چین کا زوال و عروج
اسٹالن کی سرد مہری کے باوجود ماؤ نے یہ فیصلہ کیا کہ چین کی تعمیر نو کے لیے روسی امداد حاصل کرنا ضروری ہے
تاریخ کے موضوعات پر لکھی جانے والی کتابوں میں بادشاہوں اور امراء کے کارنامے اور جنگوں کے واقعات پر شایع ہوتے تھے۔
گزشتہ صدی میں عوامی تاریخ Peoples History کا تصور آیا۔ عوامی تاریخ سے مراد عام لوگوں کی تاریخ ہے۔ عوامی تاریخ میں غریبوں اور پسماندہ طبقات کی تاریخ بیان کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی 21 اپریل 1941 کو ہندوستان کی ریاست راجستھان ، ٹونک میں پیدا ہوئے۔ ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد ڈاکٹر مبارک علی کا خاندان 1952 میں حیدرآباد سندھ میں آباد ہوا۔ ڈاکٹر مبارک علی نے 1962 میں سندھ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں اول پوزیشن حاصل کی ، وہ سندھ یونیورسٹی میں لیکچرار مقرر ہوئے۔
ڈاکٹر مبارک علی پی ایچ ڈی کے حصول کے لیے 1972 میں برطانیہ اور وہاں سے جرمنی چلے گئے۔ انھوں نے جرمنی سے پی ایچ ڈی کیا، ڈاکٹر مبارک علی واپس پاکستان آگئے۔ اس وقت یونیورسٹی کے وائس چانسلر عظیم شاعر شیخ ایاز تھے۔
ڈاکٹر مبارک کو سندھ یونیورسٹی میں دوبارہ تدریس کے لیے مشکل مراحل سے گزرنا پڑا۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب سندھ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔
اردو زبان میں تاریخ پر روایتی انداز میں کتابیں تحریر کی جاتی تھیں جن میں بادشاہوں کی داستانیں تحریر کی جاتیں۔ ان کتابوں میں بادشاہوں اور حملہ آوروں کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا اور تاریخی حقائق یا تو حذف کر دیے جاتے یا ان میں ملاوٹ کی جاتی۔ ڈاکٹر مبارک انگریزی اور اردو زبان پر مکمل دسترس رکھتے ہیں مگر انھوں نے اردو زبان میں عوامی تاریخ لکھنے کی روایت ڈالی۔ شروع میں کوئی پبلشر ڈاکٹر صاحب کی کتاب کو اہمیت دینے کو تیار نہیں تھا۔
ڈاکٹر مبارک نے اپنی کتابوں کی کتابت بھی خود ہی کی۔ ڈاکٹر مبارک علی نے قبل از وقت 1988میں سندھ یونیورسٹی سے استعفیٰ دیا اور لاہور چلے گئے مگر پنجاب میں کسی یونیورسٹی میں ان کو باقاعدہ ملازمت نہ ملی۔
ڈاکٹر مبارک علی کی اب تک 60کے قریب کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے علیل ہیں۔ ان کی آنکھوں کی بینائی انتہائی کم ہے مگر ڈاکٹر مبارک علی کا جوش و جذبہ کم نہ ہوا ہے۔
گزشتہ سال بھی ان کی دو کتابیں شایع ہوئیں ، ان میں سے ایک کتاب کا عنوان '' چین کا زوال و عروج'' ہے۔ اس کتاب میں چین کا تاریخی پس منظر بیان کیا گیا ہے۔ جدید چین کے بانی ماؤزے تنگ کی زندگی کے اہم واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی نے اپنے دیباچہ میں لکھا کہ بیجنگ کمپنی کی جانب سے Profrichard Braun نے Fall and rise of China پر جو لیکچر دیے ہیں یہاں ان کا Review پیش کیا جا رہا ہے۔ چین کے بارے میں جاننا ہمارے لیے اس لیے ضروری ہے کہ اس سے ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں۔ اس کتاب میں '' بغاوت '' کے عنوان سے مصنف نے لکھا ہے کہ چوتھی صدی کے ایک مفکر جوکنفیوشس کا پیروکار تھا۔
