معاشی ڈیفالٹ کا خطرہ بزنس فرینڈلی پالیسیاں بنانا ہوں گی

75 برسوں سے کھیلے جانے والے سیاسی کھیل سے بدترین نقصان ہوا، خداراسب بھلا کر میثاق معیشت کرنا ہوگا

ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : وسیم نیاز

ملک کو درپیش معاشی چیلنجز اور ان کا حل کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو مدعوکیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر مبشر منور خان

(پرنسپل ہیلے کالج آف بینکنگ اینڈ فنانس، پنجاب یونیورسٹی)

پاکستان کے معاشی مسائل دیرینہ ہیں۔ جس کی بڑی وجہ پالیسی میکرز اور سٹیک ہولڈرز کے درمیان مشاورت کا نہ ہونا ہے۔ بیوروکریسی پالیسی بناتی ہے جس کا نقطہ نظر کچھ اور ہوتا ہے۔

اس کی سوچ آج بھی نوآبادیاتی دور کی ہے۔ بیوروکریسی کی تربیت ہی ایسے ہوتی ہے کہ وہ سب سے اعلیٰ ہے اور باقی سب کمتر، ان کے نزدیک بزنس مین چور ہے۔ ہمارے ہاں نوجوانوں میں انٹرپرینیور شپ کا رجحان کم ہے، سرکاری نوکری اولین ترجیح ہے یا بھر بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی سرکاری افسر کسی بھی بزنس مین کو ذلیل کرسکتا ہے، اسے بے شمار اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں کاروبار دوست پالیسی کا فقدان رہا ہے۔ ہمارا سب کچھ امپورٹ بیسڈ ہوگیا ہے، جس کی بڑی وجہ حکومت کی کاروبار دشمن پالیسیاں، مہنگائی اور کاروباری لاگت کا زیادہ ہونا ہے۔

ہماری ساری مارکیٹس میں چینی مصنوعات کی بھرمار ہے، سب کچھ وہاں سے با آسانی آجاتا ہے جو سستا بھی ہے۔ دنیا کے جتنے بھی ممالک نے ترقی کی انکی بڑی وجہ انڈسٹریلائزیشن ہے، خود چین نے بھی اس پر خصوصی توجہ دی ہے، بڑی طاقتوں کی معیشت بھی انڈسٹریلائزیشن کی وجہ سے مستحکم ہے۔

افغانستان سے ہمارے ہاں ہر چیز کی سمگلنگ ہوئی، ہم ایسے معاملات میں الجھے رہے جبکہ بھارت نے اپنی انڈسٹری پر توجہ دی اور آج وہ مختلف شعبوں میں ہم سے بہت آگے ہے۔ معیشت اور انڈسٹری کو درپیش موجودہ چیلنجز کے پیش نظر ہمیں انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے مگر اس کیلئے حکومتی ول چاہیے۔

حکومت وہی بہترین ہوتی ہے جو کم سے کم حکومت ہو مگر ہمارے ہاں ہر چیز میں حکومت کی مداخلت بہت زیادہ ہے۔ بے شمار ایسے ادارے ہیں جو ملکی معیشت پر بوجھ ہیں۔ حکومت کی جانب سے نجکاری کمیشن بنایا گیا مگر اس میں پھر بیوروکریسی کو ہی لایا گیا۔

دنیا میں جہاں بھی مسائل ہوتے ہیں وہاں اکیڈیمیا اور انڈسٹری کے ماہرین سے مشاورت کی جاتی ہے، ان کی خدمات لی جاتی ہیں مگر ہمارے ہاں سب الٹ ہے۔ ایچ ای سی نے بیرون ممالک سے سکالرز کو پی ایچ ڈی کروائی۔ بدقسمتی سے اس وقت ملک میں 4 ہزار پی ایچ ڈی بے روزگار ہیں۔

حکومت فارن کنسلٹنٹس کی سروسز لیتی ہے حالانکہ ہمارے ماہرین ان سے کہیں بہتر ہیں اور انہیں مقامی معاملات کا بخوبی ادراک بھی ہے۔ جامعہ پنجاب کے پاس ماہرین کا بڑا اور موثر پول ہے، حکومت کو چاہیے کہ بیرونی کنسلٹنٹ کے بجائے اپنے ماہرین اور ریسرچرز سے استفادہ کرے۔ ملکی معاشی مسائل کے پیش نظر بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ بھی انتہائی ضروری ہے۔

اس وقت ضرورت یہ ہے کہ بزنس مین کو پریشر سے نکالا جائے، کاروبار دوست پالیسیاں بنائیں، کم از کم 10 سالہ پالیسی بنا کر معیشت کودرست سمت دی جائے، اس میں سیاسی قوتوں، بزنس کمیونٹی سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے۔

نجکاری کمیشن کو ملک پر بوجھ انڈسٹری، محکموں اور بنجر زمین کا تخمینہ لگوا کر متحرک ہونا ہوگا۔ سرکلر ڈیٹ، فارن ڈیبٹ و دیگر قرضوں کی واپسی کے حوالے سے ان سے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

