’’قید اور آزادی‘‘ کے نام پر پرندوں کی اموات
پاکستان میں ہر سال لاکھوں پرندے ’’قید اور آزادی‘‘ کے دھندے کے دوران ہلاک ہوجاتے ہیں
پاکستان میں ہر سال لاکھوں پرندے ''قید اور آزادی'' کے دھندے کے دوران ہلاک ہوجاتے ہیں۔ شکاری مختلف اقسام کے پرندوں کو قید کرتے اور پھر پیسے لے کر صدقے کے نام پر انہیں آزاد کرتے ہیں۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، پشاور جیسے شہروں میں یہ دھندہ عروج پر ہے۔
پرندوں کو قید کرنے کے اس دھندے میں جنگلی حیات کے تحفظ کے صوبائی محکمے بھی ملوث ہیں، جس کی وجہ سے یہ کاروبار ختم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے کئی ایک مقامات، خاص طور پر کینال روڈ، جی ٹی روڈ شالامار، داتا دربار، آزادی چوک، لبرٹی، ایم ایم عالم روڈ، گلبرگ اور انارکلی میں پنجروں میں بند چڑیا، کوے، لالیاں، بلبل سمیت دیگر پرندے لیے شکاری نظر آتے ہیں۔ شہری ان غیرقانونی شکاریوں کو پیسے دے کر ان پرندوں کو آزاد کرواتے ہیں۔ قید اور آزادی کے اس کھیل میں کئی پرندے بھوک اور پیاس سے ہی مرجاتے ہیں۔
پورے ملک میں ان جنگلی پرندوں کو پکڑنے اور پھر آزاد کرنے کا دھندہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پنجاب وائلڈ لائف کے ایک سینئر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لاہور میں چند سال پہلے ان پرندوں کا کاروبار کرنے والے صرف چار بڑے ڈیلر تھے، لیکن اب ان کی تعداد درجنوں میں ہے۔ محکمے کے کئی نچلے درجے کے ملازم بھی یہ کام کرتے ہیں۔
لاہور میں ایک طرف تو بڑھتی ہوئی آبادی، ٹریفک اور دیگر وجوہات کی بنا پر جنگلی پرندوں کی تعداد انتہائی کم ہوتی جارہی ہے بلکہ کئی پرندے تو اب نظر ہی نہیں آتے۔ اس کے باوجود اتنی زیادہ تعداد میں یہ شکاری ان پرندوں کو کہاں سے لاتے ہیں۔ اس حوالے سے ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے پنجاب وائلڈ لائف کے حکام نے بتایا کہ یہ پرندے زیادہ تر زرعی علاقوں، خاص طور پر جہاں نہریں، دریا اور جھیلیں ہیں، وہاں سے پکڑے جاتے ہیں۔ لاہور میں شاہدرہ فاریسٹ، چھانگامانگا، جلواور کینال روڈ پر کثرت سے یہ پرندے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح پاک بھارت بارڈر ایریا میں یہ پرندے بکثرت ملتے ہیں، جہاں جال کی مدد سے شکاری ان پرندوں کو پکڑتے ہیں اور پھر لاہور سمیت مختلف شہروں میں لاکر فروخت کردیے جاتے ہیں۔
لاہور میں ایم ایم عالم روڈ پر پرندے فروخت کرنے والے شکاری سلیم نے بتایا کہ وہ خود یہ پرندے پکڑ کر نہیں لاتے، ان سمیت شہر میں جتنے بھی لوگ یہ پرندے فروخت کررہے ہیں وہ داتا دربار، ٹولنٹن مارکیٹ، کینال روڈ برڈ مارکیٹ سے بڑے ڈیلروں سے لے کر آتے ہیں۔ انہیں پرندوں کو آزاد کروانے کا کمیشن ملتا ہے۔ ایک پرندے کے 10 سے 20 روپے ملتے ہیں۔ سلیم نے بتایا کہ پرندوں کو آزاد کرنے کے ریٹ علاقوں کے حساب سے مختلف ہیں۔ داتا دربار، لاری اڈا، شالامار کے علاقوں میں ایک چڑیا اور کوے کا جوڑا دو سو روپے میں چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن اگر ڈیفنس اور گلبرگ کا ایریا ہو تو ہزار روپے بھی مل جاتے ہیں۔ سلیم کا کہنا ہے وہ جانتے ہیں کہ پرندوں کو قید کرنا درست کام نہیں لیکن یہ ان کی روزی روٹی کا ذریعہ ہیں۔
