دھند کے پار کیا ہے

یہ دھند صرف آنکھوں کے سامنے نہیں بلکہ ذہنوں پر بھی چھائی ہوئی ہے

اس دھند میں ہر منظر دھندلا گیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کیلنڈر پر تاریخ، دن اور سال دونوں تبدیل ہوگئے ہیں اور موسم بھی مزید سرد ہوتا جارہا ہے۔ ملک میں موسم سرما کی بارشیں شروع جبکہ بالائی علاقوں میں برفباری بھی شروع ہوگئی ہے۔ سردیوں کے موسم میں ہر منظر جیسے دھندلا سا جاتا ہے کیونکہ ہر سو دھند چھا جاتی ہے۔

اس دھند میں راستہ ڈھونڈنا بہت ہی دشوار ہوجاتا ہے کیونکہ تاحد نگاہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس دھند نے میدانی اور پہاڑی علاقوں کو ہی نہیں بلکہ بصارتوں، سماعتوں اور جذباتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بے حسی کی، خودغرضی کی اور انا کی اس دھند میں ہر منظر دھندلا گیا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا، ہر راستہ دھند میں گم ہوتا جارہا ہے اور ہم اس دھند میں بس بھٹکتے چلے جارہے ہیں۔

ہر گزرتا لمحہ خطرات کو بڑھا ہی رہا ہے کم نہیں کررہا، ادھر ملک ڈیفالٹ کی ریڈ لائن پر آن پہنچا ہے۔ لیکن لندن کے ایون فیلڈ سے لاہور کے زمان پارک اور بلاول ہاؤس تک بے حسی کی دھند چھائی ہوئی ہے۔ سوال بھی پوچھیں تو کیا پوچھیں، کس سے پوچھیں۔ اس سرد دھند میں تو ہر منظر پر مایوسی چھائی ہوئی ہے۔

ادھر بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں پھر دہشت گردی نے سر اٹھالیا ہے۔ ابھی تو بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی بحالی مکمل نہیں ہوئی ہے۔ وہاں کی عورتیں اور بچے اپنے گھر کے لاپتہ مردوں کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں اور اب وہاں ممکنہ طور پر آپریشن ہوگا۔

بلوچستان میں اس وقت ہر طرف برف پڑی ہے، موسم شدید سرد ہے، ایسے میں بھوکے بیمار سردی سے متاثرہ بچے اور یہ غریب، کمزور عورتیں بے بسی سے پوچھ رہے ہیں وہ کیا کریں گے، کہاں جائیں گے؟ لیکن ہماری سیاسی قیادت کی سماعتوں پر تو دھند چھا گئی ہے، انہیں کچھ سنائی نہیں دے رہا۔

آٹھ سال سے خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت سے صوبے کا امن نہیں سنبھالا گیا، اب پھر کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی اور سیکیورٹی فورسز آمنے سامنے ہیں۔ اپنی حکومت کی خاطر دہشت گردوں کو پناہ دے کر مضبوط کرنے کا سوال کیا ہوسکے گا مگر اس میں تو ان پردہ نشینوں کے نام آجاتے ہیں جن کا نام ہماری سیاسی قیادت اپنے جلسوں میں بیانات میں کرتی رہتی ہے۔ لیکن نگاہیں اسی نظر کرم کی محتاج رہتی ہیں۔


ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے چکر میں ہمارے حکمرانوں کی خودغرضی کی دھند نے عام آدمی کےلیے اپنے لیے بددعائیں چھوڑی ہیں۔ آٹا مہنگا، تیل مہنگا، چینی مہنگی، پٹرول مہنگا، سبزی گوشت... کچھ بھی تو قابو میں نہیں۔ لگتا ہے ہر طرف بے حسی کی دھند چھائی ہوئی ہے، جو نہ کچھ نظر آرہا ہے نہ سنائی دے رہا ہے۔

کہیں بھوک سے روتے بچے، کہیں تشدد سے مرتی عورتیں، کہیں پولیس اور ڈاکوؤں کی اندھی گولیوں کا نشانہ بننے والوں کی خبریں پڑھتے اور دیکھتے آنکھوں کے سامنے دھند چھا ہی جاتی ہے۔ طاقت اور انا کی جنگ لڑتے لڑتے اندازہ ہی نہیں تھا کہ ہم تباہی کے کس دہانے پر آگئے ہیں۔ مگر اس سوال کا جواب دینے والوں کی سماعتوں پر بھی تو بے حسی کی دھند چھائی ہوئی ہے۔

خودغرضی کی ایک دھند ہماری اخلاقیات پر بھی تو چھائی ہوئی ہے۔ کہیں سوشل میڈیا پر مخالف کی دھجیاں ایسے اڑ رہی ہیں کہ کل کے محسنوں کو آج غدار قرار دے کر ہر طرح کی گالم گلوچ جاری رہی۔ تو کہیں آڈیو وڈیو لیکس کا نہ تھمنے والا وہ شرمناک سلسہ شروع ہوا ہے جو پارساؤں کی اصلیت تو سامنے لے آیا، لیکن ساتھ میں یہ سوال بھی تو چھوڑے جارہا ہے اگر اس ملک میں کسی کی نجی زندگی بھی محفوظ نہیں تو پھر کس کی ہے؟ جہاں وزیراعظم کی گفتگو محفوظ نہیں وہاں عام شہری کتنا محفوظ ہے؟

اقتدار کی جنگ جیتنے کےلیے ہر طرح کی الزام تراشیاں اور منافقتیں کی جارہی ہیں۔ بلیک میلنگ، مفادات اور اختیارات کا کھیل اس ظالم دھند میں جاری ہے۔ اس کھیل میں ان کھلاڑیوں کا نہ کوئی اصول ہے، نہ ہی اخلاقیات، بس ہر صورت، ہر حال میں طاقت کا حصول ہے۔ مگر ملک کا کیا ہے، ہوتا رہے جو ہوتا ہے۔ دھند کچھ کم ہو تو سوچیں گے اور سوچنے کا وقت تو ختم ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ یہ دھند صرف آنکھوں کے سامنے نہیں بلکہ ذہنوں پر بھی چھائی ہوئی ہے۔

سوال تو وہی رہے گا کہ دھند کے اس پار کیا؟ اور جواب اس سال بھی یہی رہے گا ''دھند کے پار بس دھند ہے''۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story