عمران خان کے سیاسی الزامات
عمران کو جواب نہ دینے کی پالیسی بنانا ہوگی۔ لڑائی کا ایک ہتھیار خاموشی بھی ہوتا ہے
آجکل عمران خان جنرل (ر) باجوہ کے خلاف مختلف قسم کے تند و تیز بیانات دے رہے ہیں ۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر جنرل (ر) باجوہ پر سیاسی حملے کر رہے ہیں۔
جواب میں جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ بے شک خود تو بات نہیں کر رہے لیکن وہ بالواسطہ طور پر عمران خان کے حملوں کا جواب دے رہے ہیں۔ ان کے چند ہمدرد جواب دے رہے ہیں۔ انھوں نے خود بھی چند صحافیوں سے آف کیمرہ بات کی ہے۔ایک دلچسپ سیاسی کشمکش جاری ہے۔
عمران خان ایک سیاسی لیڈر ہیں، ان کی سیاسی جماعت ہے اوران کے سیاسی کارکنوں کی بھی بڑی تعداد ہے،لہٰذاان کی مخالفانہ سیاسی بیان بازی جارحانہ دکھائی دے رہی ہے۔ ان کی جماعت اور ان کے حامی اس لڑائی میں ان کے ہم آواز نظر آتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم اور ایک مضبوط اپوزیشن لیڈر ہونے کے ناطے عمران خان کی میڈیا میں بھی ایک اہمیت ہے، ان کے بیانات کو وسیع کوریج ملتی ہے۔
ادھر جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ چونکہ ایک سیاسی لیڈر نہیں اور نہ وہ سیاسی میدان میں اترنے کا کوئی اشارہ دے رہے ہیں اس لیے ان کے پاس آپشنز محدود ہیں لہٰذا انھوں نے ملک کی جو خدمت کی ، اسے گراس روٹ لیول تک پہنچانے کے لیے ان کے پاس کوئی سیاسی فورم ہے نہ ورکرز اور حامی ہیں اس لیے وہ ایک حد تک ہی بات کرسکتے ہیں۔
چوہدری پرویز الٰہی اور ملک احمد خان سمیت ایسے چند لوگ بھی ایک حد تک ان کے حق میں بول سکے ہیں جب کہ عمران خان کے پاس آپشنز کھلے ہیں، وہ خود بھی بیانات دے رہے اور ان کی جماعت کے عہدیدار بھی جب کہ جنرل صاحب خاموش ہیں ، آف کیمرہ بات چیت کی اب وہ اہمیت نہیں رہی جو کیمرہ پر کی جانے والی گفتگو کی ہوتی ہے، ادھر عمران خان کیمرے پر آکر براہ راست حملہ کر رہے ہیں۔
پھر جنرلز کو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے ادارے کی جانب سے بھی ہر ایشو پر حمایت حاصل نہیں رہتی، اس لیے یہ ایک غیر سیاسی شخصیت اور ایک سیاسی جماعت کے درمیان جواب الجواب کا سلسلہ لگ رہا ہے،اس میں تنہا غیر سیاسی فرد کا کردار خاموش اور کمزور ہی نظرآرہا ہے۔
جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ نے چند صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں عمران خان کے بارے میں جو باتیں کی ہیں، اس کا وہ سیاسی اثر نہیں ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بات کر رہے ہیں، اگر وہ یہی باتیں پہلے کرتے تو زیادہ اہمیت ہوتی۔ شاید انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ریٹائر منٹ کے بعد عمران خان ان پر الزامات میں تیزی اور شدت لائیں گے۔ ویسے عمران خان نے تو ان کے دور ملازمت میں ہی ان کے خلاف ماحول بنانا شروع کر دیا تھا۔
