افغانستان میں صدارتی انتخابات کے لئے پولنگ پرتشدد واقعات میں درجنوں افراد زخمی
طالبان کی جانب سے انتخابی عمل کو ناکام بنانے کی دھمکیوں کے باعث 4 لاکھ سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا۔
لاہور:
افغانستان میں صدارتی انتخاب کے لئے پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ملک بھر میں پولنگ کا عمل مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے سات بجے شروع ہوا جسے شام ساڑھے 4 بجے اختتام پذیر ہونا تھا تاہم پولنگ کے عمل میں ایک گھنٹے کا اضافہ بھی کیا گیا۔ افغانستان کے صدارتی انتخابات میں 8 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جس میں اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور زلمے رسول کے درمیان کانٹے کے مقابلے کی توقع ہے۔انتخابات کے دوران ملک کے ایک کروڑ 10 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز کے لئے ملک بھر میں 28 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے۔ طالبان کی جانب سے انتخابات کو ناکام بنانے کی دھمکیوں کے باعث 4 لاکھ سیکیورٹی اہلکاروں کو پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات کیا گیا۔
سخت ترین سیکیورٹی انتظامات کے باوجود قندھار، قندسوز، ننگرہار، بدخشاں اور ننگر ہار میں مختلف پولنگ اسٹیشنز پر مارٹر گولوں سے حملے کئے گئے، اس کے علاوہ بعض مقامات پر سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر بھی حملے کئے گئے جس کے نتیجے میں حکام نے 30 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ پاکستان نے افغان انتخابات کے موقع پر سیکیورٹی خدشات کے باعث پاک افغان بارڈر کو بند کردیا تھا جس کی وجہ سے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزین حق رائے دہی استعمال نہیں کرسکے۔
صدر حامد کرزئی 2001 میں طالبان حکومت کےخاتمے کے بعد سے برسر اقتدار ہیں اور ملکی آئین کے مطابق وہ مسلسل تیسری مرتبہ صدارتی انتخابات نہیں لڑ سکتے اس لئے اس مرتبہ انتخابات کو ملک میں پر امن انتقال اقتدار کے لیے انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ افغانستان کے آئین کے مطابق اگر کوئی امیدوار 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کر لیتا ہے تو وہ کامیاب قرار دیا جاتا ہے اور اگر کوئی بھی امیدوار 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو پہلے 2 امیدواروں کے درمیان دوبارہ ووٹنگ کرائی جاتی ہے۔
افغانستان میں صدارتی انتخاب کے لئے پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ملک بھر میں پولنگ کا عمل مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے سات بجے شروع ہوا جسے شام ساڑھے 4 بجے اختتام پذیر ہونا تھا تاہم پولنگ کے عمل میں ایک گھنٹے کا اضافہ بھی کیا گیا۔ افغانستان کے صدارتی انتخابات میں 8 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جس میں اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور زلمے رسول کے درمیان کانٹے کے مقابلے کی توقع ہے۔انتخابات کے دوران ملک کے ایک کروڑ 10 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز کے لئے ملک بھر میں 28 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے۔ طالبان کی جانب سے انتخابات کو ناکام بنانے کی دھمکیوں کے باعث 4 لاکھ سیکیورٹی اہلکاروں کو پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات کیا گیا۔
سخت ترین سیکیورٹی انتظامات کے باوجود قندھار، قندسوز، ننگرہار، بدخشاں اور ننگر ہار میں مختلف پولنگ اسٹیشنز پر مارٹر گولوں سے حملے کئے گئے، اس کے علاوہ بعض مقامات پر سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر بھی حملے کئے گئے جس کے نتیجے میں حکام نے 30 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ پاکستان نے افغان انتخابات کے موقع پر سیکیورٹی خدشات کے باعث پاک افغان بارڈر کو بند کردیا تھا جس کی وجہ سے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزین حق رائے دہی استعمال نہیں کرسکے۔
صدر حامد کرزئی 2001 میں طالبان حکومت کےخاتمے کے بعد سے برسر اقتدار ہیں اور ملکی آئین کے مطابق وہ مسلسل تیسری مرتبہ صدارتی انتخابات نہیں لڑ سکتے اس لئے اس مرتبہ انتخابات کو ملک میں پر امن انتقال اقتدار کے لیے انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ افغانستان کے آئین کے مطابق اگر کوئی امیدوار 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کر لیتا ہے تو وہ کامیاب قرار دیا جاتا ہے اور اگر کوئی بھی امیدوار 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو پہلے 2 امیدواروں کے درمیان دوبارہ ووٹنگ کرائی جاتی ہے۔