ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ادبی دلچسپیاں

عالم ِ اسلام کی خدمات کے حوالے سے جو شخصیات ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گی، ان میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام یقینا سرفہرست ہو گا، انھوں نے دفاعی لحاظ سے وطن عزیز کو جس مقام پر لا کھڑا کیا ، وہاں تک پہنچنے کی خواہش میں تو کئی ممالک صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئے۔

ان کے دفاعی اور فلاحی کاموں کی ایک لمبی فہرست ہیں ، مگر مجھے آج ان کی ادبی ،علمی اور قلمی خدمات کے حوالے سے گفتگو کرنی ہے، کیونکہ ڈاکٹر صاحب ایک کتاب دوست آدمی تھے، انھیں کتابیں اور کتابی چہرے اچھے لگتے تھے۔ جن کا تذکرہ وہ اکثر اوقات اپنے کالموں میں کیا کرتے۔

یہی وجہ ہے کہ اُردو نثر نگاروں میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک بلند اور منفرد حیثیت رکھتے تھے۔ان کی تحریروں میں سلاست اور روانی ،تخیل کی صاف گوئی، زبان کی شیرینی، حسن اور خوبصورتی پائی جاتی ۔ وہ اپنی تحریروں میں الفاظ اور محاورہ کے استعمال میں توازن اور تناسب کا بھرپور خیال رکھتے۔ ان کی تحریریں تصنع اور تکلف سے پاک اور باغ و بہار شخصیت کی طرح سدا بہار تھے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھارت کے شہر بھوپال میں 27 اپریل1936 کو عبدالغفور خان کے ہاں پیدا ہوئے۔وہ اکثر کہتے کہ''بھوپال آج بھی جنت ہے۔ بھوپال سے زیادہ خوبصورت جگہ ہندوستان میں کہیں نہیں، بھوپال کے لوگوں سے اچھے لوگ کہیں نہیں۔ان کے والد درس وتدریس کے شعبہ سے وابستہ تھے جن کا شمار اُس وقت کی مشہور علمی شخصیات میں ہوتا تھا۔

ان کی والدہ گھر میں بچیوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتی اور غریب بچیوں میں پیسے اور کپڑے بھی تقسیم کرتی۔ اسی لیے فلاحی جذبہ ابتداء سے ہی خاندان سے تھا۔کامران امجد خان اپنی کتاب ''مشہور عالمی شخصیات'' میں لکھتے ہیں کہ'' ڈاکٹر صاحب کو بچپن میں مچھلی کے شکار اور تیراکی کا بہت شوق تھا اور اس شوق کی تکمیل وہ گھر کے قریب واقع تالاب سے پوری کرتے تھے۔

چھوٹی موٹی شرارتیں بھی کرتے تھے،انھیں مطالعہ سے بہت شغف تھا، شعروشاعری سے بھی لگاؤ رہا۔ اسلامی ناولوں کو بہت شوق سے پڑھتے تھے۔ ''

ڈاکٹر صاحب اپنے لڑکپن میں اکثر کہا کرتے تھے کہ''میں کوئی ایسا کام کروں گا جس سے میری قوم کو اور مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچے گا۔'' قیام پاکستان کے بعدوہ لٹے پٹے کراچی آگئے اور محلہ رام سوامی میں رہائش اختیار کی۔ انھوں نے ڈی جے ایس کالج میں داخلہ لیا اور تعلیم کے حصول میں مگن ہو گئے۔

انھوں نے اپنے قلم سے نظریہ پاکستان، تاریخ، تعلیم ، ادب،زبان وبیان ،اسلام اور فلسفہ سائنس جیسے موضوعات پر بہت سے مضامین سپرد قلم کیے جو ملک کے معروف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوئے ۔ ان کے مضامین کے مطالعہ سے ان کی وسعت معلومات اور دقیق علمی دسترس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

وہ اپنے مضامین کے ذریعے اپنے پڑھنے والوں کو نہ صرف فکری طور پر محرک کرنا چاہتے تھے بلکہ عمل کی ترغیب بھی دیتے تھے۔ عمل کی یہ ترغیب ان کے جذبہ خلوص اور درد مندی کی آئینہ دار تھی انھیں قومی اور وطنی ضرورتوں کا ایک سچے پاکستانی اور محب وطن ہونے کی حیثیت سے پورا پورا ادراک ہے۔ اسی لیے وہ چاہتے تھے کہ پاکستان دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہو جائے اور انھوں نے ایسا سچ میں کر کے دکھایا جسے پھر پوری دنیا نے نہ صرف دیکھا بلکہ تسلیم بھی کیا۔

