سراج الحق جماعت اسلامی کا نیا دَور

فکری اور نظریاتی اعتبار سے سراج الحق کا انتخاب جماعت اسلامی کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔۔۔

budha.goraya@yahoo.com

لاہور:
ایک عہد تمام ہوا، سراج الحق روایت شکن ثابت ہوئے، ان کی فتح سے زیادہ اہم معاملہ جناب منور حسن کی شکست ہے۔ سید ابوالاعلی مودودی ؒکی جماعت اسلامی کا دور ختم ہوا۔ اب سراج الحق جماعت اسلامی کا چہرہ ہوں گے۔ جدت اور قدامت پسندی کا مرکب سراج الحق توہم سے بھی جونیئر تھے۔ سراج الحق جماعت اسلامی کے واحد رہنما ہیں جنھیں خیبر پی کے کی دوحکومتوں میں سینئر وزیررہنے کا شرف حاصل ہے۔ اس بار جماعت اسلامی کی شوریٰ نے امیر کے لیے روایت کے مطابق تین نام تجویز کیے تھے جن میں ان کا نام سب سے نیچے تھا لیکن ارکان کی عظیم اکثریت نے موجودہ امیردرویش صفت منور حسن اور تجربہ کار لیاقت بلوچ کو نظر انداز کرکے امارت کا کانٹوں بھرا تاج سراج الحق کے سر پر سجا دیا۔وہ 9اپریل کو امارت کا حلف اُٹھائیں گے۔ یہ گذشتہ 75سال سے جاری روایت سے انحراف ہے کہ ہمیشہ موجودہ امیر ہی کو منتخب کیا جاتا ہے۔ ان کی طرف سے معذرت کے بعد ہی نگہ انتخاب ادھر اُدھر ہوتی ہے ۔

بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلی مودودیؒ نے 70کے عام انتخابات میں شکست ، سقوط مشرقی پاکستان اوربڑھتی عمر کے مسائل کی وجہ سے معذرت کی تو ان کے قیم میاں طفیل محمد کو امیرمنتخب کرلیا گیا۔ ضیا الحق کے بحرانی دور میں جماعت اسلامی جذباتی دھچکوں کا شکار رہی۔ فوج کی حمایت کے حوالے سے میاں طفیل محمد جیسے مرد درویش کو ہم جیسے چھچھوروں کے ناگوار تبصرے سننا اور برداشت کرنا پڑے، خاص طور پر ضیا الحق کے جعلی ریفرنڈم کی حمایت پر شدت جذبات میں تندی و تیزی انتہا پر پہنچ گئی تھی۔ اسی طرح طلبہ یونینز پر پابندی کے بعد جماعت اسلامی کی قیادت اور اسلامی جمعیت طلبہ کے جذباتی آمنے سامنے کھڑے تھے۔ میاں طفیل محمد کے خلاف کراچی کے' انقلابیوں'نے محاذ گرم رکھا لیکن مجلسی گرماگرمی سے آگے بات نہ بڑھ سکی۔

میاں طفیل محمد نے بھی مودودی صاحب کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید خدمات سے معذرت کرلی جس کے بعد قاضی حسین احمد کا ہنگامہ خیز دور شروع ہوا۔ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف کارواں دعوت ومحبت چلانے والے قاضی حسین احمد کو پاکستان کے سب سے بڑے جاگیردار مرحوم غلام مصطفی جتوئی کی قیادت میں تشکیل دیے جانے والے سیاسی اتحاد کا حصہ بننا پڑا جو پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے کے لیے تخلیق کیا گیا تھا، برادرم محمد علی درانی کی قیادت میں پاسبان کا عروج ، اسلامک فرنٹ کے بلندوبانگ دعووئوں کے بعد انتخابی شکست کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے جناب قاضی حسین احمد مستعفی ہوئے لیکن ارکان نے انھیں دوبارہ منتخب کرلیا تھا۔

سراج الحق کا انتخاب جماعت اسلامی کی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے کہ موجودہ امیر کا نام فہرست میںہونے کے باوجود آخری ترجیح والے سراج الحق کو امیر چنا گیا ہے۔ قاضی حسین احمد کے دورامارت میں مالی بے ضابطگیوں کے بڑے بڑے سکینڈل سامنے آئے جنھیں بوجوہ دبا دیا گیا۔ خود قاضی صاحب کے خاندان سے متعدد افراد پارلیمان میں پہنچے جس پر جرح و تنقید ہوتی رہی لیکن قاضی صاحب بھی معذرت کرکے جماعت اسلامی سے رخصت ہوئے۔ رہے سید منور حسن تو انھوں نے بھی گزشتہ عام انتخابات میں شکست کے بعد مستعفی ہونے کی کوشش کی تھی لیکن اسے سنجیدگی سے نہیں لیاگیا۔ ذاتی زندگی میں قرون اولیٰ کے روایتی مسلمانوں کی تصویر، مقرر بے بدل سید منور حسن درویشی اور فاقہ مستی کا زندہ وجاوید نمونہ ہیں لیکن بعض سیاسی فیصلوں، متنازعہ بیانات اور سخت گیر رویوں کی وجہ سے انھوں نے گرمئی محفل کا ایسا سامان پیدا کیا کہ ایک موقع پر فوج اور جماعت اسلامی آمنے سامنے ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے تھے۔ ماضی کے ترقی پسند منور حسن کا انتخاب تازہ ہوا کا جھونکا تھا لیکن صاف گوئی اور اپنی اُفتاد طبع کی وجہ سے عوامی زندگی میں موثر ابلاغ نہ کرسکے۔


