پر ان حملوں کو ہر صورت روکنا ہو گا۔ہمیں اپنی جامد افغان پالیسی پر جلد از جلد انتہائی غور وخوض کر کے نظر ثانی کرنی ہو گی اور خیبر پختون خواہ،بلوچستان میں سہولت کاری کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا۔
افغان طالبان دینی مدرسوں میں پڑھے ہیں۔ پاکستان میں ایک مکتبہء فکر کے معزز علماء کی افغان طالبان سے ایک گونہ فکری اورنظریاتی ہم آہنگی ہے۔ ہمارے چند معزز اور جید علماء نے بات چیت کا دروازہ کھولا تھا اور اس سلسلے میں کابل کا دورہ بھی کیا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا۔
مجھے امید ہے کہ حکومت کے کہنے پر معزز علمائے کرام ایک دفعہ پھر مذاکرات کا ڈول ڈالنے میں پس و پیش نہیں کریں گے بلکہ پاکستان کی خدمت کے جذبے سے اپنی پوری حکمت،فہم و فراست اور توانائیاں بروئے کار لا کر افغان طالبان کو باور کرا پائیں گے کہ پاکستان کی سرزمین کے دفاع میں ہی افغان طالبان کا بھلا ہے۔ہماری حکومت اور اداروں کو چاہیے کہ معزز علماے کرام کو تفصیلی بریفنگ دے کے واضح اہداف دیں تاکہ وہ یہ انتہائی مشکل کام بہ حسن و خوبی انجام دے سکیں۔اﷲ پاکستان کو ہر میلی آنکھ سے بچائے۔