پرندوں کو قید کرنے اور پھر آزاد کیے جانے کے حوالے سے پنجاب وائلڈ لائف سمیت کسی بھی ادارے کے پاس کوئی درست اعداد و شمارنہیں۔ تاہم ایک اندازے کے مطابق صرف لاہور میں سالانہ پانچ لاکھ کے قریب پرندوں کو قید کیا جاتا ہے۔ لاہور میں پرندوں کو آزاد کرنے والا ایک شکاری اوسطاً روزانہ 50 سے 60 پرندے آزاد کرتا ہے اور ان شکاریوں کی تعداد 20 سے 25 ہے۔ اس طرح روزانہ ڈیڑھ ہزار کے قریب پرندے صدقے کے نام پر آزاد کیے جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق قدرتی ماحول سے پکڑے جانے، ایک سے دوسرے شہر منتقلی اور پھر پنجروں میں قید کے دوران 35 فیصد تک پرندے مر جاتے ہیں۔ پنجاب وائلڈ لائف کا عملہ ان شکاریوں کے خلاف کارروائی بھی کرتا ہے لیکن معمولی جرمانوں کے بعد یہ لوگ آزاد ہوجاتے ہیں جبکہ تحویل میں لیے گئے پرندوں کو آزاد کردیا جاتا ہے۔ کئی کئی روز قید میں رہنے کے بعد جب ان پرندوں کو رہائی ملتی ہے تو کئی پرندے اڑان بھی نہیں بھر پاتے ہیں اور اکثر ایسے پرندے شہر کی فضاؤں میں اڑتی بھوکی چیلوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ بعض پرندے ایسے بھی ہیں جو تحفظ شدہ پرندوں کے شیڈول میں شامل نہیں، جن میں کوے، بجڑا، سیڑھ وغیرہ شامل ہیں، ان پرندوں کو پکڑنا وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت جرم نہیں ہے۔
پنجاب وائلڈ لائف بورڈ اور ڈبلیو ڈبلیو ایف بورڈ کے ممبر بدر منیر نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ انہوں نے ماضی میں ان شکاریوں کو پرندوں کی فروخت کا دھندہ چھوڑ کر کوئی مناسب کام شروع کرنے کی مہم شروع کی تھی۔ کئی شکاریوں کو اپنی جیب سے رقم دی کہ وہ خود کا کاروبار شروع کرسکیں لیکن وہ لوگ چند دن بعد وہ کام چھوڑ کر پھر سے پرندوں کی ''آزادی'' کا یہ کام شروع کردیتے ہیں۔ حکومت اگر سختی کرے تو اس کام کو روکا جاسکتا ہے۔
بدر منیر نے تجویز دی کہ شہر کے اندر کارروائیوں کے ساتھ ساتھ شہر کے داخلی راستوں پر ناکے لگا کر ان پرندوں کو اسمگل ہونے سے روکنے کی ضرروت ہے۔ اس کےلیے پنجاب وائلڈ لائف کو چاہیے کہ وہ پنجاب پولیس کی خدمات حاصل کریں، کیونکہ وائلڈ لائف کے پاس خود اتنا فیلڈ اسٹاف موجود نہیں کہ انہیں ناکوں پر تعینات کیا جاسکے، جبکہ پولیس اہلکار موجود ہوتے ہیں۔ شہر کے اندر بھی ڈولفن پولیس اور ٹریفک پولیس کو ٹاسک دیا جائے کہ وہ پرندے بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔ لاہور میں جو بڑے ڈیلرز ہیں انہوں نے پرندوں کی خرید و فروخت کے لائسنس لے رکھے ہیں، اس کی آڑ میں وہ ان پرندوں کا بھی کاروبار کرتے ہیں۔
