نیو ایئر نائٹ نیویارک سے کراچی تک

نیویارک میں نیو ایئر نائٹ کے فنکشن کا جگمگاتا جلوہ تھا

hamdam.younus@gmail.com

یہ 31 دسمبر کی رات تھی رات ساڑھے 11 بجے کا وقت تھا سردی اپنے عروج پر تھی باہر کا ٹمپریچر مائنس 17 ہو گیا تھا اور اندر گھر میں ہیٹ چل رہی تھی، میں پاکستانی ٹی وی چینل پر خبریں دیکھ رہا تھا کہ اسی دوران اوپر کے پورشن سے بیگم صاحبہ نے آتے ہی کہا '' ارے بھئی! کب تک پاکستان کی خبریں دیکھو گے، بس بہت ہوگئی۔

اب امریکن چینل لگاؤ۔'' کچھ دیر بعد نیو ایئر نائٹ کے ہنگامے شروع ہوجائیں گے، نیویارک کے ٹائم اسکوائر پر لوگوں کا ہجوم بھی تو دیکھو۔ میں نے چینل بدل دیا ، اب ٹائم اسکوائر پر لوگوں کا ہجوم ہمارے سامنے تھا ، سخت سردی کے باوجود بے شمار لوگوں کی ایک بھیڑ تھی جو وہاں جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہی تھی۔

نیویارک میں نیو ایئر نائٹ کے فنکشن کا جگمگاتا جلوہ تھا ، میں اپنی آنکھیں بند کیے ماضی کی طرف چلا گیا تھا ، جب کہ میں گزشتہ بیس سال سے نیویارک کی یہ تقریب دیکھتا رہا ہوں۔ اسی دوران بیگم کی آواز آئی '' ارے ! کیا سو رہے ہو، آنکھیں کیوں بند ہیں؟'' میں نے بند آنکھیں کھول کر بیگم سے کہا '' میں کچھ دیر کے لیے نیویارک سے کراچی چلا گیا تھا اور وہاں کی نیو ایئر نائٹ کی روشنیوں ، ہنگاموں اور موسیقی کی محفلوں کو دیکھ رہا تھا۔''

میری بات سن کر بیگم نے بے زاری سے کہا ، بیس سال سے امریکا میں رہ رہے ہو اور اب بھی خواب کراچی کے ہی دیکھتے رہتے ہو۔

یہ ماضی کے خواب دیکھنا چھوڑ دو، اور بھول جاؤ اب کراچی کو۔'' میں نے یہ سن کر بیگم کو تو کوئی جواب نہیں دیا مگر اپنے آپ سے یہ کہا بھلا کیسے بھول جاؤں میں کراچی کو، کراچی کی محفلوں کو کراچی کے ہنگاموں اور رونقوں کو۔ میں کیسے فراموش کردوں وہ فنکشن جہاں لیجنڈ غزل سنگر مہدی حسن جب فنکشن میں آتے تھے اور ان کی گاڑی کے قریب اس وقت کے ڈپٹی کمشنر بڑی عقیدت سے مہدی حسن کو خوش آمدید کہتے تھے اور پھر وہ خود ہی ان کا ہارمونیم گاڑی سے نکال کر اپنے کسی ساتھی کو دے کر مہدی حسن کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے ہال کی طرف جاتے تھے، کہیں گلوکار احمد رشدی ، ایس بی جون اور کہیں منی بیگم نیو ایئر نائٹ کی رونق بنی ہوتی تھیں۔

کہیں نوجوان گلوکار اخلاق احمد ، تحسین جاوید اور جمال اکبر محفل میں اپنی آواز کا جادو جگا رہے ہوتے تھے اور نیو ایئر نائٹ کے مختلف فنکشنوں میں، معین اختر، عمر شریف، ملک انوکھا، فرید خان، نرالا، نئے سال کی خوشی میں مختلف محفلوں کو زعفران زار بنانے میں پیش پیش رہتے تھے اور نیو ایئر نائٹ کی ایک رات میں سارے کراچی میں بے شمار فنکشنوں میں کراچی کے فنکار باری باری ادھر سے اُدھر جاتے رہتے تھے جب کہ کراچی کے بہت سے ہوٹلوں کے علاوہ بے شمار دوستوں کے گھروں میں نجی موسیقی کی محفلیں بھی بڑے شان دار انداز سے سجائی جاتی تھیں۔ کھانے پینے کے زبردست انتظام ہوا کرتے تھے۔

