’’بڑے گھر‘‘کی شیرازی کتھا
تمہیں سمجھایا گیا تھا نا کہ'' بڑے گھر''کے بکھیڑوں میں نہ پڑنا اور نہ ہی تانک جھانک کرنا،بڑے گھر کے ایستادہ درو دیوار اور چوباروں میں عوام کے خون سے گندھے ہوئے لاشوں کی لیپ شدہ بو سونگھنے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ تم سے پہلے تمہاری صحافتی تنظیم پی ایف یو جے کے متحرک صحافی حسن عابدی نے بھی صحافت کی آزادی کی خاطر خاموش مجاہد کا کردار ادا کیا تھا مگر حسن عابدی بھی ہمارے بندی خانے کے حبس اور گھٹن سے نہ گھبرایا بلکہ بندی خانے کے راز عام فرد تک کسی نہ کسی طرح یوں منتقل کر ہی گیا کہ...
کچھ عجب بوئے نفس آتی ہے دیواروں سے
ہائے زنداں میں بھی کیا لوگ تھے ہم سے پہلے
اسی لیے تم کو ممانعت کی گئی تھی کہ لق دق برآ مدوں اور راہداریوں میں چلتے ہوئے اِدھر اُدھر کی سن گن نہ لینا بلکہ سانس روکے بے حس و ساکت بت مانند سیدھی چلتی جانا،نہ تنگ و تاریک کھولیوں کی تشدد زدہ دیواروں پر لگے طمنچے دیکھنا اور نہ ہی ان بلند دیواروں پر خون سے لت پت زنجیروں کی طرف نظر کرنا جن کی جھنکار میں تمہیں جمہوریت پابہ زنجیر محسوس ہو۔بڑے گھر کے صم مم بک من بنے رہنے کے آداب بجا لانے کی شرط پر تمہیں''بڑے گھر'' آنے کی اجازت دی گئی تھی،مگر تم نے تو بڑے گھرکے تمام آداب کی دھجیاں بکھیر دیں اور اپنی من مانی کی۔
اب تمہارے بڑے گھر کے آداب بجا نہ لانے اور من مانی کرنے پر تمہیں برا بھلا نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ہمارے ہاں تو نا فرمانوں کے لیے ایسے الفاظ ہی اپنانے کا چلن برسہا برس سے چلتا چلا آرہا ہے ،لگتا ہے تم نے ست جیت رے کی فلم ''پار'' نہیں دیکھی،اگر نصیرالدین شاہ اور شبانہ اعظمی کی یہ آرٹ فلم دیکھ لیتیں تو تمہیں ہماری خصلت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا،خیر اب بھی وقت ہے کہ ست جیت رے اور ڈاکٹر گرناڈ شا کی آرٹ فلم دیکھتی رہو تاکہ تمہیں ہماری نہ بدلنے والی فطرت کا اندازہ ہوجائے۔
اور ہاں تم سے کس نے کہا کہ تمہاری اس پدر شاہی سماج میں کوئی وقعت اور حیثیت ہے،دیکھو تمہیں بار بار گلے سڑے روایتی بوسیدہ پردوں کی اوٹ سے سمجھایا جا چکا ہے کہ ہم نے روایات کو صنفی کرکے اس کی لگام میں پدر شاہی کی بنیاد رکھ دی ہے اور پدر شاہی کی یہ لگام تم سمیت تم سے پہلے والی اور تمہارے بعد جنم لینے والی تمام صنف نازک پر فتاوی کے تازیانے برساتی رہے گی،تمہیں گودتی رہے گی اور تمہیں لہو لہان کرکے تمہاری ٹیسوں سے اٹھنے والی ''آہ'' نکلنے کی بھی سزا دیتی رہے گی۔
بڑے گھر کے متولیوں کو احساس ہی نہ تھا کہ منگول جبر کے سامنے سینہ سپر ہونے والی مٹی کی ڈٹ جانے والی خاصیت سے سرشار فارس کے شیرازکی بیٹی عاصمہ شیرازی آرٹس کونسل کراچی میں ہمارے ہی بٹھائے گئے مصاحبوں کے درمیان دھاڑ دھاڑ کر جورو ستم کی داستان زبان زد عام کردے گی۔
