قاضی حسین احمد کا دسواں یوم وفات

قاضی حسین احمدؒ نے ملک و ملت کے لیے شاندار خدمات انجام دی ہیں جن کا ایک زمانہ معترف ہے۔

قاضی حسین احمدؒ نے ملک و ملت کے لیے شاندار خدمات انجام دی ہیں جن کا ایک زمانہ معترف ہے۔

سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین کو ہم سے بچھڑے دس سال ہوگئے ہیں۔

وہ5اور6 جنوری 2013 ءکی درمیانی رات کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ قاضی حسین احمدؒ نے ملک و ملت کے لیے شاندار خدمات انجام دی ہیں جن کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ان کی وفات پر ملک و بیرون ملک جس طرح صدمے اور افسوس کا اظہار کیا گیا اور ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

تفصیلات کے مطابق قاضی حسین احمد 1938 میں ضلع نوشہرہ کے گاؤں زیارت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے، ان کے والد مولانا قاضی محمد عبدالرب ایک ممتاز عالم دین تھے، جو اپنے علمی رسوخ اور سیاسی بصیرت کے باعث جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد کے صدر چُنے گئے تھے۔

قاضی حسین احمد بھی اپنے بھائیوں کے ہمراہ اسلامی جمعیت طلبہ کی سرگرمیوں میں شریک ہونے لگے، لٹریچر کا مطالعہ کیا اور یوں جمعیت سے وابستہ ہوئے- انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والد مولانا قاضی محمد عبدالرب سے حاصل کی، پھر پشاور کے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کی اور پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، بعد از تعلیم وہ سیدو شریف میں جہانزیب کالج میں بحیثیت لیکچرار تعینات ہوئے اور وہاں 3 برس تک پڑھاتے رہے۔جماعت اسلامی کی سرگرمیوں اور اپنے فطری رحجان کے باعث وہ ملازمت جاری نہ رکھ سکے اور پشاور میں اپنا کاروبار شروع کر دیا، جلد ہی وہ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نائب صدر منتخب ہوئے ۔

دوران تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان میں شامل رہنے کے بعد قاضی حسین 1970 میں جماعت اسلامی کے باقاعدہ رکن بنے۔جماعت اسلامی پشاور کے امیر رہنے کے بعد قاضی حسین احمد کو صوبہ سرحد کی امارت کی ذمہ داری سونپی گئی۔وہ 1978 میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل بنے اور 1987 میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب کر لیے گئے، اس کے بعد وہ چار مرتبہ مزید (1999، 1994، 1992، 2004) امیر منتخب ہوئے-قاضی حسین احمد 1985 میں 6 سال کے لیے سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے،1992 میں وہ دوبارہ سینیٹرمنتخب ہوئے، تاہم انہوں نے حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے بعد ازاں سینیٹ سے استعفٰی دے دیا۔2002 کے عام انتخابات میں امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین قومی اسمبلی کے 2 حلقوں سے رکن منتخب ہوئے۔


قاضی حسین احمد ؒ اسلاف کی ایک جیتی جاگتی تصویر اور نشانی تھے۔ان کے اندرامت کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا وہ بلاشبہ اتحاد امت کے سب سے بڑے داعی تھے، مسلمانوں کو قرآن و سنت پر جمع کرنے کے لئے ہمیشہ بے چین اورمتحرک رہتے۔ صاف گو اتنے کہ ان کے دل میں جو بات ہوتی تھی وہی زبان پر ہوتی اورا گرکبھی زبان سے نہ بھی کہتے تو ان کے چہرے پر وہ بات لکھی ہوئی پڑھی جاسکتی تھی۔

ملک میں شیعہ اور سنی فسادات پر قاضی صاحب بہت مضطرب اور پریشان رہتے،انہوں نے اس آگ کو بجھانے میں پانی کا کردار ادا کیا،کوئٹہ میں امام بارگاہ پر حملہ ہواتو وہاں پہنچ کر انہوں نے دشمن کو پیغام دیا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کیوں ہورہا ہے؟، ہم سب ایک ہیں اور دشمن کی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔قاضی حسین احمدؒ ایک جہد مسلسل کا نام ہے وہ پارے کی طرح ہر وقت حرکت میں رہنے والی شخصیت تھے۔

جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف کے مطابق قاضی حسین احمدؒ ایک روایتی سیاستدان نہیں تھے بلکہ وہ ایک کارکن کے طور پر جماعت اسلامی میں آئے اور نا صرف جماعت اسلامی بلکہ امت کے قائد کے طور پر اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔قاضی صاحب علمی دنیا سے تعلق رکھتے تھے،بنیادی طور پر وہ جغرافیہ کے پروفیسر تھے اور سیدو شریف کالج سوات میں پڑھاتے رہے۔

اس لئے آخری لمحہ تک ان کا انداز ایک معلم اور مربی کا رہا۔قاضی حسین احمد ؒ نے سید مودودی ؒ کا لٹریچر نثر میں پڑھا تھا مگر اس کا اظہار وہ علامہ اقبال ؒ کے اشعار میں کرتے تھے۔علامہ اقبالؒ کا اردو اور فارسی کلام انہیں ازبر تھا خاص طور پر فارسی کلام پر تو انہیں ایسی دسترس حاصل تھی کہ اپنے خطاب اور تقریر میں اشعار پڑھتے تو ایسا لگتا کہ حکیم الامت ؒ نے یہ شعر دراصل کہا ہی اس موقع کیلئے تھا۔

قاضی صاحب ؒ کوئی بات بھی اپنے دل میں چھپا کر نہیں رکھتے تھے میں محسوس کرتا ہوں کہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے زیادہ روشن تھا۔اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے والے انسان تھے، اپنے بعض سیاسی فیصلوں کے بارے میں برملا اظہارکرتے تھے،2008کے انتخابات کے بائیکاٹ کے حوالے سے ان کا اعتراف تھا کہ ہمیں الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے تھا۔

جب قاضی حسین احمد ؒ امیر جماعت بنے میں ان دنوں صوبہ سرحد کا اسلامی جمعیت طلباء کا ناظم تھا اور بعد میں 88میں جمعیت کا ناظم اعلیٰ منتخب ہوا۔ہم پشاور یونیورسٹی میں ہوتے تھے قاضی صاحب جب بھی پشاور آتے ہم فجر کی نماز ان کی امامت میں پڑھنے کیلئے ان کے گھر جاتے تھے اور صبح کی واک میں ان سے مشاورت کرتے تھے-
Load Next Story