لاہور ہائیکورٹ نے 78برس بعد اراضی تنازع کا فیصلہ سنا دیا
1944میں اسلم اورفضل نے لائل پور میں 219 کنال اراضی دھناسنگھ کو فروخت کی تھی
لاہور ہائیکورٹ نے اراضی کے 78برس پرانے تنازع کا فیصلہ سناتے ہوئے سول کورٹ کا1952میں دیا گیا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
1944میں اسلم اور فضل نے لائل پور میں 219کنال اراضی دھناسنگھ کو فروخت کی تھی، دھنا سنگھ آزادی کے بعد بھارت چلا گیا،خالد محمود نے 1951میں زمین فروخت کرنے پر اپنے والد فضل اور دھنا سنگھ کے خلاف دعوی کر دیا۔
سول عدالت نے دھنا سنگھ کے پیش نہ ہونے پر1952میں زمین کا فیصلہ خالد کے حق میں سنا دیا۔زمین بیچنے والے دوسرے شخص اسلم کے بیٹے نجیب نے 1962میں خالد کے نام زمین منسوخی کی درخواست دائر کی،نجیب کی درخواست 1963میں منظور ہونے پر خالد نے سیٹلمنٹ کمشنر کے روبرو اپیل کی لیکن سٹیلمنٹ کمشنر نے درخواست خارج کر دی۔
نجیب کے بچوں نے 2018میں سول عدالت کے 1952کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست دی۔ نجیب کے ورثا نے سنگل بنچ کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کی جس کی 2رکنی بنچ نے سماعت کی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا آزادی کے بعد پاکستان سے جانے والے غیر مسلموں کی زمین سینٹرل گورنمنٹ کی ملکیت تھی، خالد نے بدنیتی پر سول کورٹ کے دعوے میں سینٹرل گورنمنٹ کو فریق نہیں بنایا لہذا سول کورٹ کا 1952کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔علاوہ ازیں لاہور ہائیکورٹ نے 2022کے دوران لاکھوں مقدمات کے فیصلے کئے۔
عدالت عالیہ کی سالانہ کارکردگی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں ایک لاکھ 56 ہزار سے زائد مقدمات کے فیصلے کیے گئے جبکہ لاہور سمیت پنجاب بھر کی ماتحت عدالتوں میں ریکارڈ مقدمات نمٹائے گئے۔
1944میں اسلم اور فضل نے لائل پور میں 219کنال اراضی دھناسنگھ کو فروخت کی تھی، دھنا سنگھ آزادی کے بعد بھارت چلا گیا،خالد محمود نے 1951میں زمین فروخت کرنے پر اپنے والد فضل اور دھنا سنگھ کے خلاف دعوی کر دیا۔
سول عدالت نے دھنا سنگھ کے پیش نہ ہونے پر1952میں زمین کا فیصلہ خالد کے حق میں سنا دیا۔زمین بیچنے والے دوسرے شخص اسلم کے بیٹے نجیب نے 1962میں خالد کے نام زمین منسوخی کی درخواست دائر کی،نجیب کی درخواست 1963میں منظور ہونے پر خالد نے سیٹلمنٹ کمشنر کے روبرو اپیل کی لیکن سٹیلمنٹ کمشنر نے درخواست خارج کر دی۔
نجیب کے بچوں نے 2018میں سول عدالت کے 1952کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست دی۔ نجیب کے ورثا نے سنگل بنچ کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کی جس کی 2رکنی بنچ نے سماعت کی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا آزادی کے بعد پاکستان سے جانے والے غیر مسلموں کی زمین سینٹرل گورنمنٹ کی ملکیت تھی، خالد نے بدنیتی پر سول کورٹ کے دعوے میں سینٹرل گورنمنٹ کو فریق نہیں بنایا لہذا سول کورٹ کا 1952کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔علاوہ ازیں لاہور ہائیکورٹ نے 2022کے دوران لاکھوں مقدمات کے فیصلے کئے۔
عدالت عالیہ کی سالانہ کارکردگی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں ایک لاکھ 56 ہزار سے زائد مقدمات کے فیصلے کیے گئے جبکہ لاہور سمیت پنجاب بھر کی ماتحت عدالتوں میں ریکارڈ مقدمات نمٹائے گئے۔