نجم سیٹھی بمقابلہ رمیز راجہ
نجم سیٹھی کے دور میں پاکستان ٹی ٹونٹی کی بھی نمبر ون ٹیم تھی۔ جب کہ رمیز راجہ کے دور میں ہم نمبر تین پر آگئے
نجم سیٹھی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی کمان دے دی گئی ہے جب کہ رمیز راجہ کو ہٹا دیا گیاہے اور وہ آجکل ایسا تاثر دے رہے ہیں کہ جیسے ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔
وہ مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں ایسا منظر نامہ پیش کر رہے ہیں جیسے انھیں عہدے سے ہٹائے جانے کا علم ہی نہیں تھا۔ حالانکہ سب کو علم تھا کہ انھیں ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا ہے، صرف برطانیہ کے ساتھ کرکٹ سیریز کے ختم ہونے کا انتظار کیا جا رہا تھا۔
جب پی سی بی کے اندر سب کو پتہ تھا' اسپورٹس جرنلسٹ جانتے تھے' کرکٹ لورز کو علم تھا لیکن رمیز راجہ کو علم نہیں تھا،یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے لہٰذا ان کا یہ موقف درست نظر نہیں آتا کہ انھیں سامان تک اٹھانے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔حقیقت تو یہی ہے کہ انھیں عہدے سے ہٹائے جانے کے حوالے سے حقائق بالکل واضح تھے' میں نے خود چھ دسمبر کو ٹوئٹ کیا تھا کہ رمیز راجہ کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔
20دسمبر کو جب انگلینڈ کے ساتھ سیریز ختم ہوئی اور پاکستان وائٹ واش ہو گیا تو میں نے پھر ٹوئٹ کیا کہ اب رمیز راجہ بھی وائٹ واش ہو گئے ہیں۔ پھر22دسمبر کو نجم سیٹھی کو چیئرمین بنانے کا اعلان ہو گیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سب کو علم تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔
لہٰذا یہ ماننا مشکل ہے کہ رمیز راجہ کواس کا علم نہیں تھا۔ ان کی تقرری بھی دوسروں کی طرح سیاسی بنیادوں پر ہی ہوئی تھی۔ وہ عمران خان کے بہت بڑے سیاسی سپورٹر تھے۔
عمران خان کے حق میں سیاسی ٹوئٹ بھی کرتے تھے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انھیں کسی میرٹ کے تحت پی سی بی کا چیئرمین بنایا گیا حالانکہ جاوید میاں داد 'وسیم اکرم اور راشد لطیف جیسے لیجنڈ کرکٹر بھی موجود تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ رمیز راجہ' عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد بھی عہدے پر موجود رہے اور کہا جارہا ہے کہ انھوں نے شہباز شریف سے بھی روابط بڑھانے کی کوشش کی۔
سنا ہے کہ کوئی تگڑی سفارش بھی ڈھونڈ لی گئی تھی جس کی وجہ سے وہ عمران خان کے ہٹنے کے بعداپنے عہدے پر برقرار رہے لیکن نومبر میںیہ سفارش بھی ختم ہو گئی۔یہ بات سچ ہو سکتی ہے کہ انھیںجس جلدی میں یہ سب کچھ ہوا اس کا اندازہ نہ ہو سکا ہو' وہ تو سمجھ رہے تھے کہ سفارش بھی رہے گی اور وہ بھی رہیں گے۔
ویسے راجہ صاحب کو کئی سابق کرکٹر نے مشورہ دیا تھا کہ عمران کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے کے بعد انھیں بھی عہدہ چھوڑ دینا چاہیے لیکن وہ ایسا نہ کر سکے ۔
نجم سیٹھی نے عمران خان کے وزیراعظم بننے کے اگلے دن پی سی بی کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ان کے اور تحریک انصاف کے درمیان مخالفت کوئی نئی نہیں ہے۔ وہ عرصے سے عمران خان کے سیاسی نظریات اور پھر ان کی طرز حکومت کے مخالف رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے اور عمران خان کے درمیان مقدمہ بازی بھی چل رہی ہے۔ وہ عمران خان کے دور میں آف ائیر بھی رہے۔
میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ کیا کسی میڈیا کے نمایندے کو سیاسی عہدہ لینا چاہیے کہ نہیں۔ کیونکہ نہ اس حوالے سے نجم سیٹھی کوئی پہلے میڈیا پرسن ہیں اور نہ ہی کوئی آخری ہیں۔ کئی میڈیا پرسن ماضی میں بھی حکومتی عہدے لیتے رہے ہیں اور اب بھی لے رہے ہیں۔
اس ضمن میں صحافیوں کی تنظیموں کو اپنے اندر کوئی مضبوط کوڈ آف کنڈکٹ بنانا چاہیے۔ جہاں آنے اور جانے کا کوئی ڈسپلن ہو۔ وکیل کا لائسنس ہے۔ ڈاکٹر کا اور انجینئر کا لائسنس ہے۔ لیکن صحافی ہونے کا کوئی لائسنس نہیں ہے۔ جس کا جب دل چاہے صحافی بن سکتا ہے اور جب چاہے صحافت چھوڑ سکتا ہے۔
نجم سیٹھی کوئی پہلی دفعہ پی سی بی کے سربراہ نہیں بنے۔ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دور میں بھی اس عہدہ پر کام کر چکے ہیں۔ ان کے دوبارہ چیئرمین بننے کے بعد تحریک انصاف کے ٹرولرز نے ان کے خلاف ایک مہم شروع کر دی۔ رمیز راجہ نے بھی شاید اس مہم کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ رمیز راجہ اب عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے قابل قبول نہیں رہے ہیں۔
لہٰذا تحریک انصاف کی جانب سے نجم سیٹھی کی مخالفت انھیں مدد کر رہی ہے اور انھیں ہمدردی کے ووٹ مل رہے ہیںلیکن ایسی رپورٹس بھی آئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ رمیز راجہ نے بھی مراعات لینے میں کفایت شعاری نہیں کی تا ہم جب جواب شکوہ آیا تو سب حیران رہ گئے۔
بہر حال میرے نزدیک رمیز راجہ اور نجم سیٹھی کے درمیان اگر کوئی موازنہ ہو سکتا ہے تو کرکٹ کے تناظر میں ہونا چاہیے، کس کے دور میں پاکستان کی کرکٹ کو کیا کامیابی ملی ہے۔ کرکٹ کے فروغ کے لیے کیا کیا گیا ہے۔ ٹیم کی کارکردگی ہی سے سب سے پہلا موازنہ ہونا چاہیے۔
نجم سیٹھی کے گزشتہ دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر ون تھی جب کہ رمیز راجہ دور میں ہماری ٹیسٹ رینکنگ چھٹے نمبر پر تھی۔ رمیز راجہ سے قبل احسان مانی سربراہ تھے ان کے دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی ٹیسٹ رینکنگ پانچویں نمبر پر تھی۔ راجہ صاحب پانچویں سے چھٹے پر لے گئے۔
نجم سیٹھی کے دور میں پاکستان ٹی ٹونٹی کی بھی نمبر ون ٹیم تھی۔ جب کہ رمیز راجہ کے دور میں ہم نمبر تین پر آگئے، جب کہ احسان مانی کے دور میں نمبر چار پر تھے۔
جب کہ ون ڈے کی رینکنگ تینوں کی برابر ہے۔ تینوں کے دور میں ٹیم پانچوں نمبر پر تھی۔ تا ہم رمیز راجہ کے دور میں انگلینڈ سے ہوم سیریز میں وائٹ واش افسوسناک تھا۔ پاکستان کی گراونڈ پچز کے ساتھ جو تجربات کیے گئے ہیں' وہ بھی سامنے ہیں۔ راولپنڈی کو وارننگ مل چکی ہے اور دنیا مردہ پچز پر ہمارا مذاق بنا رہی ہے۔
نجم سیٹھی سے پی ایس ایل شروع کرنے کا کریڈٹ کوئی نہیں چھین سکتا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں کرکٹ کے دروازے بند تھے۔ آئی پی ایل میں پاکستانی کرکٹرز پر پابندی لگ چکی تھی اور پاکستان کے لیے اپنی لیگ ناگزیر تھی۔ آج پی ایس ایل ایک تن آور درخت بن چکا ہے۔