افسوس کے انھیں پاکستان کو ایٹمی ریاست بنانے کا صلہ ''نظر بند'' ہونے کی صورت میں دیا گیا۔ جس پر ڈاکٹر صاحب کہتے کہ'' جن لوگوں پر ہم نے احسان کیا اُن ہی نے مجھے میری نواسیوں ،بیٹیوں اور بہن بھائیوں سے چار چار ماہ تک کبھی ملنے نہ دیا۔'' ایسے میں داغ دہلوی کا شعر یاد آیا ۔

تماشا جب سے دیکھا ہے مرے دل کے تڑپنے کا


تماشا ہے کہ وہ اپنی نظر سے آپ ڈرتے ہیں

ڈاکٹر صاحب جہاں عمدہ نثر نگار تھے، وہیں بہت اچھے شاعر بھی تھے،مگر اُن کا زیادہ تر رجحان نثر لکھنے کی طرف رہا۔ان کے پسندیدہ شعراء میں غالب، مومن، مصحفی، جگر، جوش، اقبال، مجاز، فیض، فراز جنھیں وہ اعلیٰ پائے کے شاعر تسلیم کرتے، جب کہ اختر شیرانی کی رومانی شاعری کے بہت گرویدہ تھے۔

علم وادب کی تعلیم انھیں گھر سے ہی ورثہ میں ملی اور سائنس ان کا سائیڈ مشغلہ ٹھہرا۔انھیں آٹو بائیو گرافی اور اسلامی کتب پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ ان کے پسندیدہ گلوکاروں میں منی بیگم، اقبال بانو، عابدہ پروین اور غلام علی خاں شامل ہیں۔ ''سحر ہونے تک'' یہ کتاب ان کے منتخب کالموں کا مجموعہ ہیں۔ ان کا آخری کالم انکی وفات کے اگلے روز ''نعمت ِ الٰہی'' کے عنوان سے شائع ہوا، اس کالم کی چند آخری سطریں دیکھیے:

''الحمدللہ اب پہلے سے صحت بہت بہتر اور خطرے سے باہر ہے صرف تھوڑی کمزوری ہے ان شاء اللہ وہ بھی جلد دور ہو جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب کبھی مجھے تنہا نہ چھوڑے گا۔''

ان الفاظ کو پڑھنے کے ابھی سب منتظر تھے کہ 10 اکتوبر2021 کی سحر ہوتے ہی وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے،جس سے پاکستان کا روحانی باپ فوت ہوگیا اور یقینا ان کی وفات ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ محسن پاکستان ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے کیونکہ زندہ قومیں اپنے محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ایسے موقع پر وسیم عالم کا شعر یاد آرہا ہے کہ:

جنھیں مل کر دلی راحت ملے ہم کو

یہی وہ لوگ ہیں جو یاد رہتے ہیں

ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمارے لیے سرمایہ افتخار تھے اور ہمیشہ رہیں گے کیونکہ انھوں نے وطن عزیز کو سر اُٹھا کر چلنے کا حوصلہ دیا۔ انھوں نے دفاعی لحاظ سے وطن عزیز کو ناقابل تسخیر بنا کر دشمن پر یہ واضح کر دیا کہ اگر خدا پر مکمل بھروسہ ہو تو پھر''مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔'' ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ ''کارگل کی جنگ میں پرویز مشرف نے جو غلطی کی تھی ''آبیل مجھے مارنے والی'' اس کے بعد پاکستان پر آج تک کوئی آنچ نہیں آئی۔'' ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا غم زدہ لمحہ تھا جب انھیں نظر بند کیا گیااور خوشی کا وہ لمحہ جب غوری مزائل کا کامیاب تجربہ کیا اور برسوں کی محنت رنگ لائی جس سے پاکستان ایٹمی قوت بن گیا ۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی کا بیش قیمت حصہ جس عظیم مقاصد کے حصول میں صرف کیا اسے آج پوری قوم عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور ان کی عظمتوں کو سلام پیش کرتی ہے،مگروہیں افسوس کا مقام یہ ہے کہ زندہ تھے تو نظر بند۔ مر گئے تو محسن پاکستان، آخر میں ڈاکٹر صاحب کے اس شعر کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ:

گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر ؔ

ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
Load Next Story