جیل میں بھٹو کا کوڈ زیبرا تھا سابق ایس ایچ او کا انکشاف
بھٹو کو بھی یقین تھا کہ انھیں مار دیا جائے گا، بینظیرکو سیلوٹ کرنے پر جواب طلب کیا گیا
ذوالفقار بھٹو کو مارنے کا فیصلہ پہلے ہو چکا تھا، ایجنسیوں کے کوڈ ورڈز سے معلوم ہوگیا تھا کہ پھانسی کا فیصلہ آئے گا۔
جیل میں زیادہ تر ایجنسیوں کے لوگ مقیم تھے، ذوالفقارعلی بھٹو کو بھی یقین تھا کہ انھیں مار دیا جائیگا، بینظیر بھٹو کو سیلوٹ کرنے پر جواب طلب کرلیا گیا، یہ انکشافات سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ کے رہائشی،1977 میں لاہور کے تھانہ کاہنہ میں بطور ایس ایچ او تعینات اور تمام معاملات کے چشم دید گواہ نسیم ڈار نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیے۔ 80 سالہ نسیم ڈار نے پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ذوالفقاربھٹو کو ایجنسیوں کی جانب سے زیبرا کے کوڈ نام سے مخاطب کیا جاتا تھا، اس وقت کے مجسٹریٹ غلام مصطفیٰ تبسم نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ کیس کا فیصلہ کیسا آئے گا تو میں نے جواب دیا کہ بھٹو صاحب کو سزا ہوجائیگی۔ نسیم ڈار نے بتایا کہ میں نے ایک مرتبہ بھٹو صاحب کو بتایا کہ آپ کی جانب سے سپریم کورٹ میں رحم کی اپیل کی گئی ہے ۔
جس پر انھوں نے جواب دیا کہ میں نے تو کوئی اپیل نہیں کی، میں نے بتایا کہ دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان نے آپ کی رہائی کیلیے اپیلیں دائر کی ہیں جس پر بھٹو صاحب نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے''یہ مجھے مار دیں گے، یہ مجھے مار دیں گے، یہ مجھے مار دیں گے'' نسیم ڈار نے بتایا کہ بیگم نصرت بھٹوگلبرگ میں سینیٹر گلزار خان کی کوٹھی پر مقیم تھیں جو ٹفن میں بھٹو صاحب کیلیے کھانا لیکر آتیں، اس ٹفن میں بھٹو صاحب کے نوٹس چھپا کر لے جائے جاتے جن کو بعد میں کتابی صورت ''اگر مجھے قتل کر دیاگیا''کے نام سے شائع ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ جیل میں مقیم لوگ ایجنسیوں کے تھے جو تمام حالات کی خبر دیتے، ان کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ میں نے بینظیر بھٹو کو سیلوٹ کیا تو اس وقت کے سب مارشل لاایڈمنسٹر نے سخت جواب طلبی کی۔
جیل میں زیادہ تر ایجنسیوں کے لوگ مقیم تھے، ذوالفقارعلی بھٹو کو بھی یقین تھا کہ انھیں مار دیا جائیگا، بینظیر بھٹو کو سیلوٹ کرنے پر جواب طلب کرلیا گیا، یہ انکشافات سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ کے رہائشی،1977 میں لاہور کے تھانہ کاہنہ میں بطور ایس ایچ او تعینات اور تمام معاملات کے چشم دید گواہ نسیم ڈار نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیے۔ 80 سالہ نسیم ڈار نے پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ذوالفقاربھٹو کو ایجنسیوں کی جانب سے زیبرا کے کوڈ نام سے مخاطب کیا جاتا تھا، اس وقت کے مجسٹریٹ غلام مصطفیٰ تبسم نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ کیس کا فیصلہ کیسا آئے گا تو میں نے جواب دیا کہ بھٹو صاحب کو سزا ہوجائیگی۔ نسیم ڈار نے بتایا کہ میں نے ایک مرتبہ بھٹو صاحب کو بتایا کہ آپ کی جانب سے سپریم کورٹ میں رحم کی اپیل کی گئی ہے ۔
جس پر انھوں نے جواب دیا کہ میں نے تو کوئی اپیل نہیں کی، میں نے بتایا کہ دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان نے آپ کی رہائی کیلیے اپیلیں دائر کی ہیں جس پر بھٹو صاحب نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے''یہ مجھے مار دیں گے، یہ مجھے مار دیں گے، یہ مجھے مار دیں گے'' نسیم ڈار نے بتایا کہ بیگم نصرت بھٹوگلبرگ میں سینیٹر گلزار خان کی کوٹھی پر مقیم تھیں جو ٹفن میں بھٹو صاحب کیلیے کھانا لیکر آتیں، اس ٹفن میں بھٹو صاحب کے نوٹس چھپا کر لے جائے جاتے جن کو بعد میں کتابی صورت ''اگر مجھے قتل کر دیاگیا''کے نام سے شائع ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ جیل میں مقیم لوگ ایجنسیوں کے تھے جو تمام حالات کی خبر دیتے، ان کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ میں نے بینظیر بھٹو کو سیلوٹ کیا تو اس وقت کے سب مارشل لاایڈمنسٹر نے سخت جواب طلبی کی۔