صفائی کا نظام
صفائی ستھرائی محض شہرکی خوبصورتی کا باعث ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ شہریوں کو مختلف بیماریوں سے بچانے میں بھی مدد کرتا ہے
دنیا بھر میں مقامی حکومتوں کے نظام کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ مقامی حکومتوں کے بغیر مسائل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ صاف ستھرے شہرایک مہذب معاشرے کا عکاس ہوتے ہیں۔
صفائی ستھرائی محض شہرکی خوبصورتی کا باعث ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ شہریوں کو مختلف بیماریوں سے بچانے میں بھی مدد کرتا ہے۔ ہمارے ہاں جہاں گورننس کے مسائل ہیں تو وہاں شہریوں میں سماجی شعور بھی نہیں ہے۔یہ معاملہ محض ہم حکومت پر ڈال کر شہریوں کو باہر نہیں نکال سکتے جہاں حکومتیں یا ان کے ادارے ذمے دار ہیں، وہیں لوگ بھی ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کا نہ تو شعور رکھتے ہیں او رنہ ہی انھیں اس کا ادرک ہوتا ہے۔
کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروںمیں بھی شہریوں میں سماجی شعور کا فقدان ہے۔ پچھلے دنوں مجھے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے سربراہ علی عنان قمر سے ملاقات کے دوران بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ انھوں نے بتایا کہ ہم نے آسٹریلیااور جنوبی امریکا کا ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کا بھی جائزہ لیا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر لاہور میںصفائی کے نظام میں اصلاحات کر رہے ہیں تاہم ابھی شہر میں صفائی کے حالات وہ نہیں جو ہم چاہتے ہیں لیکن چند ماہ میں آپ بنیادی تبدیلیاں دیکھیں گے۔
علی عنان نے میری اس بات سے اتفاق کیا کہ مقامی حکومتوں کا نظام کی موجودگی میں صفائی کے نظام کو اور زیادہ موثر بنایا جاسکتا ہے ۔ علی عنان کے بقول بنیادی بات محض کوڑا اٹھانے کی نہیں ہے بلکہ کوڑے کو ٹھکانے لگانے کی ہے، ہم پانچ ہزار ٹن کچرا روزانہ کی بنیاد پر اٹھارہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے لاہور میں دو سائٹس ہیں، یہاں کوڑا جمع کرنے کا نظام توہے تو مگر اسے ٹھکانے لگانے کی کوئی حکمت عملی موجود نہیں۔
ہم نے اس حوالے سے ایک جامع پالیسی ترتیب دی ۔ آگاہی مہم میں ہم نے تین رنگ متعارف کرائے ہیں ۔ سبز رنگ قدرتی کچرے)روٹی ، سالن ، چاول وغیرہ(کے لیے ، پیلا رنگ پلاسٹک اور گتہ وغیر ہ کے لیے جب کہ لال رنگ لوہے ، شیشے وغیر ہ کے لیے ۔ ہم نے ابتدائی طور پر ان علاقوں میں ماڈل یونٹ قائم کیے ہیں جہاں مقامی آبادی کا سماجی شعور قدرے بلند ہے ۔ان علاقوں میں تینوں رنگوں پر مشتمل ڈبے رکھوائے گئے ہیں اور گھروں میں تینوں رنگوں کے شاپرز بھی دیے جارہے ہیں تاکہ وہ مختلف اشیا مختلف لفافوں میں ڈالیں۔
اس ماڈل کی کامیابی کے بعد اسے شہر کے دیگر علاقوں تک پھیلایا جائے گا۔اس مہم کو ہم Reduce and Segregationکی بنیاد پر دے رہے ہیں ۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم اپنے کچرے کی وجہ سے اپنا ماحول اور زیر زمین صاف پانی کو زہریلا بنارہے ہیں ۔ ہم اپنے بچوں کو اس حوالے سے گائیڈ نہیں کررہے ا ور نہ ہی ہماری عادات تبدیل ہورہی ہیں ،کچرے کے ڈھیروں سے جو پانی رس رہا ہے وہ انتہائی غلیظ، کالا اور زہریلا ہے جو زیر زمین جاکر صاف پانی میں مل رہا ہے ۔
علی عنان کہتے ہیں کہ دنیا میں کچرے کو Waste to Energy کی شکل میں بھی استعمال ہوتاہے اور توانائی حاصل کی جاتی ہے ۔ ہم نے لاہور میں اس پر کام شروع کردیا ہے' ایک کمپنی سے معاہدہ کر لیاہے۔جو دو سے تین ہزار ٹن کچرے سے 60سے 70میگا واٹ بجلی پیدا کرسکتی ۔کچرے سے رسنے والے زہریلے پانی سے بنٹنے پر کام شروع ہے۔ بائیو گیس منصوبہ بھی سامنے آنے والا ہے۔