بنجر زمینوں پر بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کیا جاسکتا ہے،ا نہیں خصوصی مراعات دیکر ملک میں سرمایہ کاری لائی جائے۔میرے نزدیک پاکستان کے مسائل کا حل بیرونی قرضوں میں نہیں بیرونی سرمایہ کاری میں ہے، ملک میں پوٹیشنل موجود ہے، جامع حکمت عملی بناکر کام کرنا ہوگا۔

محمد ندیم قریشی

(ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی )

ایف پی سی سی آئی بزنس کمیونٹی کی 'اپیکس باڈی' ہے جس کے ساتھ 60 چیمبرز، 24 ویمن چیمبرز، 12 سمال چیمبرز اور 145 ٹریڈ باڈیز منسلک ہیں مگر حکومت کی جانب سے ہمارے ساتھ کوئی مشاورت نہیں کی جاتی۔ بدقسمتی سے وزیر خزانہ اور حکومت کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے۔

ان کی پالیسی میں کچھ واضح نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر حکومت کی جانب سے ایسے بیانات دیے جارہے ہیں جو مزید کنفیوژن پھیلا رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی کوئی معاشی پالیسی نہیں ہے۔


حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر ملک میں معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں ہوسکتا، مشکل حالات میں تمام سٹیک ہولڈرز کو بلا کر جامع حکمت عملی بنائی جائے۔

حکومت کی جانب سے بینکوں سے LC کھولنے کی بات کی جارہی ہے، اس میں بھی چیزیں واضح نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ LC سب کے لیے نہیں کھولی گئی بلکہ مخصوص شعبوں، معمولی کاروبار کیلئے LCکھولی جا رہی ہے جس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔

بھارت کی آئی ٹی ایکسپورٹ 250 بلین سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ ہماری اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں۔ ہماری آئی ٹی انڈسٹری گزشتہ کچھ برسوںسے بہتر ہورہی تھی، اس کو فروغ مل رہا تھا اور اب امپورٹ ہی بند کر دی گئی، حالت یہ ہے کہ باہر سے کمپیوٹر بھی نہیں آرہے تو ایسی صورتحال میں کام کیسے ہوگا۔

حکومت ڈیجیٹلائزیشن کی بات کرتی ہے، اس حوالے سے درکار سامان پر پابندی ہے لہٰذا کس طرح دنیا کے ساتھ جدت کا مقابلہ کیا جائے گا ۔ بدقسمتی سے ہمارے ذخائر 6 ارب ڈالررہ گئے ہیں، انہیں استعمال نہیں کیا جاسکتا، آئی ایم ایف کی جانب سے بھی سخت شرائط سامنے آرہی ہیں، حکومت کی جانب سے شرح سود 16 فیصد کر دی گئی ہے جو 20 فیصد تک رفلیکٹ کرتی ہے۔

اس ریٹ پر کسی بھی انڈسٹری یا ٹریڈ کو چلانا مشکل ہوجائے گا۔یہ باعث افسوس ہے کہ انڈسٹری اور ٹریڈ ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے، ہمارا شعبہ صنعت سکڑ رہا ہے جو تشویشناک ہے۔ اس وقت حکومت کے پاس کوئی لانگ یا شارٹ ٹرم پالیسی نہیں ہے۔

معیشت کو ٹریک پر لانے کیلئے کوئی روڈ میپ بھی نہیں لہٰذا ایسی صورتحال میں حکومت کیسے یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ ہمارے سیاستدان تو بس سیاست میں مصروف ہیں۔ 75 برسوں میں بہت سیاست کھیل لی، خدارا! اب اس سے باہر نکلیں، معیشت ڈیفالٹ کے قریب ہے۔

لہٰذا اب ملکی مفاد کی خاطر میثاق معیشت کریں۔ ہم بھنور میں پھنس چکے ہیں جس سے نکلنے کیلئے ہنگامی اقدامات درکار ہیں۔ دو برس کیلئے سیاستدان سب بھول جائیں اورتمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے اقدامات کریں۔

حکومتی پابندیوں کی وجہ سے انڈسٹریز کا مال بندرگاہ پرپڑا ہے، سامان بیرونی شپنگ کمپنیوں کے ذریعے آتا ہے، ڈیٹینشن چارجز کی مد میں 3 ملین ڈالر سے زائد روزانہ ان کمپنیوں کو ادا کرنے ہیں، یہ ڈالر کون دے گا؟ اس کا بوجھ ہماری انڈسٹری پر پڑے گا اور پھر عوام کو منتقل ہوجائے گا۔بدقسمتی سے ہم نے گزشتہ 75 برسوں میں زراعت کو تباہ کر دیا۔