اگر ہمارے علم میں ہوتا کہ عاصمہ تم ''شیراز''کے ماہر لسانیات،سائنسدان اور محقق پیدا کرنے والی نسل سے ہو، جس نے عربی گرامر کی بنیاد رکھی،تو شاید ہم تمہیں ''بڑے گھر'' کے ارد گرد پھٹکنے بھی نہ دیتے،ہمیں واقعی علم نہ تھا کہ بغداد کی خلافت کو ختم کرنے والے شیرازیوں کی تم وہ نسل ہو جنہوں نے اپنے ادب،سائنس،فن اور ثقافت کی توانائی سے شیراز کو عالمی علم و ثقافت کا شہر بنایا،جہاں مذہبی اقلیتوں عیسائی،یہودی اور زرتشیوں کے حقوق کی مکمل ضمانت تھی اور ہے،اور آج بھی پاکستان میں آباد بہائی فرقہ ''شیراز'' کے تمام رسم و رواج کا داعی ہے،تاریخ اب تک ''شیراز''کے بازار مہرگان کے نوروز جشن کو سلامت رکھے ہوئے ہے،ہم تو کھوج ہی نہ سکے کہ سیالکوٹ اور جموں کی سوندھ سے گندھی عاصمہ شیرازی پہاڑوں کی وہ توانا ہمت ہے جو اظہار کے تمام صحافتی تقاضے لیے صنفی تقسیم سے ماورا آج کے اعدا سے برسر پیکار ہے۔
''بڑے گھر کی کہانی'' کو بہادری اور جرات سے عوام میں طشت از بام کرنے پر پدرشاہی سماج سے لڑنے والی عاصمہ شیرازی ہر اس صحافن کے لیے جرات کا وہ دیا جس کو مل کر اظہار کی روشن مشعل میں تبدیل کرنا ہے،سلیقے،تہذیب اور بے خوف ہوکر کہ تم سب عاصمہ شیرازی ہو کہ...
تو شیراز کی وفا ہے عشق ہے
تو میری دعا ہے عشق ہے
تجھ بن جہاں کچھ نہیں
تو حاصل مدعا عشق ہے
اظہارِ صبح تازہ کی شبنم
تیرا آب و گیا وہ عشق ہے
ترے بن لب کشا ہوتے نہیں
تیرے نقش پا ہی عشق ہے
تیری جھانجر اور پائل میں
الفاظ کے سر تال کا عشق ہے
کچھ عجب بوئے نفس آتی ہے دیواروں سے
ہائے زنداں میں بھی کیا لوگ تھے ہم سے پہلے
اسی لیے تم کو ممانعت کی گئی تھی کہ لق دق برآ مدوں اور راہداریوں میں چلتے ہوئے اِدھر اُدھر کی سن گن نہ لینا بلکہ سانس روکے بے حس و ساکت بت مانند سیدھی چلتی جانا،نہ تنگ و تاریک کھولیوں کی تشدد زدہ دیواروں پر لگے طمنچے دیکھنا اور نہ ہی ان بلند دیواروں پر خون سے لت پت زنجیروں کی طرف نظر کرنا جن کی جھنکار میں تمہیں جمہوریت پابہ زنجیر محسوس ہو۔بڑے گھر کے صم مم بک من بنے رہنے کے آداب بجا لانے کی شرط پر تمہیں''بڑے گھر'' آنے کی اجازت دی گئی تھی،مگر تم نے تو بڑے گھرکے تمام آداب کی دھجیاں بکھیر دیں اور اپنی من مانی کی۔