اس کا فلسفہ تھا کہ اگر حکمران لوگوں کے مسائل حل نہ کر پائے اور ریاست کے ذرایع کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرے تو اس صورت میں بغاوت کرنا جائز ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ چین میں کسانوں کی برابر بغاوتیں ہوتی رہیں۔
اس لیے اندازہ ہوتا ہے کہ چینی عوام مسلسل ظلم کو برداشت نہیں کرتے اور بغاوتوں کے ذریعہ پرانے حکمرانوں کی جگہ نئے حکمرانوں کو اقتدار میں لاتے تھے۔ کنفیوشس کی اخلاقیات نے چین کے معاشرے کی روزمرہ زندگی پر گہرا اثر ڈالا ۔ اس کتاب کے دوسرے باب کا عنوان ''چائنہ کی شان و شوکت (600 سے 1700) '' ہے۔
اس باب میں مصنف نے لکھا ہے کہ چائنہ کے بارے میں نپولین نے کہا تھا کہ ایک دیوہیکل قوم ہے جو سو رہی ہے اسے سونے دو ، اگر وہ بیدار ہوگئی تو دنیا میں تبدیلی کا باعث ہوگی۔ چین قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے جس نے اپنی چار دیواری میں رہتے ہوئے تہذیبی طور پر ترقی کی۔
کتاب کے ایک اور باب کا عنوان ''ریپبلک کا تجربہ (1927 سے 1937) '' تک کا ہے۔ اس باب میں مصنف نے لکھا ہے کہ چین کی صورتحال کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے سے تبدیل ہوگئی۔ ماؤزے تنگ نے اپنے تسلط شدہ علاقہ میں ایک نیا سیاسی تجربہ کردیا تھا جس کو ریڈ آرمی اور کسانوں کے درمیان انضمام قرار دیا گیا۔
مصنف نے مزید لکھا ہے کہ جاپان سیاسی اور معاشی طور پر ابھر رہا تھا۔ 1972میں جب جاپان کا وزیر اعظم تعلقات کی بہتری کے لیے چین آیا تو اس نے چین کے وزیر اعظم چو این لائی سے معافی مانگتے ہوئے جاپان کے چائنہ پر حملہ کرنے پر افسوس کیا۔
اس پر چو این لائی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ '' آپ کو معافی کی کوئی ضرورت نہیں، اگر جاپان حملہ نہیں کرتا تو ہم آج بھی غاروں میں رہ رہے ہوتے۔'' یہ حقیقت ہے کہ جاپان کے حملہ نے کمیونسٹ پارٹی کی پوزیشن کو مضبوط کرنے میں حصہ لیا۔ 1924 سے پارٹی بحرانوں کا شکار تھی لیکن جاپانی حملہ کے نتیجہ میں جو تباہی اور بربادی آئی اس نے چین کے عوام کو متحد کیا اور اسی کے نتیجہ میں نیشنلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیوں کو متحدہ محاذ بنانا پڑا۔
کتاب کے ایک اور باب کا موضوع ''چینی عوام کی آزادی'' ہے۔ اس باب میں تحریر کیا گیا ہے کہ چائنہ کی انقلابی حکومت کو سب سے پہلے جو دشواری پیش آئی وہ یہ تھی کہ خانہ جنگی کی وجہ سے معاشی حالت تباہ ہوچکی تھی کہ کرنسی کی کوئی وقعت نہیں رہی تھی۔
مہنگائی بہت بڑھ گئی تھی۔ نیشنلسٹ حکومت کے دوران اس کی فوج اور عہدیداروں نے شہروں کو لوٹ کھسوٹ کے ذریعہ تباہ و برباد کردیا تھا۔
چینی کمیونسٹ پارٹی کا تجربہ شہری آبادیوں کے بجائے دیہات کے کسانوں سے زیادہ تھا۔ اس لیے سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے۔
چینی عوام آزاد تو ہوگئے مگر ان کو آپس میں کیسے جوڑا جائے۔ اس مرحلہ میں ماؤ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جن مسائل کا علم نہیں ہے اس کو حاصل کیا جائے۔ معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے روسی مدد کی ضرورت تھی۔