انھوں نے گرائونڈ تیار کر لی تھی، اس لیے ایسا نہیں کہا جاسکتا کہ یہ حملہ کوئی اچانک ہوا ہے ۔شاید ان کا خیال ہو کہ ریٹائرمنٹ کے بعد عمران خان ان کے خلاف سیاسی الزامات کی شدت میں کمی لے آئیں گے اور یہ سب ماضی کے پردوں میں چھپتا چلا جائے گا، یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے عمران کے الزامات سے نبٹنے کی تیاری نہیں کی۔
میرا خیال ہے کہ جنرل صاحب کی خاموشی سے عمران خان کو حوصلہ ملا کہ وہ ان پر اپنی مرضی کے موقع پر سیاسی تنقید کر سکیں جب کہ جنرل صاحب نے عمران خان پر تنقید کرنے کے کئی بہترین مواقع ضایع کر دیے۔ اب وہ وقت واپس نہیں آسکتا ہے۔
جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے جو واقعات بتائے جا رہے ہیں، وہ تاریخ کی ایک کتاب تیار کرنے کے لیے تو اہم ہوسکتے ہیں لیکن موجود سیاسی جنگ میں ان کی اثر پذیری بہت محدود ہے۔ اگر عمران خان کو ان سے گلے ہیں تو پی ڈی ایم کو بھی گلے ہیں۔ اگر عمران خان کو یہ گلہ ہے کہ ان کی مرکزی حکومت گئی ہے تو پی ڈی ایم کو بھی پنجاب حکومت جانے کا دکھ ہے۔
جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے وقت خوشگوار سیاسی ماحول موجود نہیں تھا ۔اس ماحول کے اثرات اب بھی موجود ہیں۔عمران خان تو کھل کر اپنے شکوے بیان کررہے ہیں،جب کہ ان کی طرف سے بلواسطہ لیکن کم اثرپذیر جواب سامنے آرہے ہیں۔ اس سے بہتر تھا وہ خاموش ہی رہتے یا پھر کھل کر سامنے آئیں اور براہ راست عمران خان کو بے نقاب کریں۔
ان کے پاس جو بھی ہے اس کو ایک ایک کر کے فائر کرنے کی حکمت عملی کوئی اچھی نہیں۔ انھیں مکمل فائر کھولنا چاہیے ورنہ خاموش رہنا چاہیے۔ عمران خان بولتے ہیں تو بولتے رہیں ، انھیں نظرانداز کردیا جائے تو وہ مایوس ہوکر خاموش ہوجائیں گے۔ چوہدری پرویز الٰہی کے ذریعے عمران خان کو کنٹرول کرنے کی حکمت عملی بھی ناکام ہو گئی ہے۔
آخر کب تک چوہدری پرویز الٰہی جنرل صاحب کے لیے عمران خان سے لڑیں گے۔ ایک دفعہ ہو گیا دو دفعہ ہو گیا۔بس اب ختم ہو گیا۔ ملک احمد خان نے بھی اپنی سیاست کرنی ہے، انھیں پہلے ن لیگ کی پالیسی کو دیکھنا ہے۔ نواز شریف کی سوچ کو دیکھنا ہے، اس کے اندر رہتے ہوئے جنرل باجوہ کی جتنی مدد کر سکتے ہیں، وہی کرنی ہے۔
اگر جنرل باجوہ سیاسی الزامات کا عمران خان کو موثر جواب دینا چاہتے ہیں تو پوری تیار کرکے براہ راست سامنے آجائیں، عمران خان کو اپنے الزامات ثابت کرنے کے لیے انھیں عدالت لے کر جائیں۔ عمران خان کو بھی پتہ چلے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں اور ان کے الزامات کتنے سچ ہیں۔ اگر ایسا نہیں کرنا تو پھر لمبی خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔
عمران کو جواب نہ دینے کی پالیسی بنانا ہوگی۔ لڑائی کا ایک ہتھیار خاموشی بھی ہوتا ہے، مخالف اسی وقت بولتا ہے، جب اسے محسوس ہوتا ہو کہ اس کا تیر نشانے پر لگا ہے، اگر اسے جواب نہ ملے تو اس کا جوش کم پڑ جاتا ہے، جیسے اب عمران خان امریکی سازش اور خط کے ایشو پر بات نہیں کرتے کیونکہ امریکا اور ڈونلڈ لو خاموش رہے اور عمران خان کو پیغام دیے دیا کہ انھیں آپ کی کوئی پروا یا ضرورت نہیں ہے۔
