ایک کمرے میں دو دو کلاسز کراچی میں سرکاری اسکول کی عمارت ٹھیکیدار نے کرائے پر دیدی
اسکول کے میدان پر بھی ٹھیکیدار کا ہی قبضہ ہے وہاں ٹرک، رکشہ اور دوسری سواریاں پارک کی جاتی ہیں
کراچی میں ٹھیکے دار نے سرکاری اسکول کی عمارت کو کرائے پر دے دیا جس کے باعث دو سرکاری اسکولوں کو ایک ہی عمارت میں منتقل کردیا گیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ کی عدم توجہی و غفلت کے سبب کراچی میں ایک ایسے سرکاری اسکول کا انکشاف ہوا ہے جہاں کلاس رومز پر مشتمل عمارت کو ٹھیکیدار نے کرائے داروں کے حوالے کردیا ہے جب کہ وہاں لگنے والے دو سرکاری اسکولوں کو ایک ہی عمارت میں منتقل کردیا گیا ہے.
سرکاری عمارت کو کرائے پر دئیے جانے کے سبب پرائمری اسکول میں ایک کمرے میں دو دو کلاسز لگائی جارہی ہیں جبکہ بعض کلاسز اسٹور روم میں ہوتی ہیں۔
نمائندہ ایکسپریس نیوز کا کہنا ہے کہ 21 ویں صدی میں پاکستان کے میٹروپولیٹن شہر میں کراچی کے طلبہ معیاری تعلیم کے حصول کے لیے دھکے کھا رہے ہیں یہ قصہ کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا بلاک 10 میں قائم ابراہیم علی بھائی اسکول کا ہے، جہاں اسکول کی ایک عمارت ٹھیکیدار کے تصرف میں ہے اور ایک پرانی عمارت میں بیک وقت دو سرکاری اسکول پرائمری و سیکنڈری اسکول چلائے جارہے ہیں۔
"ایکسپریس" نے جب ابراہیم علی بھائی گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول کے صدر معلم (ہیڈ ماسٹر) محمد خورشید سے اس سلسلے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ " ہم اس سلسلے میں رپورٹ بنا کر معاملے سے ٹاؤن آفیسر کو کئی بار آگاہ کرچکے ہیں۔
ٹھیکیدار کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ یہ عمارت تعمیر و مرمت کے لیے ٹھیکیدار کے حوالے کی گئی تھی، جسے اس نے کرائے پر چڑھا دیا ہے۔
ٹھیکیدار کا کہنا ہے کہ چونکہ محکمہ ورکس اینڈ سروسز نے اسے تعمیر و مرمت کے بعد ادائیگیاں روکی ہوئی ہیں اس لیے وہ بھی یہ عمارت محکمے کے حوالے نہیں کرے گا اور اب عمارت میں بالائی منزل پر کچھ خاندانوں کو لاکر آباد کردیا گیا ہے۔
دوسری جانب "ایکسپریس" نے وہاں موجود پرائمری اسکول عزیز آباد نمبر 10 کا رخ کیا تو وہاں ایک جماعت اسٹور روم میں لگائی گئی تھی اور طلبہ اسٹور روم میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہے تھے۔
وہاں موجود ایک خاتون استاد نے نمائندہ ایکسپریس کو بتایا کہ " یہاں پہلے نرسری اور کے جی کلاسز ایک ساتھ ایک ہی کمرے میں تھی لیکن چونکہ چھوٹے بچے بہت شور کرتے ہیں لہذا نرسری کو پانچویں جماعت کے ساتھ ملا دیا ہے جب کہ مزید کمرے نہ ہونے کے سبب پہلی اور دوسری جماعتیں ایک ہی کمرے میں اور تیسری و چوتھی ایک ساتھ لگائی جارہی ہے جبکہ اسکول کا دفتر بھی ایک چھوٹے سے کمرے میں ہے۔
ایک اور ٹیچر کا کہنا تھا کہ یہاں طلبہ کو پڑھانا محال ہے ایک ہی بلیک بورڈ ہوتا ہے جس میں سے آدھا ایک کلاس کی ٹیچر جبکہ باقی آدھا دوسری کلاس کی ٹیچر استعمال کرتی ہیں، طلبہ کی آوازیں ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں ہم دوسری جماعت کے بچے کو مخاطب کرتے ہیں تو پہلی جماعت والا بچہ ہماری جانب متوجہ ہوجاتا ہے، بعض اوقات طلبہ اپنی ٹیچر کہ تدریس چھوڑ کر اسی کمرے میں موجود دوسری ٹیچر کی تدریس سننے لگتے ہیں۔
مزید براں اسکول کے میدان پر بھی ٹھیکیدار کا ہی قبضہ ہے وہاں ٹرک، رکشہ اور دوسری سواریاں پارک کی جاتی ہیں۔
علاوہ ازیں "ایکسپریس" نے اس سلسلے میں ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن کراچی سیکنڈری اینڈ ہائر سیکنڈری فرناز ریاض سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی ایک خاتون افسر کو اسکول کا دورہ کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
فرناز ریاض کا کہنا تھا کہ ہم اس سلسلے میں اعلی حکام کا مطلع کررہے ہیں اور طلبہ کے لیے جلد از جلد جو ہوسکا کریں گے۔
دوسری جانب ڈائریکٹر پرائمری اسکول کراچی لبنی صلاح الدین سے رابطہ کیا تاہم وہ دفتر میں موجود نہیں تھیں اور موبائل پر رابطہ کرنے پر انھوں نے فون ریسیوو نہیں کیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ کی عدم توجہی و غفلت کے سبب کراچی میں ایک ایسے سرکاری اسکول کا انکشاف ہوا ہے جہاں کلاس رومز پر مشتمل عمارت کو ٹھیکیدار نے کرائے داروں کے حوالے کردیا ہے جب کہ وہاں لگنے والے دو سرکاری اسکولوں کو ایک ہی عمارت میں منتقل کردیا گیا ہے.