ہماری کوشش ہے کہ ہم لاہور میں ویکیوم سسٹم اور شجر کاری کی مدد سے شہروں کو صاف ستھرا رکھیں، اس عمل کو یقینی بنانے کے لیے نائٹ شفٹ گاڑیاں اور بائیک اسکواڈ بھی تشکیل دیے جارہے ہیں ۔اصل مسئلہ شہریوں کی تعلیم اور آگہی کا ہے ۔ اکیلی حکومت یا کوئی ادارہ سارا کام نہیں کرسکتا، شہریوں کو بھی شعور اور ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
صفائی ستھرائی محض شہرکی خوبصورتی کا باعث ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ شہریوں کو مختلف بیماریوں سے بچانے میں بھی مدد کرتا ہے۔ ہمارے ہاں جہاں گورننس کے مسائل ہیں تو وہاں شہریوں میں سماجی شعور بھی نہیں ہے۔یہ معاملہ محض ہم حکومت پر ڈال کر شہریوں کو باہر نہیں نکال سکتے جہاں حکومتیں یا ان کے ادارے ذمے دار ہیں، وہیں لوگ بھی ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کا نہ تو شعور رکھتے ہیں او رنہ ہی انھیں اس کا ادرک ہوتا ہے۔
کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروںمیں بھی شہریوں میں سماجی شعور کا فقدان ہے۔ پچھلے دنوں مجھے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے سربراہ علی عنان قمر سے ملاقات کے دوران بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ انھوں نے بتایا کہ ہم نے آسٹریلیااور جنوبی امریکا کا ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کا بھی جائزہ لیا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر لاہور میںصفائی کے نظام میں اصلاحات کر رہے ہیں تاہم ابھی شہر میں صفائی کے حالات وہ نہیں جو ہم چاہتے ہیں لیکن چند ماہ میں آپ بنیادی تبدیلیاں دیکھیں گے۔
علی عنان نے میری اس بات سے اتفاق کیا کہ مقامی حکومتوں کا نظام کی موجودگی میں صفائی کے نظام کو اور زیادہ موثر بنایا جاسکتا ہے ۔ علی عنان کے بقول بنیادی بات محض کوڑا اٹھانے کی نہیں ہے بلکہ کوڑے کو ٹھکانے لگانے کی ہے، ہم پانچ ہزار ٹن کچرا روزانہ کی بنیاد پر اٹھارہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے لاہور میں دو سائٹس ہیں، یہاں کوڑا جمع کرنے کا نظام توہے تو مگر اسے ٹھکانے لگانے کی کوئی حکمت عملی موجود نہیں۔
ہم نے اس حوالے سے ایک جامع پالیسی ترتیب دی ۔ آگاہی مہم میں ہم نے تین رنگ متعارف کرائے ہیں ۔ سبز رنگ قدرتی کچرے)روٹی ، سالن ، چاول وغیرہ(کے لیے ، پیلا رنگ پلاسٹک اور گتہ وغیر ہ کے لیے جب کہ لال رنگ لوہے ، شیشے وغیر ہ کے لیے ۔ ہم نے ابتدائی طور پر ان علاقوں میں ماڈل یونٹ قائم کیے ہیں جہاں مقامی آبادی کا سماجی شعور قدرے بلند ہے ۔ان علاقوں میں تینوں رنگوں پر مشتمل ڈبے رکھوائے گئے ہیں اور گھروں میں تینوں رنگوں کے شاپرز بھی دیے جارہے ہیں تاکہ وہ مختلف اشیا مختلف لفافوں میں ڈالیں۔
اس ماڈل کی کامیابی کے بعد اسے شہر کے دیگر علاقوں تک پھیلایا جائے گا۔اس مہم کو ہم Reduce and Segregationکی بنیاد پر دے رہے ہیں ۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم اپنے کچرے کی وجہ سے اپنا ماحول اور زیر زمین صاف پانی کو زہریلا بنارہے ہیں ۔ ہم اپنے بچوں کو اس حوالے سے گائیڈ نہیں کررہے ا ور نہ ہی ہماری عادات تبدیل ہورہی ہیں ،کچرے کے ڈھیروں سے جو پانی رس رہا ہے وہ انتہائی غلیظ، کالا اور زہریلا ہے جو زیر زمین جاکر صاف پانی میں مل رہا ہے ۔
علی عنان کہتے ہیں کہ دنیا میں کچرے کو Waste to Energy کی شکل میں بھی استعمال ہوتاہے اور توانائی حاصل کی جاتی ہے ۔ ہم نے لاہور میں اس پر کام شروع کردیا ہے' ایک کمپنی سے معاہدہ کر لیاہے۔جو دو سے تین ہزار ٹن کچرے سے 60سے 70میگا واٹ بجلی پیدا کرسکتی ۔کچرے سے رسنے والے زہریلے پانی سے بنٹنے پر کام شروع ہے۔ بائیو گیس منصوبہ بھی سامنے آنے والا ہے۔
ہماری کوشش ہے کہ ہم لاہور میں ویکیوم سسٹم اور شجر کاری کی مدد سے شہروں کو صاف ستھرا رکھیں، اس عمل کو یقینی بنانے کے لیے نائٹ شفٹ گاڑیاں اور بائیک اسکواڈ بھی تشکیل دیے جارہے ہیں ۔اصل مسئلہ شہریوں کی تعلیم اور آگہی کا ہے ۔ اکیلی حکومت یا کوئی ادارہ سارا کام نہیں کرسکتا، شہریوں کو بھی شعور اور ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