معاشی استحکام کا دس سالہ منصوبہ

عمران خان کے پاس آج بھی ملک کے معاشی مسائل کا کوئی حل نہیں، ان کے واپس آنے سے مسائل میں اضافہ ہوگا

msuherwardy@gmail.com

نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا طویل اجلاس ختم ہوگیا اور یہ واضح اشارہ دے دیا گیا ہے کہ ملکی سلامتی اور معاشی استحکام اکٹھے کر دیے گئے ہیں۔

دس سال کے بحالی منصوبے پر بھی اتفاق کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر وہ کڑوے، سخت اور ناگزیر اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو وہ اکیلے نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔

ان کڑوے اور سخت فیصلوں کے سیاسی نقصانات ہیں،اس لیے انھیں اسٹیبلشمنٹ سے کچھ یقین دہانیاں درکار تھیں۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ پی ڈی ایم یہ کڑوے فیصلوں پر عملدرآمد کر رہی ہو تو دوسری طرف ملک میں جنرل الیکشن کا بگل بج رہا ہوا۔

اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی معاشی بحالی کے روڈ میپ پر اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت کے درمیان اتفاق ہوا ہے تو پھر پی ڈی ایم کی حکومت کہیں نہیں جا رہی لہٰذا فوری عام انتخابات کا کوئی امکان نہیں ہے۔

نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی پر بات ہوئی ہے۔ یہ فیصلہ کیا گیا ہے آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کے لیے اقدمات کیے جائیں گے۔

اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ملک میں فوری انتخابات نہیں ہو رہے کیونکہ اگر آپ نے آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کرانا ہے تو پھر مکمل بھی کرنا ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام بحال تو یہ حکومت کرائے اور اس کے بعد گھر چلی جائے تو پھر یہ بغیر بحال کرائے ہی کیوں نہ گھر چلی جائے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں یہ بات طے ہو گئی ہے کہ ملک میں فوری انتخابات کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے بلکہ معاشی بحالی طرف توجہ دی جائے۔

آئی ایف کی شرائط مانی جائیں اور انتخابات کا خوف ختم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو اسٹیبلشمنٹ سے جس قسم کی یقین دہانی چاہیے تھی، مجھے لگتا ہے وہ مل گئی ہیں۔ جس کے بعد یہ اقدمات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مقتدر حلقوں نے بھی اس نیشنل سیکیور ٹی کمیٹی میں آنے سے پہلے ملک کی معاشی صورتحال پر پوری تیاری کی تھی۔

یہ اطلاعات ہیں کہ جی ایچ کیو میں معاشی ماہرین کو بلایا گیا تھا اور ملک کی معیشت کے حوالے سے نہ صرف تفصیلی غور ہوا بلکہ معاشی بحالی پر تجاویز بھی لی گئیں۔ چونکہ معاشی ٹیکنوکریٹس اسٹیبلشمنٹ کو مل رہے تھے ،اس لیے ٹیکنوکریٹ حکومت کی خبریں سامنے آرہی تھیں حالانکہ اب صورتحال واضح ہو گئی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ اس میٹنگ کے لیے اپنا ہوم ورک کر رہی تھی، وہ بھی حالات کو سمجھ رہے تھے، وہ اپنی حکمت عملی بنا رہی تھے تا کہ وہ میٹنگ میں تیاری سے بیٹھ سکیں، اس لیے مجھے لگتا ہے کہ حالات کو سمجھنے کے عمل کو ٹیکنوکریٹ حکومت سمجھ لیا گیا۔

یقینا جب اسٹیبلشمنٹ کسی کو بلاتی ہے اور پوچھتی ہے کہ آپ کے نزدیک مسائل کا حل کیا ہے؟ تو وہ سمجھتا ہے کہ میری باری آگئی ہے۔ حالانکہ وہ صرف بات سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ باری دینے کے لیے نہیں بلایا گیا ۔

عمران خان بار بار کہتے ہیں کہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ انھیں کہتی تھی کہ تمام معاملات کو چھوڑ کر ملک کی معیشت پر توجہ دیں، جب کہ وہ باقی معاملات کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ عمران خان کے مطابق ان کے لیے سیاسی مخالفین کے مقدمات معاشی بحالی سے زیادہ اہم تھے۔ جب کہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے ملک کی معاشی بحالی زیادہ اہم تھی ۔ سوچ اور ترجیحات کا فرق ان کی حکومت کو لے بیٹھا۔ میں سمجھتا ہوں آج بھی اسٹیبلشمنٹ وہی بات کر ہی ہے۔


انھوں نے موجودہ حکومت کو بھی وہی بات کہی ہے جو وہ عمران خان کو کہتے تھے۔ سیاسی تنازعات کو بھولیں اور معاشی بحالی پر کام کریں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی یہ بات سمجھ نہیں سکے جب کہ شہباز شریف پہلے ہی اس بات پر تیار تھے۔