اب تمہارے بڑے گھر کے آداب بجا نہ لانے اور من مانی کرنے پر تمہیں برا بھلا نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ہمارے ہاں تو نا فرمانوں کے لیے ایسے الفاظ ہی اپنانے کا چلن برسہا برس سے چلتا چلا آرہا ہے ،لگتا ہے تم نے ست جیت رے کی فلم ''پار'' نہیں دیکھی،اگر نصیرالدین شاہ اور شبانہ اعظمی کی یہ آرٹ فلم دیکھ لیتیں تو تمہیں ہماری خصلت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا،خیر اب بھی وقت ہے کہ ست جیت رے اور ڈاکٹر گرناڈ شا کی آرٹ فلم دیکھتی رہو تاکہ تمہیں ہماری نہ بدلنے والی فطرت کا اندازہ ہوجائے۔
اور ہاں تم سے کس نے کہا کہ تمہاری اس پدر شاہی سماج میں کوئی وقعت اور حیثیت ہے،دیکھو تمہیں بار بار گلے سڑے روایتی بوسیدہ پردوں کی اوٹ سے سمجھایا جا چکا ہے کہ ہم نے روایات کو صنفی کرکے اس کی لگام میں پدر شاہی کی بنیاد رکھ دی ہے اور پدر شاہی کی یہ لگام تم سمیت تم سے پہلے والی اور تمہارے بعد جنم لینے والی تمام صنف نازک پر فتاوی کے تازیانے برساتی رہے گی،تمہیں گودتی رہے گی اور تمہیں لہو لہان کرکے تمہاری ٹیسوں سے اٹھنے والی ''آہ'' نکلنے کی بھی سزا دیتی رہے گی۔
بڑے گھر کے متولیوں کو احساس ہی نہ تھا کہ منگول جبر کے سامنے سینہ سپر ہونے والی مٹی کی ڈٹ جانے والی خاصیت سے سرشار فارس کے شیرازکی بیٹی عاصمہ شیرازی آرٹس کونسل کراچی میں ہمارے ہی بٹھائے گئے مصاحبوں کے درمیان دھاڑ دھاڑ کر جورو ستم کی داستان زبان زد عام کردے گی۔
اگر ہمارے علم میں ہوتا کہ عاصمہ تم ''شیراز''کے ماہر لسانیات،سائنسدان اور محقق پیدا کرنے والی نسل سے ہو، جس نے عربی گرامر کی بنیاد رکھی،تو شاید ہم تمہیں ''بڑے گھر'' کے ارد گرد پھٹکنے بھی نہ دیتے،ہمیں واقعی علم نہ تھا کہ بغداد کی خلافت کو ختم کرنے والے شیرازیوں کی تم وہ نسل ہو جنہوں نے اپنے ادب،سائنس،فن اور ثقافت کی توانائی سے شیراز کو عالمی علم و ثقافت کا شہر بنایا،جہاں مذہبی اقلیتوں عیسائی،یہودی اور زرتشیوں کے حقوق کی مکمل ضمانت تھی اور ہے،اور آج بھی پاکستان میں آباد بہائی فرقہ ''شیراز'' کے تمام رسم و رواج کا داعی ہے،تاریخ اب تک ''شیراز''کے بازار مہرگان کے نوروز جشن کو سلامت رکھے ہوئے ہے،ہم تو کھوج ہی نہ سکے کہ سیالکوٹ اور جموں کی سوندھ سے گندھی عاصمہ شیرازی پہاڑوں کی وہ توانا ہمت ہے جو اظہار کے تمام صحافتی تقاضے لیے صنفی تقسیم سے ماورا آج کے اعدا سے برسر پیکار ہے۔
''بڑے گھر کی کہانی'' کو بہادری اور جرات سے عوام میں طشت از بام کرنے پر پدرشاہی سماج سے لڑنے والی عاصمہ شیرازی ہر اس صحافن کے لیے جرات کا وہ دیا جس کو مل کر اظہار کی روشن مشعل میں تبدیل کرنا ہے،سلیقے،تہذیب اور بے خوف ہوکر کہ تم سب عاصمہ شیرازی ہو کہ...
تو شیراز کی وفا ہے عشق ہے
تو میری دعا ہے عشق ہے
تجھ بن جہاں کچھ نہیں
تو حاصل مدعا عشق ہے
اظہارِ صبح تازہ کی شبنم
تیرا آب و گیا وہ عشق ہے
ترے بن لب کشا ہوتے نہیں
تیرے نقش پا ہی عشق ہے
تیری جھانجر اور پائل میں
الفاظ کے سر تال کا عشق ہے