اسٹالن کی سرد مہری کے باوجود ماؤ نے یہ فیصلہ کیا کہ چین کی تعمیر نو کے لیے روسی امداد حاصل کرنا ضروری ہے۔کتاب کے آخری باب کا عنوان ''طوفان تھم گیا (1968 سے 1969)'' تک ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ Cultural Revolution کی وجہ سے چین میں جو انتشار پھیلا اس انتشار کو پھیلانے میں ماؤ کا بڑا کردار تھا، انھوں نے Red Guard کو ہدایات دی تھیں کہ ان تمام عناصر تک جو سرمایہ داری کے حامی تھے ان کا خاتمہ کریں۔
اس تمام عرصہ میں ماؤ منظر نامہ سے غائب تھے اور تنہائی کا شکار تھے اورکسی سے نہیں ملتے تھے ، سوائے اپنی اہلیہ کے جو انقلابی رہنما بن گئی تھیں۔
کلچرل انقلاب کے نتیجہ میں چین کی سوسائٹی میں گہرے اثرات ہوئے، خانہ جنگی اور باہمی لڑائی میں کئی لاکھ افراد مارے گئے۔
کمیونسٹ پارٹی بھی کئی حصوں میں بٹ گئی۔ اس تمام صورتحال کو دوبارہ سے درست کرنا بڑا مشکل کام تھا۔ کتاب کے آخری حصہ میں بتایا گیا ہے کہ چینی انقلاب کی کامیابی میں ماؤ کی دور رسی کا بڑا دخل ہے۔
انقلاب کے بعد ماؤ نے اصلاحات کی تجاویز کو منظور نہیں کیا اور زور دیا کہ پرانے نظام کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔ ماؤ کے جانشینوں کو جو کامیابی ہوئی ، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے راستہ میں کوئی فرسودہ روایات نہیں تھیں ۔ Dengxiaoping نے چین کے سوشل ازم کو بتدریج سرمایہ کاری میں تبدیل کر کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔
ڈاکٹر مبارک کی اس کتاب سے چین کے بارے میں کئی نئی معلومات ملتی ہیں جو اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے خاصی اہم ہیں۔ یہ کتاب تاریخی پبلی کیشنز لاہور نے شایع کی ہے۔
گزشتہ صدی میں عوامی تاریخ Peoples History کا تصور آیا۔ عوامی تاریخ سے مراد عام لوگوں کی تاریخ ہے۔ عوامی تاریخ میں غریبوں اور پسماندہ طبقات کی تاریخ بیان کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی 21 اپریل 1941 کو ہندوستان کی ریاست راجستھان ، ٹونک میں پیدا ہوئے۔ ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد ڈاکٹر مبارک علی کا خاندان 1952 میں حیدرآباد سندھ میں آباد ہوا۔ ڈاکٹر مبارک علی نے 1962 میں سندھ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں اول پوزیشن حاصل کی ، وہ سندھ یونیورسٹی میں لیکچرار مقرر ہوئے۔
ڈاکٹر مبارک علی پی ایچ ڈی کے حصول کے لیے 1972 میں برطانیہ اور وہاں سے جرمنی چلے گئے۔ انھوں نے جرمنی سے پی ایچ ڈی کیا، ڈاکٹر مبارک علی واپس پاکستان آگئے۔ اس وقت یونیورسٹی کے وائس چانسلر عظیم شاعر شیخ ایاز تھے۔
ڈاکٹر مبارک کو سندھ یونیورسٹی میں دوبارہ تدریس کے لیے مشکل مراحل سے گزرنا پڑا۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب سندھ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔
اردو زبان میں تاریخ پر روایتی انداز میں کتابیں تحریر کی جاتی تھیں جن میں بادشاہوں کی داستانیں تحریر کی جاتیں۔ ان کتابوں میں بادشاہوں اور حملہ آوروں کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا اور تاریخی حقائق یا تو حذف کر دیے جاتے یا ان میں ملاوٹ کی جاتی۔ ڈاکٹر مبارک انگریزی اور اردو زبان پر مکمل دسترس رکھتے ہیں مگر انھوں نے اردو زبان میں عوامی تاریخ لکھنے کی روایت ڈالی۔ شروع میں کوئی پبلشر ڈاکٹر صاحب کی کتاب کو اہمیت دینے کو تیار نہیں تھا۔