انھی تقریبوں میں سے ایک یادگار تقریب کا تذکرہ اور اس تقریب کی یادیں میں اپنے قارئین سے شیئر کر رہا ہوں، ڈاکٹر جاوید عالم کے گھر کی نیو ایئر نائٹ کی محفل تھی۔ ڈاکٹر جاوید عالم عباسی شہید اسپتال کے پہلے ایم ایس تھے اور وہ موسیقی کے نہ صرف خود دل دادہ تھے بلکہ ان کی بیگم صاحبہ مسز جاوید عالم بھی موسیقی سے بڑا گہرا شغف رکھتی تھیں۔

وہ میرے دیرینہ دوست اور کالج کے زمانے کے کلاس فیلو استاد امیر احمد خان سے باقاعدہ موسیقی سیکھتی بھی تھیں۔ ان کی آواز بھی اچھی تھی اور وہ خود بھی ایک دل کش اور باوقار شخصیت کی مالک تھیں۔ ان کا گھر کلفٹن جاتے ہوئے کولمبس ہوٹل کے قریب تھا اور ان کے گھر میں گاہے گاہے موسیقی کی محفلیں سجائی جاتی تھیں۔

جہاں مہدی حسن سے لے کر احمد رشدی تک سارے ہی نام ور فنکار ان کے گھر کی محفلوں میں بڑی خوش دلی سے شریک ہوتے تھے۔ لاہور کی فلم انڈسٹری میں بارہ سال گزارنے کے بعد میں جب واپس کراچی لوٹا تو وہ دسمبر کا مہینہ تھا اور ڈاکٹر جاوید عالم کے گھر بارہ سال کے بعد یہ میری پہلی نیو ایئر نائٹ کی تقریب تھی جس میں بہ طور مہمان اعزاز شریک ہوا تھا۔


ڈاکٹر جاوید عالم اور ان کی بیگم نے مجھے اور میری بیگم کو پھولوں کے گل دستے پیش کیے تھے۔ ان کے گھر میں کافی تعداد میں مہمان موجود تھے اور مختلف فنکاروں کی آمد بھی جاری تھی۔ استاد امیر احمد ان کے گھر کی تقریب کے سربراہ تھے۔

اب تک معین اختر، ریڈیو کے سنگر جاوید اختر، وزیر احمد خان، نرالا، ملک انوکھا اور فرید خان جیسے مشہور مزاحیہ فنکاروں نے ڈاکٹر جاوید عالم کے گھر کی تقریب کو رونق بخشی تھی۔ رات 12 بجے کے بعد پہلے تو نیو ایئر نائٹ کا خوب شور شرابہ ہوا، پھر اس کے بعد محفل موسیقی کا آغاز ہوا، سب سے پہلے میزبان ڈاکٹر جاوید عالم نے کے ایل سہگل کا گیت سنایا:

جب دل ہی ٹوٹ گیا

بیگم جاوید نے گیت کے اختتام پر کہا، ڈاکٹر صاحب! اب آپ یہ گیت گانا چھوڑ دیں، کوئی دوسرا گانا گایا کریں۔ یہ دل ٹوٹنے کی باتیں ہمیں بالکل پسند نہیں ہیں۔ ڈاکٹر جاوید نے پھر ایک غزل سنائی، ان کے بعد ان کی بیگم مسز جاوید نے دو غزلیں سنائیں، ان کے استاد امیر احمد خان نے بیگم جاوید کے ساتھ ہارمونیم پلے کیا۔