پہلے کاٹن 15 ملین بیل تھی اور وزن 175 کلوگرام تھا جو اب کم ہو کر 150 کلو گرام رہ گیا ہے جبکہ کاٹن 7 ملین بیل پر آگئی ہے جو افسوسناک ہے، اگر صرف کاٹن کو 20 ملین پر لے جاتے تو ہمیں بیرونی قرضوں کی ضرورت نہ پڑتی۔ اسی طرح آئل سیڈ اور گندم میں اضافہ کرنے سے بھی ملکی معیشت کو فائدہ ہوگا۔ ہم نے ریئل اسٹیٹ کو فروغ دیا، ٹیکس چھوٹ دی، ایمنسٹی دی، ہر طرح کی سہولیات دیں، اس سے زراعت کے شعبے کو نقصان پہنچا، زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سکیمیں بن گئی۔

زراعت ہمارے لیے بہت اہم ہے، اس شعبے میں اتنا پوٹینشل موجود ہے کہ بیرونی مددکے بغیر ملک کو 2 برسوں میں معاشی بحران سے نکالا جاسکتا ہے، تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر زراعت کو فروغ دینا ہوگا۔ ملک ابھی معاشی طور پر ڈیفالٹ نہیں ہوا، خوف اور عدم اعتماد کی فضاء سے لوگوں میں تشویش بڑھ رہی ہے، مجھے اللہ پر یقین ہے، اگر آج ہی سب مل کر درست سمت میں کام کریں تو ملک میں معاشی استحکام لایا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر محمد ارشد

(سابق ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)

ملکی معیشت بدترین مندی کا شکار ہے جس کی وجہ حقیقت پسندانہ پالیسیوں کا نہ ہونا ہے۔ میں نے بارہا یہ تجویز دی ہے کہ ڈالر کو 245کے قریب برقرار رکھا جائے، اس میں سٹیٹ بینک اور حکومت کی وِل نظر آئے، لوگوں کو اعتماد حاصل ہو تو مارکیٹ میں خودبخود توازن قائم ہوجائے گا۔

امپورٹ، ایکسپورٹ کا فرق کم ہوگا اور تجارتی خسارے بھی ختم ہوجائے گا۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ زیادہ مل رہاہے جس کی وجہ سے لوگ بینکوں کے بجائے ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیج رہے ہیں، اگر زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے پالیسی بنائی جائے اور ڈالر کو 245 پر برقرار رکھا جائے تو ریمٹنس میں بھی اضافہ ہوگا اور ملکی معیشت کو استحکام ملے گا۔

وزیراعظم اور وزراء کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کی طرف سے ہمیں جو گارنٹی دی گئی تھی وہ نہیں ملی۔ دوست ممالک کی طرف سے بھی امداد یا سرمایہ کاری کا نہ ملنا کچھ اور اشارے دے رہا ہے۔

سیلاب کے نقصان کے ازالے میں بھی دنیا سے ہمارا حصہ نہیں ملا حالانکہ عالمی سطح پر یہ تسلیم کیا گیا کہ ماحولیاتی تبدیلی میں پاکستان کاحصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اس کی توثیق کی، دنیا پر زور دیا کہ پاکستان کے نقصان کا ازالہ کرے، عالمی سطح پر پاکستان کے موقف کو تسلیم کیا گیا مگر تاحال فنڈز نہیں ملے۔

میرے نزدیک اس میں ہمارا اپنا قصور زیادہ ہے،سیاست کی خاطر ایک دوسرے پر الزام تراشی سے عالمی سطح پر ملک کی بدنامی ہوئی۔ ایسا بھی سننے میں آرہا ہے کہ امداد رکوانے کیلئے جان بوجھ کر بے ضابطگیاں دنیا تک پہنچائی گئی اور ملک کا نقصان کیا گیا۔ سیاسی لڑائی سیاسی میدان میں لڑی جاتی ہے۔

یہ ذاتی لڑائی نہیں ہوتی ، ہمارے سیاستدانوں کو سمجھنا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہم نے شعبہ زراعت کو نظر انداز کردیا، یہ شعبہ ہماری ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ہمارے زرعی شعبے میں بہت پوٹینشل موجود ہے، اس پر توجہ دینے سے معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اس سال آئل سیڈ ڈیڑھ سے 2 ٹن ہوئے ہیں جوبک چکے ہیں۔

آئندہ فصل اس سے زیادہ ہوگی، تقریباََ 3 ٹن تک ہوسکتی ہے، اگر حکومت نے اس کی ایکسپورٹ کیلئے کمپنیوں کی رجسٹریشن نہ کروائی تو یہ سیڈ ایکسپورٹ نہیں ہوسکے گا اور بہت بھاری نقصان ہوگا۔ دنیا میں صرف سویابین کی مارکیٹ 900 ملین ٹن کے قریب ہے، اگر ہم صرف آئل سیڈ پر ہی فوکس کرلیں تو عالمی مارکیٹ میں بڑا حصہ لے سکتے ہیں۔
Load Next Story