ڈاکٹر مبارک نے اپنی کتابوں کی کتابت بھی خود ہی کی۔ ڈاکٹر مبارک علی نے قبل از وقت 1988میں سندھ یونیورسٹی سے استعفیٰ دیا اور لاہور چلے گئے مگر پنجاب میں کسی یونیورسٹی میں ان کو باقاعدہ ملازمت نہ ملی۔
ڈاکٹر مبارک علی کی اب تک 60کے قریب کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے علیل ہیں۔ ان کی آنکھوں کی بینائی انتہائی کم ہے مگر ڈاکٹر مبارک علی کا جوش و جذبہ کم نہ ہوا ہے۔
گزشتہ سال بھی ان کی دو کتابیں شایع ہوئیں ، ان میں سے ایک کتاب کا عنوان '' چین کا زوال و عروج'' ہے۔ اس کتاب میں چین کا تاریخی پس منظر بیان کیا گیا ہے۔ جدید چین کے بانی ماؤزے تنگ کی زندگی کے اہم واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی نے اپنے دیباچہ میں لکھا کہ بیجنگ کمپنی کی جانب سے Profrichard Braun نے Fall and rise of China پر جو لیکچر دیے ہیں یہاں ان کا Review پیش کیا جا رہا ہے۔ چین کے بارے میں جاننا ہمارے لیے اس لیے ضروری ہے کہ اس سے ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں۔ اس کتاب میں '' بغاوت '' کے عنوان سے مصنف نے لکھا ہے کہ چوتھی صدی کے ایک مفکر جوکنفیوشس کا پیروکار تھا۔
اس کا فلسفہ تھا کہ اگر حکمران لوگوں کے مسائل حل نہ کر پائے اور ریاست کے ذرایع کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرے تو اس صورت میں بغاوت کرنا جائز ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ چین میں کسانوں کی برابر بغاوتیں ہوتی رہیں۔
اس لیے اندازہ ہوتا ہے کہ چینی عوام مسلسل ظلم کو برداشت نہیں کرتے اور بغاوتوں کے ذریعہ پرانے حکمرانوں کی جگہ نئے حکمرانوں کو اقتدار میں لاتے تھے۔ کنفیوشس کی اخلاقیات نے چین کے معاشرے کی روزمرہ زندگی پر گہرا اثر ڈالا ۔ اس کتاب کے دوسرے باب کا عنوان ''چائنہ کی شان و شوکت (600 سے 1700) '' ہے۔
اس باب میں مصنف نے لکھا ہے کہ چائنہ کے بارے میں نپولین نے کہا تھا کہ ایک دیوہیکل قوم ہے جو سو رہی ہے اسے سونے دو ، اگر وہ بیدار ہوگئی تو دنیا میں تبدیلی کا باعث ہوگی۔ چین قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے جس نے اپنی چار دیواری میں رہتے ہوئے تہذیبی طور پر ترقی کی۔
کتاب کے ایک اور باب کا عنوان ''ریپبلک کا تجربہ (1927 سے 1937) '' تک کا ہے۔ اس باب میں مصنف نے لکھا ہے کہ چین کی صورتحال کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے سے تبدیل ہوگئی۔ ماؤزے تنگ نے اپنے تسلط شدہ علاقہ میں ایک نیا سیاسی تجربہ کردیا تھا جس کو ریڈ آرمی اور کسانوں کے درمیان انضمام قرار دیا گیا۔
مصنف نے مزید لکھا ہے کہ جاپان سیاسی اور معاشی طور پر ابھر رہا تھا۔ 1972میں جب جاپان کا وزیر اعظم تعلقات کی بہتری کے لیے چین آیا تو اس نے چین کے وزیر اعظم چو این لائی سے معافی مانگتے ہوئے جاپان کے چائنہ پر حملہ کرنے پر افسوس کیا۔