پھر یکے بعد دیگرے فنکار آتے جاتے رہے اور گیت غزلیں سناتے رہے اور مزاحیہ آرٹسٹ بھی خوب اپنا رنگ جماتے رہے۔

اس تقریب میں استاد وزیر احمد خان نے پہلی بار ایک نوجوان سنگر کو پیش کیا۔ وہ نوجوان تحسین جاوید تھا۔ اس نے کئی گیت سنائے اور پھر ایک بلوچی گیت سنایا، وش ملے۔ جسے بہت پسند کیا گیا۔ پھر معین اختر کے بعد باری باری مزاحیہ آرٹسٹ آتے رہے اور محفل میں مسکراہٹوں کے پھول بکھیرتے رہے۔ اس تقریب میں نوجوان گلوکار اخلاق احمد اور جمال اکبر کو بھی بڑا پسند کیا گیا تھا اور پھر کافی رات گئے احمد رشدی کی آمد ہوئی۔

پھر سے محفل میں ایک جان پڑ گئی۔ احمد رشدی بولے، بھائی! میں چھ فنکشن نمٹا کر آیا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کے گھر کی تقریب بھی میرے لیے بڑی ضروری تھی۔ پھر احمد رشدی نے اپنے گیتوں سے خوب محفل کو گرمایا اور آخر میں استاد امیر احمد خان نے نیم کلاسیکل گیتوں کے ساتھ دو غزلیں سنا کر فجر کی اذان کے قریب پروگرام کا اختتام کیا۔ پھر جتنا عرصہ میں کراچی میں رہا نیو ایئر کی محفلوں کے مزے لوٹتا رہا۔

ہاکی کے مشہور کھلاڑی اور سابقہ ٹیم منیجر عبدالوحید خان اور ان کے چھوٹے بھائی سعید کاشانی کے گھر بھی ہر سال نیو ایئرکی خوشی میں محفلیں ہوا کرتی تھیں۔ کراچی کے تمام نام ور فنکار ان محفلوں میں شریک ہوتے تھے اور خاص طور پر منی بیگم کو بھی بڑی دلچسپی سے سنا جاتا تھا۔ عبدالوحید خان کے گھر کی محفلوں میں شہر کی بہت سی معزز شخصیات اور کھیل کی دنیا کے نام ور کھلاڑی بھی شریک ہوتے تھے۔ کراچی کی باتیں، یادیں تو اتنی ہیں کہ نکلتی چلی جا رہی ہیں۔ ڈپلکس بیوٹی پارلر کی روح رواں مسرت مصباح کا بھی پاکستان میں بڑا نام ہے۔

مصباح صاحبہ کو بھی موسیقی کا بڑا شوق تھا۔ وہ بھی اپنے گھر کی محفلوں میں اپنی گائیکی کا مظاہرہ کرتی رہتی تھیں۔ انھوں نے استاد امیر احمد خان سے کچھ عرصہ موسیقی کی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ ان کی آواز بھی اچھی تھی، وہ کافی سریلی آواز کی مالک رہی ہیں۔ وہ کبھی کبھی کراچی ٹیلی وژن کے موسیقی کے پروگرام میں بھی حصہ لیا کرتی تھیں۔

بھلا کراچی کو میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ کراچی میں میرا بچپن بیتا، میری جوانی کا عرصہ گزرا، میں نے کراچی میں لکھنا شروع کیا، پھر کراچی سے بارہ سال کا بن باس لے کر لاہور گیا اور وہاں کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہا۔ اور اب میری پانچ کتابیں ''یادیں باتیں، فلم نگر'' کے عنوان سے منظر عام پر آچکی ہیں۔ کراچی سے پھر عازم امریکا ہوا اور گزشتہ بیس سال سے امریکا میں سکونت پذیر ہوں۔ اب امریکا کا شہری ہوں ، مگر اب بھی جب رات کو بستر پر لیٹتا ہوں تو میری آنکھوں میں خواب کراچی ہی کے آتے ہیں۔
Load Next Story