سیاسی محاذ پر بھی انھوں نے جناب نواز شریف سے دامن چھڑا کر تحریک انصاف اور عمران خان سے ناطہ جوڑنے پر ترجیح دی تھی۔ کراچی جو کبھی قبلہ منور حسن کی جولانی طبع کا مرکز و محور تھا، کب کا ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ گزشتہ انتخابات میں جماعت کی سیاسی پسپائی پر تبصرہ کرتے ہوئے فکری اور نظریاتی تحریکوں کے ماضی اور حال پر گہری نظر رکھنے والے ترقی پسند دانشور اسلم ڈوگر نے سوال اُٹھایا تھا کہ یہ کیسی تحریک ہے جو شہروں سے پسپا ہوکر دور افتادہ دشوار گزار حلقوں تک محدود ہوگئی ہے۔

فکری اور نظریاتی اعتبار سے سراج الحق کا انتخاب جماعت اسلامی کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒنے صدیوں سے طاری جمود کو پاش پاش کرکے اسلام کے رُخ تاباں کو نئے روپ سے آشنا کیا، نیا آہنگ عطا کیا، تجدید و احیائے دین کی نئی بنیادیں اٹھائیں، متحدہ ہندوستان کے علمی حلقوں میں ان کی تحریریں بڑی دلچسپی سے پڑھی جانے لگیں۔ ان کی شاہکار تصنیف'خلافت وملوکیت' ان کی آزاد روی، روشن خیالی اور دیانت فکر کی تابندہ مثال ہے۔ وہ امام حمید الدین فراحی ؒکے عقلیت پسندی پر مبنی طرز فکر کی نمایندہ علامت تھے جو دین کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے اور اجتہاد کی راہیں کشادہ کرنے کے لیے کوشاں تھے۔

یہ بھی سید مودودیؒ کا اعجاز تھا کہ انھوں نے جہاد کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی بجائے اسے ریاست کی ذمے داری قرار دیا جس کی وجہ سے جہاد کشمیر کے حوالے سے ناگوار تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا۔ جسے اس وقت کے فوجی حکمران نے دیدہ دانستہ ہوا دی تھی۔ سید ابوالاعلیٰ کے بعد سید اسعد گیلانی واحد رہنما تھے جو ایران میں انقلاب کے بعد امام خمینی اور علی شریعتی سے متاثر ہوئے لیکن وہ اپنے رہبر سید مودودیؒ کی فکر کو آگے نہ بڑھا سکے۔ یہ المناک حقیقت ہے کہ سید ابوالاعلیٰ کے بعد جماعت اسلامی ان کے فکری ورثے میں کوئی قابل قدر اضافہ نہیں کر سکی، ان کے بعد صرف خرم جاہ مراد فکری محاذ پر متحرک تھے لیکن سقوط مشرقی پاکستان کے عظیم سانحہ، خاص طور پر امریکی اشارے پر ہونے والے افغان جہاد نے انھیں بکھیر کر رکھ دیا تھا۔

جماعت اسلامی کے علما اور دانشوروں کی عربی اور فارسی سے نابلد، نئی نسل تو اُردو کے چند پمفلٹ پڑھ کر مفسر قرآن و حدیث ہونے کی دعویدار ہے۔ انحطاط کا یہ عالم ٹھہراکہ چوٹی کے ایک رہنما کے بارے میں مشہور ہے کہ انھیں پوری صحت کے ساتھ آیت الکرسی بھی یاد نہیں لیکن وہ بلند آہنگ مگر بے مغز تقریر کی شہرت رکھتے ہیں۔ سراج الحق کے انتخاب سے جماعت اسلامی میں اجتہاد اور تجدید کی تحریک اپنے انجام کو پہنچی۔ سراج الحق، ایسے پختون قدامت پسند فکری گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو اسلام کی تشریح و تعبیر کے حوالے افغان طالبان اورملا محمد عمر مجاہد کے قریب ہیں۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اسلامی طرز زندگی اپنانے کی تحریک اُلٹے رُخ مڑ چکی ہے۔ سیاسی میدان میں اختلافات کی وجہ سے جماعت اسلامی شکست و ریخت کا شکار رہی۔

میدان سیاست میں داخل ہونے کے سوال پر سانحہ ماچھی گوٹھ برپا ہوا جس کے نتیجے میں چوٹی کے علماء جماعت اسلامی کو خیرآباد کہہ گئے تھے۔ بعد ازاں سلفی گروپ اور ڈاکٹر اسرار احمد بھی اصولی اختلافات پر ساتھ نہ نبھا سکے۔ تازہ ترین سانحہ جناب نعیم صدیقی کی قیادت میں تحریک اسلامی کے نام سے دھڑے کا قیام تھا لیکن اس کی بنیاد فکری مباحث اور نظریاتی اختلافات تھے لیکن جناب سراج الحق کے انتخاب کے بعد فکری اعتبار سے بھی جماعت اسلامی میں جاری کشمکش میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ مرحبا سراج الحق بھائی، خوش آمدید، آپ روایت شکن ثابت ہوئے، فتح آپ کو مبارک ہو لیکن آپ کو قدامت پسند، پختون طرزفکر کی بجائے روشن خیالی کو اپنانا ہوگا، ایسے اسلام کی نمایندگی کرنا ہوگی جو تمام جدید ضروریات سے ہم آہنگ ہوکر اپنے ماننے والے کے لیے کشادہ روی کا پیغام ہو۔
Load Next Story