شہباز شریف تو پہلے ہی ملک میں چارٹر آف اکانومی کی بات کرتے ہیں۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ شہباز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک چارٹر آف اکانومی ہو گیا ہے۔

دس سال کا چارٹر آف اکانومی ہو گیا ہے۔ جس میں پاکستان کو دس سال میں تمام معاشی مسائل سے نکالنے کے لیے کام کرنا شامل ہے۔

یہ دس سال کا چارٹر ہماری اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے ساتھ بھی کیا تھا۔ وہ عمران خان کو دس سال کے لیے ہی لے کر آئے تھے۔ ان کا یہی خیال تھا کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ملکر ملک کو معاشی استحکام دیں گے۔ پاکستان کے معاشی مسائل حل کیے جائیں گے۔

لیکن عمران خان ٹریک سے ہٹ گئے، پہلے چند ماہ میں یہ حقیقت عیاں ہوچکی تھی کہ عمران اور ان کی ٹیم کے پاس ملک کے معاشی مسائل کا کوئی حل نہیں۔ اسد عمر پہلے چند ماہ میں ہی ناکام ہو گئے، وہی عمران خان کی بڑی ناکامی تھی۔

اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ ان کو اپنی ٹیم دی کہ معاملات چل سکیں لیکن حفیظ شیخ بھی ناکام ثابت ہوئے، شوکت ترین بھی ناکام ہو ئے لیکن بطور وزیراعظم عمران خان بات نہیں سمجھ سکے۔ وہ یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ جیسے پاکستان کے لیے قومی سلامتی اہم ہے ویسے ہی اب معاشی سیکیور ٹی بھی اہم ہوگئی ہے،عمران خان اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس لیے عمران خان اقتدار سے آؤٹ ہو گئے۔

عمران خان آئی ایم ایف کو متعدد بار ناراض کر چکے تھے۔ چین اپنا اڑھائی ارب ڈالر کا ڈیپازٹ واپس لے جا چکا تھا۔ سعودی عرب ناراض تھا۔ امریکا ناراض تھا۔ اس لیے عمران خان حکومت کے پاس پاکستان کے معاشی مسائل کا کوئی حل نہیں تھا۔

عمران خان کے پاس آج بھی ملک کے معاشی مسائل کا کوئی حل نہیں، ان کے واپس آنے سے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ اس وقت پاکستان کو ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو عالمی دوستوں کو منا سکے، ان کا اعتماد بحال کرسکے، جو عمران خان نہیں کر سکے، وہ سب کو ناراض کر چکے ہیں۔ اس لیے اگر معیشت بحال کرنی ہے تو جہاں ملک کے اندر سخت فیصلے کرنے ہیں وہاں دوست ممالک کو ساتھ ملانا ہے۔ یہ دونوں کام ابھی عمران خان نہیں کر سکتے۔

فی الحال ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان وہ انڈر اسٹینڈنگ بھی نہیں ہے کہ دونوں ساتھ مل کر کوئی کام کر سکیں۔ اعتما دکا فقدان ہے اور فاصلے بڑھ چکے ہیں۔

2023 سخت فیصلوں کا سال ہے۔ معاشی سرجری کا سال ہے اور یہ الیکشن کا سال نہیں ہو سکتا۔ یہ سب کام مکمل کرنے کے لیے کم از کم دو سال چاہیے۔ اتحادی حکومت سارے کام درمیان میں چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔

ملک میں سیاسی استحکام لازم ہوچکا ہے، معاشی استحکام جیسے بھی لایا جائے گا لیکن لایا جائے گا۔ عمران خان مان جائیں تو اچھا لیکن پھر دوسری صورت بھی ہوگی۔

قومی حکومت بن سکتی ہے۔ تحریک انصاف ملک کی معاشی بحالی کے روڈ میپ پر ساتھ مل سکتی ہے۔ عمران خان اپنی پارٹیٰ کو پارلیمان میں واپس لے آئیں۔ چارٹر آف اکانومی پر مان جائیں اپنے لوگوں کو حکومت میں شامل کر لیں۔ خود باہر بیٹھیں۔ ملک میں معاشی بحالی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیں تو ٹھیک ہوگا ۔

ایک عمومی رائے ہے کہ ابھی عمران خان نہیں مانیں گے لیکن اسٹیبلشمنٹ اس فیصلے پر پہنچ چکی ہے کہ پاکستان مزید سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جو ان کے ساتھ مل کر کام کرے گا، وہ تیار ہیں۔ جو نہیں چاہتا، وہ باہر بیٹھے کیونکہ انھوں نے کام کرنے کا سوچ لیا ہے۔ ابھی کا فیصلہ یہی ہے اور چند دنوں میں کام شروع ہو جائے گا۔
Load Next Story