پنجاب وائلڈ لائف کے ترجمان کا کہنا ہے پرندوں کو قید کرنے والوں کے خلاف تسلسل سے کارروائیاں کرتے ہیں۔ شہریوں سے بھی اپیل ہے کہ وہ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کریں۔ ان سے پرندے لے کر آزاد کرانے کے بجائے فوراً اس کی اطلاع وائلڈ لائف یا پھر پولیس ہیلپ لائن پر دیں تاکہ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پرندوں کو قید کرنے کے اس دھندے میں جنگلی حیات کے تحفظ کے صوبائی محکمے بھی ملوث ہیں، جس کی وجہ سے یہ کاروبار ختم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے کئی ایک مقامات، خاص طور پر کینال روڈ، جی ٹی روڈ شالامار، داتا دربار، آزادی چوک، لبرٹی، ایم ایم عالم روڈ، گلبرگ اور انارکلی میں پنجروں میں بند چڑیا، کوے، لالیاں، بلبل سمیت دیگر پرندے لیے شکاری نظر آتے ہیں۔ شہری ان غیرقانونی شکاریوں کو پیسے دے کر ان پرندوں کو آزاد کرواتے ہیں۔ قید اور آزادی کے اس کھیل میں کئی پرندے بھوک اور پیاس سے ہی مرجاتے ہیں۔
پورے ملک میں ان جنگلی پرندوں کو پکڑنے اور پھر آزاد کرنے کا دھندہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پنجاب وائلڈ لائف کے ایک سینئر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لاہور میں چند سال پہلے ان پرندوں کا کاروبار کرنے والے صرف چار بڑے ڈیلر تھے، لیکن اب ان کی تعداد درجنوں میں ہے۔ محکمے کے کئی نچلے درجے کے ملازم بھی یہ کام کرتے ہیں۔
لاہور میں ایک طرف تو بڑھتی ہوئی آبادی، ٹریفک اور دیگر وجوہات کی بنا پر جنگلی پرندوں کی تعداد انتہائی کم ہوتی جارہی ہے بلکہ کئی پرندے تو اب نظر ہی نہیں آتے۔ اس کے باوجود اتنی زیادہ تعداد میں یہ شکاری ان پرندوں کو کہاں سے لاتے ہیں۔ اس حوالے سے ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے پنجاب وائلڈ لائف کے حکام نے بتایا کہ یہ پرندے زیادہ تر زرعی علاقوں، خاص طور پر جہاں نہریں، دریا اور جھیلیں ہیں، وہاں سے پکڑے جاتے ہیں۔ لاہور میں شاہدرہ فاریسٹ، چھانگامانگا، جلواور کینال روڈ پر کثرت سے یہ پرندے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح پاک بھارت بارڈر ایریا میں یہ پرندے بکثرت ملتے ہیں، جہاں جال کی مدد سے شکاری ان پرندوں کو پکڑتے ہیں اور پھر لاہور سمیت مختلف شہروں میں لاکر فروخت کردیے جاتے ہیں۔
لاہور میں ایم ایم عالم روڈ پر پرندے فروخت کرنے والے شکاری سلیم نے بتایا کہ وہ خود یہ پرندے پکڑ کر نہیں لاتے، ان سمیت شہر میں جتنے بھی لوگ یہ پرندے فروخت کررہے ہیں وہ داتا دربار، ٹولنٹن مارکیٹ، کینال روڈ برڈ مارکیٹ سے بڑے ڈیلروں سے لے کر آتے ہیں۔ انہیں پرندوں کو آزاد کروانے کا کمیشن ملتا ہے۔ ایک پرندے کے 10 سے 20 روپے ملتے ہیں۔ سلیم نے بتایا کہ پرندوں کو آزاد کرنے کے ریٹ علاقوں کے حساب سے مختلف ہیں۔ داتا دربار، لاری اڈا، شالامار کے علاقوں میں ایک چڑیا اور کوے کا جوڑا دو سو روپے میں چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن اگر ڈیفنس اور گلبرگ کا ایریا ہو تو ہزار روپے بھی مل جاتے ہیں۔ سلیم کا کہنا ہے وہ جانتے ہیں کہ پرندوں کو قید کرنا درست کام نہیں لیکن یہ ان کی روزی روٹی کا ذریعہ ہیں۔