سرکاری عمارت کو کرائے پر دئیے جانے کے سبب پرائمری اسکول میں ایک کمرے میں دو دو کلاسز لگائی جارہی ہیں جبکہ بعض کلاسز اسٹور روم میں ہوتی ہیں۔
نمائندہ ایکسپریس نیوز کا کہنا ہے کہ 21 ویں صدی میں پاکستان کے میٹروپولیٹن شہر میں کراچی کے طلبہ معیاری تعلیم کے حصول کے لیے دھکے کھا رہے ہیں یہ قصہ کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا بلاک 10 میں قائم ابراہیم علی بھائی اسکول کا ہے، جہاں اسکول کی ایک عمارت ٹھیکیدار کے تصرف میں ہے اور ایک پرانی عمارت میں بیک وقت دو سرکاری اسکول پرائمری و سیکنڈری اسکول چلائے جارہے ہیں۔
"ایکسپریس" نے جب ابراہیم علی بھائی گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول کے صدر معلم (ہیڈ ماسٹر) محمد خورشید سے اس سلسلے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ " ہم اس سلسلے میں رپورٹ بنا کر معاملے سے ٹاؤن آفیسر کو کئی بار آگاہ کرچکے ہیں۔
ٹھیکیدار کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ یہ عمارت تعمیر و مرمت کے لیے ٹھیکیدار کے حوالے کی گئی تھی، جسے اس نے کرائے پر چڑھا دیا ہے۔
ٹھیکیدار کا کہنا ہے کہ چونکہ محکمہ ورکس اینڈ سروسز نے اسے تعمیر و مرمت کے بعد ادائیگیاں روکی ہوئی ہیں اس لیے وہ بھی یہ عمارت محکمے کے حوالے نہیں کرے گا اور اب عمارت میں بالائی منزل پر کچھ خاندانوں کو لاکر آباد کردیا گیا ہے۔
دوسری جانب "ایکسپریس" نے وہاں موجود پرائمری اسکول عزیز آباد نمبر 10 کا رخ کیا تو وہاں ایک جماعت اسٹور روم میں لگائی گئی تھی اور طلبہ اسٹور روم میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہے تھے۔
وہاں موجود ایک خاتون استاد نے نمائندہ ایکسپریس کو بتایا کہ " یہاں پہلے نرسری اور کے جی کلاسز ایک ساتھ ایک ہی کمرے میں تھی لیکن چونکہ چھوٹے بچے بہت شور کرتے ہیں لہذا نرسری کو پانچویں جماعت کے ساتھ ملا دیا ہے جب کہ مزید کمرے نہ ہونے کے سبب پہلی اور دوسری جماعتیں ایک ہی کمرے میں اور تیسری و چوتھی ایک ساتھ لگائی جارہی ہے جبکہ اسکول کا دفتر بھی ایک چھوٹے سے کمرے میں ہے۔
ایک اور ٹیچر کا کہنا تھا کہ یہاں طلبہ کو پڑھانا محال ہے ایک ہی بلیک بورڈ ہوتا ہے جس میں سے آدھا ایک کلاس کی ٹیچر جبکہ باقی آدھا دوسری کلاس کی ٹیچر استعمال کرتی ہیں، طلبہ کی آوازیں ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں ہم دوسری جماعت کے بچے کو مخاطب کرتے ہیں تو پہلی جماعت والا بچہ ہماری جانب متوجہ ہوجاتا ہے، بعض اوقات طلبہ اپنی ٹیچر کہ تدریس چھوڑ کر اسی کمرے میں موجود دوسری ٹیچر کی تدریس سننے لگتے ہیں۔
مزید براں اسکول کے میدان پر بھی ٹھیکیدار کا ہی قبضہ ہے وہاں ٹرک، رکشہ اور دوسری سواریاں پارک کی جاتی ہیں۔
علاوہ ازیں "ایکسپریس" نے اس سلسلے میں ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن کراچی سیکنڈری اینڈ ہائر سیکنڈری فرناز ریاض سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی ایک خاتون افسر کو اسکول کا دورہ کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
فرناز ریاض کا کہنا تھا کہ ہم اس سلسلے میں اعلی حکام کا مطلع کررہے ہیں اور طلبہ کے لیے جلد از جلد جو ہوسکا کریں گے۔
دوسری جانب ڈائریکٹر پرائمری اسکول کراچی لبنی صلاح الدین سے رابطہ کیا تاہم وہ دفتر میں موجود نہیں تھیں اور موبائل پر رابطہ کرنے پر انھوں نے فون ریسیوو نہیں کیا۔