بھٹو ایک معمہ
بھٹو ایک بین الاقوامی قدوقامت کے رہنماہی بلکہ پاکستانی تاریخ کےبھی پہلےلیڈرتھے جنہوں نے عوام کوقومی امور میں شریک کیا۔
کوئی بھی قوم ایک اچھی قیادت ہی سے تعمیر وترقی کی منازل طے کرتی ہے جو اس قوم کی منزل مقصود متعین کرتی ہے اوراپنی اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پرقوموں کی تاریخ میں ایک ارفع واعلیٰ مقام حاصل کرتی ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کوایک پلیٹ فارم پرمتحد کرنے والے قائداعظم محمد علی جناح بھی ایسے ہی ایک عظیم اورتاریخ ساز شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے بعد سے اب تک کسی لیڈر کو اتنی پذیرائی، محبت ،عوام کی چاہت اوراعتماد حاصل نہ ہوسکاہاں اگرزمینی حقائق سچائی کے ساتھ بیان کئے جائیں توحضرت قائداعظم کے بعد عوام نے اگرکسی لیڈر کواتنی عزت ،محبت اوراعتماد دیاتووہ بلاشبہ ذوالفقارعلی بھٹو کوہی یہ اعزاز حاصل ہے جنہوں نے پاکستانی تاریخ کے اوراق پرانمٹ نقوش مرتب کئے۔ امریکی صدر کینیڈی نے کہاتھاکہ بھٹوبیسوی صدی کے سب سے بڑے سیاسی مدبر ہیں۔بھٹو نے انتہائی نامساعد حالات میں ایک شکست خوردہ اورمنتشر قوم کوسنبھالا ،حوصلہ دیا بلکہ ایک قلیل مدت میں ایک متفقہ آئین پر متحد بھی کردیاتھا۔
بھٹونے پاکستان کودنیا کی چھٹی بڑی فوجی قوت اورساتواں ایٹمی طاقت رکھنے والاملک بنانے کی بنیاد رکھی تھی اورچند ہی برسوں میں عالم اسلام کالیڈر بن کر خود کو ایک بڑی عالمی طاقت کی آنکھوں کاکانٹا بھی بنادیاتھا ۔ مسٹربھٹوکاایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ شملہ معاہدے میں فاتح ملک کی کوئی شرط مانے بغیر نہ صرف اپنے90 ہزار جنگی قیدی، ساڑھے 5ہزارمربع میل مقبوضہ علاقہ اور3سو سے زائد فوجی افسران پرجنگی جرائم کے تحت مقدمہ نہیں چلنے دیابلکہ بنگلا دیش تسلیم کئے بغیر یہ بھی منوایاکہ کشمیر ایک متنازعہ اورحل طلب مسئلہ ہے ۔مسٹربھٹو کاایک اور کارنامہ فروری 1974 ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس کاانعقاد بھی ہے۔بھٹونے ہی ملک میں زرعی اصلاحات کی جس کے نتیجے میں بڑے بڑے جاگیرداروں سے زمین لے کر غریب کاشتکاروں میں تقسیم کردی گئی ، انہوںنے ملک میں لیبر قوانین متعارف کروائے جس کے بعد ملازمین کویونین سازی کے حقوق مل گئے۔
لیکن یہ بھی تاریخ کاکڑواسچ ہے کہ مسٹربھٹو کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں دودھ اورشہد کی نہر یں بہہ رہی تھیں حکومت کی طرف سے من وسلویٰ کاعام بندوبست تھا لوگ ہرطرح خوش وخرم تھے ان کے دورِ حکومت میں دس بڑی صنعتوں کوقومیانے کااعلان کیاگیا اور روپے کی قیمت میں بھی 130 فیصد کمی کی گئی ۔کہاگیاکہ اس سے ہماری برآمد میں اضافہ ہوگا لیکن جب صنعتیں سرکاری ملکیت میں ہوں توانکی کارکردگی کس معیار کی ہوگی اس کااندازہ لگانادشوارنہیں ۔زندگی کابیمہ کرنے والی کمپنیاں اورگھی بنانے والے تمام کارخانوں کوقومی تحویل میں لے لیاگیا جنوری 1974 کوبینکنگ ، جہازرانی کے ادارے اورپیٹرولیم بھی قومی ملکیت میں لی گئیں۔
پھر اپریل 1972ء میں صحافت پربھرپور حملہ کیاگیاماہنامہ اردوڈائجسٹ ،ہفت روزہ زندگی اورروزنامہ پنجاب پنج کومارشل لاء کے تحت بندکردیاگیا۔بھٹوکے دورمیں عرض لاتعداد اخبارات ورسائل کے ڈکلیریشن منسوخ کیے گئے اوران کے ایڈیٹروں اورمالکان کوقید وبندکی صعوبتیں بھی برادشت کرناپڑیں ۔
قارئین کرام میں نے بھٹوصاحب کی شخصیت اوردورِ حکومت کے دونوں پہلواختصار کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ دیئے ہیں لیکن یہ بھی بہت بڑی حقیقت ہے مسٹر بھٹو ایک بین الاقوامی قدوقامت کے رہنماہی نہیں تھے بلکہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے لیڈر بھی تھے جنہوں نے عوام الناس کوقومی امور میں شریک کیا۔ اوریہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاست بھٹوکے سحر سے تاحال باہر نہیں نکل سکی آج بھی کاسٹ ہونے والا ہرووٹ بھٹوکا ہوتا ہے یا پھر اس کے مخالف ہوتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پاکستانی قوم کواس حقیقت کی یاددہانی تھی کہ پاکستان جیسے اہم بین الاقوامی محل وقوع کے حاصل خطے میں طاقت کاسرچشمہ عوام کبھی نہیں ہوسکتے۔ لیکن فیصلہ تاریخ نے کرناہے کیونکہ بھٹوشہید ایک معمہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کوایک پلیٹ فارم پرمتحد کرنے والے قائداعظم محمد علی جناح بھی ایسے ہی ایک عظیم اورتاریخ ساز شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے بعد سے اب تک کسی لیڈر کو اتنی پذیرائی، محبت ،عوام کی چاہت اوراعتماد حاصل نہ ہوسکاہاں اگرزمینی حقائق سچائی کے ساتھ بیان کئے جائیں توحضرت قائداعظم کے بعد عوام نے اگرکسی لیڈر کواتنی عزت ،محبت اوراعتماد دیاتووہ بلاشبہ ذوالفقارعلی بھٹو کوہی یہ اعزاز حاصل ہے جنہوں نے پاکستانی تاریخ کے اوراق پرانمٹ نقوش مرتب کئے۔ امریکی صدر کینیڈی نے کہاتھاکہ بھٹوبیسوی صدی کے سب سے بڑے سیاسی مدبر ہیں۔بھٹو نے انتہائی نامساعد حالات میں ایک شکست خوردہ اورمنتشر قوم کوسنبھالا ،حوصلہ دیا بلکہ ایک قلیل مدت میں ایک متفقہ آئین پر متحد بھی کردیاتھا۔
بھٹونے پاکستان کودنیا کی چھٹی بڑی فوجی قوت اورساتواں ایٹمی طاقت رکھنے والاملک بنانے کی بنیاد رکھی تھی اورچند ہی برسوں میں عالم اسلام کالیڈر بن کر خود کو ایک بڑی عالمی طاقت کی آنکھوں کاکانٹا بھی بنادیاتھا ۔ مسٹربھٹوکاایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ شملہ معاہدے میں فاتح ملک کی کوئی شرط مانے بغیر نہ صرف اپنے90 ہزار جنگی قیدی، ساڑھے 5ہزارمربع میل مقبوضہ علاقہ اور3سو سے زائد فوجی افسران پرجنگی جرائم کے تحت مقدمہ نہیں چلنے دیابلکہ بنگلا دیش تسلیم کئے بغیر یہ بھی منوایاکہ کشمیر ایک متنازعہ اورحل طلب مسئلہ ہے ۔مسٹربھٹو کاایک اور کارنامہ فروری 1974 ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس کاانعقاد بھی ہے۔بھٹونے ہی ملک میں زرعی اصلاحات کی جس کے نتیجے میں بڑے بڑے جاگیرداروں سے زمین لے کر غریب کاشتکاروں میں تقسیم کردی گئی ، انہوںنے ملک میں لیبر قوانین متعارف کروائے جس کے بعد ملازمین کویونین سازی کے حقوق مل گئے۔
لیکن یہ بھی تاریخ کاکڑواسچ ہے کہ مسٹربھٹو کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں دودھ اورشہد کی نہر یں بہہ رہی تھیں حکومت کی طرف سے من وسلویٰ کاعام بندوبست تھا لوگ ہرطرح خوش وخرم تھے ان کے دورِ حکومت میں دس بڑی صنعتوں کوقومیانے کااعلان کیاگیا اور روپے کی قیمت میں بھی 130 فیصد کمی کی گئی ۔کہاگیاکہ اس سے ہماری برآمد میں اضافہ ہوگا لیکن جب صنعتیں سرکاری ملکیت میں ہوں توانکی کارکردگی کس معیار کی ہوگی اس کااندازہ لگانادشوارنہیں ۔زندگی کابیمہ کرنے والی کمپنیاں اورگھی بنانے والے تمام کارخانوں کوقومی تحویل میں لے لیاگیا جنوری 1974 کوبینکنگ ، جہازرانی کے ادارے اورپیٹرولیم بھی قومی ملکیت میں لی گئیں۔
پھر اپریل 1972ء میں صحافت پربھرپور حملہ کیاگیاماہنامہ اردوڈائجسٹ ،ہفت روزہ زندگی اورروزنامہ پنجاب پنج کومارشل لاء کے تحت بندکردیاگیا۔بھٹوکے دورمیں عرض لاتعداد اخبارات ورسائل کے ڈکلیریشن منسوخ کیے گئے اوران کے ایڈیٹروں اورمالکان کوقید وبندکی صعوبتیں بھی برادشت کرناپڑیں ۔
قارئین کرام میں نے بھٹوصاحب کی شخصیت اوردورِ حکومت کے دونوں پہلواختصار کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ دیئے ہیں لیکن یہ بھی بہت بڑی حقیقت ہے مسٹر بھٹو ایک بین الاقوامی قدوقامت کے رہنماہی نہیں تھے بلکہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے لیڈر بھی تھے جنہوں نے عوام الناس کوقومی امور میں شریک کیا۔ اوریہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاست بھٹوکے سحر سے تاحال باہر نہیں نکل سکی آج بھی کاسٹ ہونے والا ہرووٹ بھٹوکا ہوتا ہے یا پھر اس کے مخالف ہوتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پاکستانی قوم کواس حقیقت کی یاددہانی تھی کہ پاکستان جیسے اہم بین الاقوامی محل وقوع کے حاصل خطے میں طاقت کاسرچشمہ عوام کبھی نہیں ہوسکتے۔ لیکن فیصلہ تاریخ نے کرناہے کیونکہ بھٹوشہید ایک معمہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