نجم سیٹھی کے دور میں پی ایس ایل منافع بخش تھا، پھر خسارہ بھی سامنے آیا' بہر حال پی ایس ایل جاری رہا۔ یہ اچھی بات ہے۔ شکر ہے ورنہ کیا پتہ تھا کہ ان کی نفرت میں پی ایس ایل بھی ختم کر دیا جاتا۔ نجم سیٹھی نے کرکٹرز کو تین تین سال کے کنٹریکٹ دینا شروع کیے۔ جو بعد میں ختم کیا گیا۔ نئی کرکٹ پالیسی سے بہت سے ڈومیسٹک کرکٹرز بے روزگار بھی ہوئے۔
وہ مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں ایسا منظر نامہ پیش کر رہے ہیں جیسے انھیں عہدے سے ہٹائے جانے کا علم ہی نہیں تھا۔ حالانکہ سب کو علم تھا کہ انھیں ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا ہے، صرف برطانیہ کے ساتھ کرکٹ سیریز کے ختم ہونے کا انتظار کیا جا رہا تھا۔
جب پی سی بی کے اندر سب کو پتہ تھا' اسپورٹس جرنلسٹ جانتے تھے' کرکٹ لورز کو علم تھا لیکن رمیز راجہ کو علم نہیں تھا،یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے لہٰذا ان کا یہ موقف درست نظر نہیں آتا کہ انھیں سامان تک اٹھانے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔حقیقت تو یہی ہے کہ انھیں عہدے سے ہٹائے جانے کے حوالے سے حقائق بالکل واضح تھے' میں نے خود چھ دسمبر کو ٹوئٹ کیا تھا کہ رمیز راجہ کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔
20دسمبر کو جب انگلینڈ کے ساتھ سیریز ختم ہوئی اور پاکستان وائٹ واش ہو گیا تو میں نے پھر ٹوئٹ کیا کہ اب رمیز راجہ بھی وائٹ واش ہو گئے ہیں۔ پھر22دسمبر کو نجم سیٹھی کو چیئرمین بنانے کا اعلان ہو گیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سب کو علم تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔
لہٰذا یہ ماننا مشکل ہے کہ رمیز راجہ کواس کا علم نہیں تھا۔ ان کی تقرری بھی دوسروں کی طرح سیاسی بنیادوں پر ہی ہوئی تھی۔ وہ عمران خان کے بہت بڑے سیاسی سپورٹر تھے۔
عمران خان کے حق میں سیاسی ٹوئٹ بھی کرتے تھے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انھیں کسی میرٹ کے تحت پی سی بی کا چیئرمین بنایا گیا حالانکہ جاوید میاں داد 'وسیم اکرم اور راشد لطیف جیسے لیجنڈ کرکٹر بھی موجود تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ رمیز راجہ' عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد بھی عہدے پر موجود رہے اور کہا جارہا ہے کہ انھوں نے شہباز شریف سے بھی روابط بڑھانے کی کوشش کی۔
سنا ہے کہ کوئی تگڑی سفارش بھی ڈھونڈ لی گئی تھی جس کی وجہ سے وہ عمران خان کے ہٹنے کے بعداپنے عہدے پر برقرار رہے لیکن نومبر میںیہ سفارش بھی ختم ہو گئی۔یہ بات سچ ہو سکتی ہے کہ انھیںجس جلدی میں یہ سب کچھ ہوا اس کا اندازہ نہ ہو سکا ہو' وہ تو سمجھ رہے تھے کہ سفارش بھی رہے گی اور وہ بھی رہیں گے۔
ویسے راجہ صاحب کو کئی سابق کرکٹر نے مشورہ دیا تھا کہ عمران کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے کے بعد انھیں بھی عہدہ چھوڑ دینا چاہیے لیکن وہ ایسا نہ کر سکے ۔
نجم سیٹھی نے عمران خان کے وزیراعظم بننے کے اگلے دن پی سی بی کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ان کے اور تحریک انصاف کے درمیان مخالفت کوئی نئی نہیں ہے۔ وہ عرصے سے عمران خان کے سیاسی نظریات اور پھر ان کی طرز حکومت کے مخالف رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے اور عمران خان کے درمیان مقدمہ بازی بھی چل رہی ہے۔ وہ عمران خان کے دور میں آف ائیر بھی رہے۔
میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ کیا کسی میڈیا کے نمایندے کو سیاسی عہدہ لینا چاہیے کہ نہیں۔ کیونکہ نہ اس حوالے سے نجم سیٹھی کوئی پہلے میڈیا پرسن ہیں اور نہ ہی کوئی آخری ہیں۔ کئی میڈیا پرسن ماضی میں بھی حکومتی عہدے لیتے رہے ہیں اور اب بھی لے رہے ہیں۔
اس ضمن میں صحافیوں کی تنظیموں کو اپنے اندر کوئی مضبوط کوڈ آف کنڈکٹ بنانا چاہیے۔ جہاں آنے اور جانے کا کوئی ڈسپلن ہو۔ وکیل کا لائسنس ہے۔ ڈاکٹر کا اور انجینئر کا لائسنس ہے۔ لیکن صحافی ہونے کا کوئی لائسنس نہیں ہے۔ جس کا جب دل چاہے صحافی بن سکتا ہے اور جب چاہے صحافت چھوڑ سکتا ہے۔
نجم سیٹھی کوئی پہلی دفعہ پی سی بی کے سربراہ نہیں بنے۔ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دور میں بھی اس عہدہ پر کام کر چکے ہیں۔ ان کے دوبارہ چیئرمین بننے کے بعد تحریک انصاف کے ٹرولرز نے ان کے خلاف ایک مہم شروع کر دی۔ رمیز راجہ نے بھی شاید اس مہم کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ رمیز راجہ اب عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے قابل قبول نہیں رہے ہیں۔
لہٰذا تحریک انصاف کی جانب سے نجم سیٹھی کی مخالفت انھیں مدد کر رہی ہے اور انھیں ہمدردی کے ووٹ مل رہے ہیںلیکن ایسی رپورٹس بھی آئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ رمیز راجہ نے بھی مراعات لینے میں کفایت شعاری نہیں کی تا ہم جب جواب شکوہ آیا تو سب حیران رہ گئے۔
بہر حال میرے نزدیک رمیز راجہ اور نجم سیٹھی کے درمیان اگر کوئی موازنہ ہو سکتا ہے تو کرکٹ کے تناظر میں ہونا چاہیے، کس کے دور میں پاکستان کی کرکٹ کو کیا کامیابی ملی ہے۔ کرکٹ کے فروغ کے لیے کیا کیا گیا ہے۔ ٹیم کی کارکردگی ہی سے سب سے پہلا موازنہ ہونا چاہیے۔
نجم سیٹھی کے گزشتہ دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر ون تھی جب کہ رمیز راجہ دور میں ہماری ٹیسٹ رینکنگ چھٹے نمبر پر تھی۔ رمیز راجہ سے قبل احسان مانی سربراہ تھے ان کے دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی ٹیسٹ رینکنگ پانچویں نمبر پر تھی۔ راجہ صاحب پانچویں سے چھٹے پر لے گئے۔
نجم سیٹھی کے دور میں پاکستان ٹی ٹونٹی کی بھی نمبر ون ٹیم تھی۔ جب کہ رمیز راجہ کے دور میں ہم نمبر تین پر آگئے، جب کہ احسان مانی کے دور میں نمبر چار پر تھے۔
جب کہ ون ڈے کی رینکنگ تینوں کی برابر ہے۔ تینوں کے دور میں ٹیم پانچوں نمبر پر تھی۔ تا ہم رمیز راجہ کے دور میں انگلینڈ سے ہوم سیریز میں وائٹ واش افسوسناک تھا۔ پاکستان کی گراونڈ پچز کے ساتھ جو تجربات کیے گئے ہیں' وہ بھی سامنے ہیں۔ راولپنڈی کو وارننگ مل چکی ہے اور دنیا مردہ پچز پر ہمارا مذاق بنا رہی ہے۔
نجم سیٹھی سے پی ایس ایل شروع کرنے کا کریڈٹ کوئی نہیں چھین سکتا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں کرکٹ کے دروازے بند تھے۔ آئی پی ایل میں پاکستانی کرکٹرز پر پابندی لگ چکی تھی اور پاکستان کے لیے اپنی لیگ ناگزیر تھی۔ آج پی ایس ایل ایک تن آور درخت بن چکا ہے۔
نجم سیٹھی کے دور میں پی ایس ایل منافع بخش تھا، پھر خسارہ بھی سامنے آیا' بہر حال پی ایس ایل جاری رہا۔ یہ اچھی بات ہے۔ شکر ہے ورنہ کیا پتہ تھا کہ ان کی نفرت میں پی ایس ایل بھی ختم کر دیا جاتا۔ نجم سیٹھی نے کرکٹرز کو تین تین سال کے کنٹریکٹ دینا شروع کیے۔ جو بعد میں ختم کیا گیا۔ نئی کرکٹ پالیسی سے بہت سے ڈومیسٹک کرکٹرز بے روزگار بھی ہوئے۔