حقیقت کی دنیا

پاکستان کی بقا، سلامتی اور ترقی کے بنیادی مفادات کا نہایت جرات وبہادری، مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے تحفظ کیا جائے

پاکستان کی بقا، سلامتی اور ترقی کے بنیادی مفادات کا نہایت جرات وبہادری، مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے تحفظ کیا جائے (فوٹو: فائل)

وزیراعظم میاں شہباز شریف کی صدارت میں جمعے کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اس اہم اجلاس میں وفاقی وزراء، سروسز چیفس اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔

وزیراعظم دفتر کے پریس ونگ سے جاری بیان کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے ملکی معیشت اور امن وامان کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ملک کی معاشی صورتحال اور چیلنجز سے آگاہ کیا اور اس ضمن میں حکومت کی معاشی حکمت عملی اور اقدامات کے بارے میں شرکاء کو بریفنگ دی۔

انٹیلی جنس اداروں نے ملک میں امن وامان کی مجموعی صورتحال پر بریفنگ دی اور دہشت گردی کی حالیہ لہر سے متعلق عوامل اور ان کے سدباب کے اقدامات سے اجلاس کو آگاہ کیا۔ وزیر مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر نے افغانستان کی صورتحال پر اجلاس کو بریفنگ دی اور پاکستان کے افغانستان کی عبوری حکومت سے ہونے والے رابطوں سے آگاہ کیا۔

اجلاس نے دوٹوک رائے کا اظہار کیا کہ پاکستان کے قومی مفادات پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی اور نہ ہی کسی کو بھی قومی سلامتی کے کلیدی تصور کو نقصان پہنچانے کی اجازت دیں گے۔ پاکستان کی بقا، سلامتی اور ترقی کے بنیادی مفادات کا نہایت جرات وبہادری، مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے تحفظ کیا جائے گا۔

اجلاس نے دہشت گردی کے خلاف شہداء کی عظیم قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا اور شہداء کے درجات کی بلندی کے لیے اجتماعی دعا کی۔

اجلاس کے شرکاء نے کہا کہ دہشت گرد پاکستان کے دشمن ہیں اور اس عزم کا اظہار کیا کہ پوری قوم دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف ایک بیانیہ پر متحد ہے، پاکستان کو للکارنے والوں کو پوری قوت سے جواب ملے گا۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی (این ایس سی) کا اجلاس 2 جنوری 2023 کو جاری رہے گا جس میں سامنے آنے والی تجاویز کی روشنی میں مزید فیصلے کیے جائیں گے۔

پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس انتہائی ضروری تھا کیونکہ معاشی بحران 'داخلی صورت حال اور شمال مغرب میں دہشت گردی کے واقعات نے صورت حال کو نیا رخ دے دیا ہے۔

پاکستان کی شمال مغربی پالیسی میں تبدیلیاں کرنا ناگزیر ہو چکا ہے کیونکہ عالمی صف بندیاں تبدیل ہو رہی ہیں' معاشی اور اقتصادی بلاک نئی صف بندیوں کے مطابق اپنی پالیسیاں تیار کر رہے ہیں ' عالمی مالیاتی نظام میں اپنی جگہ برقرار رکھنے اور جیو اسٹرٹیجکل پوزیشن کا فائدہ اٹھانے کے لیے روایتی پالیسی میں تبدیلی ناگزیر ہے۔

شمال مغرب میں پاکستان کی نرم اور ڈھیلی پالیسی اب نقصان کا باعث بن رہی ہے ' پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کو مدنظررکھ کر داخلی 'معاشی اور نظریاتی بیانیے میں تبدیلیاں ضروری ہو چکی ہیں'دہشت گردی نے جو شکل اختیار کر لی ہے' اسے اب سرد جنگ کے تناظر میں نہیں دیکھاجا سکتا اور نہ ہی اس بیانیے کی حمایت کی جا سکتی ہے۔

آج پاکستان میں جو دہشت گردی ہورہی ہے' اسے پرانے زمانے کے پنڈاریوں کی غارت گری قرار دیا جا سکتا ہے۔اس دہشت گردی کی بنیاد کسی نظریے پر قائم نہیں ہے،اس لیے پاکستان کے اداروں کو اس ناسور کا خاتمے کرنے کے لیے کسی قسم کی کمزوری نہیں دکھانی چاہیے۔گزشتہ روز خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں ٹکواڑہ پولیس چوکی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔

تفصیلات کے مطابق چوکی پر20 کے قریب دہشت گردوں نے علی الصبح 3 اطراف سے حملہ کیا، راکٹ لانچر ، دستی بموں اوردیگر جدید ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا،میڈیا کے مطابق دو سے ڈھائی گھنٹے تک حملہ جاری رہا۔ پولیس نے بہادری کا مظاہرہ کیا اور دہشتگردوں سے لڑتے رہے۔


ڈی پی او نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پولیس نے اپنی عزت و وقار کے لیے لڑنے کے لیے بے مثال ہمت اور عزم کا مظاہرہ کیا اور ٹکواڑہ چیک پوسٹ پر یہ حملہ ڈیرہ کی تاریخ میں دہشتگردوں کی جانب سے سب سے بڑا اور منظم حملہ تھا۔دہشت گرد پولیس بلڈنگ پر قبضہ کرکے بڑی تباہی مچانا چاہتے تھے مگر ہم نے ان کے عزائم ناکام بنا دیے۔ انھوں نے کہا کہ کلاچی سمیت پورے ضلع کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے اور پولیس کسی صورت دہشت گردوں کے عزائم کامیاب نھی ھونے دے گی۔