جواب میں جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ بے شک خود تو بات نہیں کر رہے لیکن وہ بالواسطہ طور پر عمران خان کے حملوں کا جواب دے رہے ہیں۔ ان کے چند ہمدرد جواب دے رہے ہیں۔ انھوں نے خود بھی چند صحافیوں سے آف کیمرہ بات کی ہے۔ایک دلچسپ سیاسی کشمکش جاری ہے۔
عمران خان ایک سیاسی لیڈر ہیں، ان کی سیاسی جماعت ہے اوران کے سیاسی کارکنوں کی بھی بڑی تعداد ہے،لہٰذاان کی مخالفانہ سیاسی بیان بازی جارحانہ دکھائی دے رہی ہے۔ ان کی جماعت اور ان کے حامی اس لڑائی میں ان کے ہم آواز نظر آتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم اور ایک مضبوط اپوزیشن لیڈر ہونے کے ناطے عمران خان کی میڈیا میں بھی ایک اہمیت ہے، ان کے بیانات کو وسیع کوریج ملتی ہے۔
ادھر جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ چونکہ ایک سیاسی لیڈر نہیں اور نہ وہ سیاسی میدان میں اترنے کا کوئی اشارہ دے رہے ہیں اس لیے ان کے پاس آپشنز محدود ہیں لہٰذا انھوں نے ملک کی جو خدمت کی ، اسے گراس روٹ لیول تک پہنچانے کے لیے ان کے پاس کوئی سیاسی فورم ہے نہ ورکرز اور حامی ہیں اس لیے وہ ایک حد تک ہی بات کرسکتے ہیں۔
چوہدری پرویز الٰہی اور ملک احمد خان سمیت ایسے چند لوگ بھی ایک حد تک ان کے حق میں بول سکے ہیں جب کہ عمران خان کے پاس آپشنز کھلے ہیں، وہ خود بھی بیانات دے رہے اور ان کی جماعت کے عہدیدار بھی جب کہ جنرل صاحب خاموش ہیں ، آف کیمرہ بات چیت کی اب وہ اہمیت نہیں رہی جو کیمرہ پر کی جانے والی گفتگو کی ہوتی ہے، ادھر عمران خان کیمرے پر آکر براہ راست حملہ کر رہے ہیں۔
پھر جنرلز کو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے ادارے کی جانب سے بھی ہر ایشو پر حمایت حاصل نہیں رہتی، اس لیے یہ ایک غیر سیاسی شخصیت اور ایک سیاسی جماعت کے درمیان جواب الجواب کا سلسلہ لگ رہا ہے،اس میں تنہا غیر سیاسی فرد کا کردار خاموش اور کمزور ہی نظرآرہا ہے۔
جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ نے چند صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں عمران خان کے بارے میں جو باتیں کی ہیں، اس کا وہ سیاسی اثر نہیں ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بات کر رہے ہیں، اگر وہ یہی باتیں پہلے کرتے تو زیادہ اہمیت ہوتی۔ شاید انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ریٹائر منٹ کے بعد عمران خان ان پر الزامات میں تیزی اور شدت لائیں گے۔ ویسے عمران خان نے تو ان کے دور ملازمت میں ہی ان کے خلاف ماحول بنانا شروع کر دیا تھا۔
انھوں نے گرائونڈ تیار کر لی تھی، اس لیے ایسا نہیں کہا جاسکتا کہ یہ حملہ کوئی اچانک ہوا ہے ۔شاید ان کا خیال ہو کہ ریٹائرمنٹ کے بعد عمران خان ان کے خلاف سیاسی الزامات کی شدت میں کمی لے آئیں گے اور یہ سب ماضی کے پردوں میں چھپتا چلا جائے گا، یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے عمران کے الزامات سے نبٹنے کی تیاری نہیں کی۔