اس پر چو این لائی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ '' آپ کو معافی کی کوئی ضرورت نہیں، اگر جاپان حملہ نہیں کرتا تو ہم آج بھی غاروں میں رہ رہے ہوتے۔'' یہ حقیقت ہے کہ جاپان کے حملہ نے کمیونسٹ پارٹی کی پوزیشن کو مضبوط کرنے میں حصہ لیا۔ 1924 سے پارٹی بحرانوں کا شکار تھی لیکن جاپانی حملہ کے نتیجہ میں جو تباہی اور بربادی آئی اس نے چین کے عوام کو متحد کیا اور اسی کے نتیجہ میں نیشنلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیوں کو متحدہ محاذ بنانا پڑا۔
کتاب کے ایک اور باب کا موضوع ''چینی عوام کی آزادی'' ہے۔ اس باب میں تحریر کیا گیا ہے کہ چائنہ کی انقلابی حکومت کو سب سے پہلے جو دشواری پیش آئی وہ یہ تھی کہ خانہ جنگی کی وجہ سے معاشی حالت تباہ ہوچکی تھی کہ کرنسی کی کوئی وقعت نہیں رہی تھی۔
مہنگائی بہت بڑھ گئی تھی۔ نیشنلسٹ حکومت کے دوران اس کی فوج اور عہدیداروں نے شہروں کو لوٹ کھسوٹ کے ذریعہ تباہ و برباد کردیا تھا۔
چینی کمیونسٹ پارٹی کا تجربہ شہری آبادیوں کے بجائے دیہات کے کسانوں سے زیادہ تھا۔ اس لیے سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے۔
چینی عوام آزاد تو ہوگئے مگر ان کو آپس میں کیسے جوڑا جائے۔ اس مرحلہ میں ماؤ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جن مسائل کا علم نہیں ہے اس کو حاصل کیا جائے۔ معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے روسی مدد کی ضرورت تھی۔
اسٹالن کی سرد مہری کے باوجود ماؤ نے یہ فیصلہ کیا کہ چین کی تعمیر نو کے لیے روسی امداد حاصل کرنا ضروری ہے۔کتاب کے آخری باب کا عنوان ''طوفان تھم گیا (1968 سے 1969)'' تک ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ Cultural Revolution کی وجہ سے چین میں جو انتشار پھیلا اس انتشار کو پھیلانے میں ماؤ کا بڑا کردار تھا، انھوں نے Red Guard کو ہدایات دی تھیں کہ ان تمام عناصر تک جو سرمایہ داری کے حامی تھے ان کا خاتمہ کریں۔
اس تمام عرصہ میں ماؤ منظر نامہ سے غائب تھے اور تنہائی کا شکار تھے اورکسی سے نہیں ملتے تھے ، سوائے اپنی اہلیہ کے جو انقلابی رہنما بن گئی تھیں۔
کلچرل انقلاب کے نتیجہ میں چین کی سوسائٹی میں گہرے اثرات ہوئے، خانہ جنگی اور باہمی لڑائی میں کئی لاکھ افراد مارے گئے۔
کمیونسٹ پارٹی بھی کئی حصوں میں بٹ گئی۔ اس تمام صورتحال کو دوبارہ سے درست کرنا بڑا مشکل کام تھا۔ کتاب کے آخری حصہ میں بتایا گیا ہے کہ چینی انقلاب کی کامیابی میں ماؤ کی دور رسی کا بڑا دخل ہے۔
انقلاب کے بعد ماؤ نے اصلاحات کی تجاویز کو منظور نہیں کیا اور زور دیا کہ پرانے نظام کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔ ماؤ کے جانشینوں کو جو کامیابی ہوئی ، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے راستہ میں کوئی فرسودہ روایات نہیں تھیں ۔ Dengxiaoping نے چین کے سوشل ازم کو بتدریج سرمایہ کاری میں تبدیل کر کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔
ڈاکٹر مبارک کی اس کتاب سے چین کے بارے میں کئی نئی معلومات ملتی ہیں جو اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے خاصی اہم ہیں۔ یہ کتاب تاریخی پبلی کیشنز لاہور نے شایع کی ہے۔