ادھراسلام آباد میں پولیس حکام کوقانون نافذ کرنیوالے اداروں کی طرف سے ممکنہ دہشت گردی کے خدشہ کی رپورٹس ملنے پرسیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی 'ممکنہ خودکش بمبار کی تصویر بھی جاری کردی گئی ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انٹیلی جنس ذرایع سے اطلاع ملی کہ ممکنہ دہشت گرد ذاکر خان ولد لائق جس کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے، دہشت گردی کے لیے اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کرسکتا ہے۔

وفاقی پولیس ذرایع کے مطابق ممکنہ طورپر اسلام آباد کوایک مرتبہ پھردہشت گردی کانشانہ بنائے جانے کی جمعہ کواسلام آباد پولیس حکام کورپورٹ ملنے پر وفاقی پولیس حکام نے فْول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے ہیں جس میں سیف سٹی کیمروں والی پٹرولنگ گاڑیوں کے گشت کے نظام کو مذید فعال اورموثربنادیاگیاہے جب کہ شہر کے اہم داخلی راستوں پرپولیس ناکے لگادیے گئے ہیں۔

پولیس ذرایع نے ایکسپریس کومزید بتایاکہ ایک جانب ممکنہ دہشت گردعناصر کے مذموم عزائم کی رپورٹس ہیں تو دوسری جانب نئے سال کی آمد آمد ہے جس میں منچلوں کی وجہ سے مرکزی شاہراوں پرٹریفک کاغیرمعمولی ہجوم ہوتاہے جس کی سیکیورٹی کو یقیننی بنانا بھی وفاقی پولیس حکام کے لیے چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے ابہام پیدا کیا جاتا رہا ہے' طالبان کی ساخت'نظریات اور حکمت عملی کے حوالے سے بھی پاکستان میں ابہام پیدا کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ' دنیا میں شاید ہی کوئی اور ملک ایسا ہو گا جہاں ایسے بیانیے کو پروان چڑھایا گیا جو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو گلوری فائی کرنے کا باعث بنے۔

پاکستان کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی قیادت نے بھی اس ابہام کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس ابہام کو مزید گہرا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ آج بھی سیاسی جماعتوں میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے یکسوئی نہیں ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں نے کوئی ایسا بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کی جس سے ان کے کارکنوں میںانتہا پسندی اور دہشت گردی سے لڑنے کی ہمت پیدا ہو۔اسی طرح ملک کی مذہبی سیاسی قیادت نے بھی دہشت گردی کے حوالے سے موثر کردار ادا نہیں کیا۔

افغانستان میں جو کچھ ہوتا رہا اور جو کچھ ہو رہا ہے' اس پر افغانستان سے زیادہ پاکستان میں بحث ہوتی ہے ۔ پاکستان کے اندر ایک ایسی بااثر لابی بھی ہے جو افغانستان کے ساتھ نسلی اور ثقافتی رومانس میں مبتلا ہے'اس لابی نے اپنے اثرورسوخ کی بنیاد پر افغانستان کے ایشو پر پاکستان کی پالیسی میں کمزوریاں پیدا کیں 'پاکستان کے اسٹرٹیجک ریسرچ کی بنیاد بھی روایت پرستی پر کھڑی کی گئی۔

افغانستان کی تاریخ' اس ملک کے سماجی ڈھانچے 'ریاستی سسٹم 'نسلی اور سیاسی طبقات کے حوالے سے ریسرچ اور نتائج میں خامیاں موجود رہی ہیں اور انھیں دور کرنے کی ابھی تک کوشش نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح شمال مغربی پاکستان میں ثقافتی اور قومی اکائیوں کا جائزہ بھی روایات کی بنیاد پر لیا جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی قائم ہے۔

جغرافیائی حقائق کو نظرانداز کر کے پالیسیاں تشکیل دی گئیں 'جن خیالات و نظریات اور مفروضوں کی بنیاد پر شمال مغرب میں تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی گئی 'وہ غیرحقیقی ہونے کی بنیاد پر ناکام ثابت ہوئے ' اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔

پاکستان کے فیصلہ سازوں ' دانشوروں اور اہل علم کو آج کی حقیقت کو سامنے رکھ کر اپنے نظریات اور مفادات کی تشکیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے عوام چاہے وہ شمال مغرب میں رہ رہے ہوں 'مشرق میں رہ رہے ہوں یا جنوب مغرب میں 'سب کے مفادات کے تحفظ کے لیے جامع پالیسی کی ضرورت ہے۔ ماضی کے رومانس حقیقت کی دنیا میں کوئی ویلیو نہیں رکھتے۔

افغانستان کے مفادات کچھ اور ہیں 'ایران کے مفادات کچھ اور ہیں 'ترکی کے مفادات کچھ اور ہیں۔ ان کے مفادات اور ان کی ثقافت 'ان کے نسلی گروہوں کی شناخت اور اسٹڈی تو اہم ہوتی ہے لیکن پاکستان ان جیسا نہیں ہے اور نہ ہی ویسا بن سکتا ہے۔پاکستان کے پالیسی سازوں کو اپنے شہریوں اور اپنی ریاست کے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story