میرا خیال ہے کہ جنرل صاحب کی خاموشی سے عمران خان کو حوصلہ ملا کہ وہ ان پر اپنی مرضی کے موقع پر سیاسی تنقید کر سکیں جب کہ جنرل صاحب نے عمران خان پر تنقید کرنے کے کئی بہترین مواقع ضایع کر دیے۔ اب وہ وقت واپس نہیں آسکتا ہے۔
جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے جو واقعات بتائے جا رہے ہیں، وہ تاریخ کی ایک کتاب تیار کرنے کے لیے تو اہم ہوسکتے ہیں لیکن موجود سیاسی جنگ میں ان کی اثر پذیری بہت محدود ہے۔ اگر عمران خان کو ان سے گلے ہیں تو پی ڈی ایم کو بھی گلے ہیں۔ اگر عمران خان کو یہ گلہ ہے کہ ان کی مرکزی حکومت گئی ہے تو پی ڈی ایم کو بھی پنجاب حکومت جانے کا دکھ ہے۔
جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے وقت خوشگوار سیاسی ماحول موجود نہیں تھا ۔اس ماحول کے اثرات اب بھی موجود ہیں۔عمران خان تو کھل کر اپنے شکوے بیان کررہے ہیں،جب کہ ان کی طرف سے بلواسطہ لیکن کم اثرپذیر جواب سامنے آرہے ہیں۔ اس سے بہتر تھا وہ خاموش ہی رہتے یا پھر کھل کر سامنے آئیں اور براہ راست عمران خان کو بے نقاب کریں۔
ان کے پاس جو بھی ہے اس کو ایک ایک کر کے فائر کرنے کی حکمت عملی کوئی اچھی نہیں۔ انھیں مکمل فائر کھولنا چاہیے ورنہ خاموش رہنا چاہیے۔ عمران خان بولتے ہیں تو بولتے رہیں ، انھیں نظرانداز کردیا جائے تو وہ مایوس ہوکر خاموش ہوجائیں گے۔ چوہدری پرویز الٰہی کے ذریعے عمران خان کو کنٹرول کرنے کی حکمت عملی بھی ناکام ہو گئی ہے۔
آخر کب تک چوہدری پرویز الٰہی جنرل صاحب کے لیے عمران خان سے لڑیں گے۔ ایک دفعہ ہو گیا دو دفعہ ہو گیا۔بس اب ختم ہو گیا۔ ملک احمد خان نے بھی اپنی سیاست کرنی ہے، انھیں پہلے ن لیگ کی پالیسی کو دیکھنا ہے۔ نواز شریف کی سوچ کو دیکھنا ہے، اس کے اندر رہتے ہوئے جنرل باجوہ کی جتنی مدد کر سکتے ہیں، وہی کرنی ہے۔
اگر جنرل باجوہ سیاسی الزامات کا عمران خان کو موثر جواب دینا چاہتے ہیں تو پوری تیار کرکے براہ راست سامنے آجائیں، عمران خان کو اپنے الزامات ثابت کرنے کے لیے انھیں عدالت لے کر جائیں۔ عمران خان کو بھی پتہ چلے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں اور ان کے الزامات کتنے سچ ہیں۔ اگر ایسا نہیں کرنا تو پھر لمبی خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔
عمران کو جواب نہ دینے کی پالیسی بنانا ہوگی۔ لڑائی کا ایک ہتھیار خاموشی بھی ہوتا ہے، مخالف اسی وقت بولتا ہے، جب اسے محسوس ہوتا ہو کہ اس کا تیر نشانے پر لگا ہے، اگر اسے جواب نہ ملے تو اس کا جوش کم پڑ جاتا ہے، جیسے اب عمران خان امریکی سازش اور خط کے ایشو پر بات نہیں کرتے کیونکہ امریکا اور ڈونلڈ لو خاموش رہے اور عمران خان کو پیغام دیے دیا کہ انھیں آپ کی کوئی پروا یا ضرورت نہیں ہے۔