پرندوں کو قید کرنے اور پھر آزاد کیے جانے کے حوالے سے پنجاب وائلڈ لائف سمیت کسی بھی ادارے کے پاس کوئی درست اعداد و شمارنہیں۔ تاہم ایک اندازے کے مطابق صرف لاہور میں سالانہ پانچ لاکھ کے قریب پرندوں کو قید کیا جاتا ہے۔ لاہور میں پرندوں کو آزاد کرنے والا ایک شکاری اوسطاً روزانہ 50 سے 60 پرندے آزاد کرتا ہے اور ان شکاریوں کی تعداد 20 سے 25 ہے۔ اس طرح روزانہ ڈیڑھ ہزار کے قریب پرندے صدقے کے نام پر آزاد کیے جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق قدرتی ماحول سے پکڑے جانے، ایک سے دوسرے شہر منتقلی اور پھر پنجروں میں قید کے دوران 35 فیصد تک پرندے مر جاتے ہیں۔ پنجاب وائلڈ لائف کا عملہ ان شکاریوں کے خلاف کارروائی بھی کرتا ہے لیکن معمولی جرمانوں کے بعد یہ لوگ آزاد ہوجاتے ہیں جبکہ تحویل میں لیے گئے پرندوں کو آزاد کردیا جاتا ہے۔ کئی کئی روز قید میں رہنے کے بعد جب ان پرندوں کو رہائی ملتی ہے تو کئی پرندے اڑان بھی نہیں بھر پاتے ہیں اور اکثر ایسے پرندے شہر کی فضاؤں میں اڑتی بھوکی چیلوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ بعض پرندے ایسے بھی ہیں جو تحفظ شدہ پرندوں کے شیڈول میں شامل نہیں، جن میں کوے، بجڑا، سیڑھ وغیرہ شامل ہیں، ان پرندوں کو پکڑنا وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت جرم نہیں ہے۔
پنجاب وائلڈ لائف بورڈ اور ڈبلیو ڈبلیو ایف بورڈ کے ممبر بدر منیر نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ انہوں نے ماضی میں ان شکاریوں کو پرندوں کی فروخت کا دھندہ چھوڑ کر کوئی مناسب کام شروع کرنے کی مہم شروع کی تھی۔ کئی شکاریوں کو اپنی جیب سے رقم دی کہ وہ خود کا کاروبار شروع کرسکیں لیکن وہ لوگ چند دن بعد وہ کام چھوڑ کر پھر سے پرندوں کی ''آزادی'' کا یہ کام شروع کردیتے ہیں۔ حکومت اگر سختی کرے تو اس کام کو روکا جاسکتا ہے۔
بدر منیر نے تجویز دی کہ شہر کے اندر کارروائیوں کے ساتھ ساتھ شہر کے داخلی راستوں پر ناکے لگا کر ان پرندوں کو اسمگل ہونے سے روکنے کی ضرروت ہے۔ اس کےلیے پنجاب وائلڈ لائف کو چاہیے کہ وہ پنجاب پولیس کی خدمات حاصل کریں، کیونکہ وائلڈ لائف کے پاس خود اتنا فیلڈ اسٹاف موجود نہیں کہ انہیں ناکوں پر تعینات کیا جاسکے، جبکہ پولیس اہلکار موجود ہوتے ہیں۔ شہر کے اندر بھی ڈولفن پولیس اور ٹریفک پولیس کو ٹاسک دیا جائے کہ وہ پرندے بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔ لاہور میں جو بڑے ڈیلرز ہیں انہوں نے پرندوں کی خرید و فروخت کے لائسنس لے رکھے ہیں، اس کی آڑ میں وہ ان پرندوں کا بھی کاروبار کرتے ہیں۔
پنجاب وائلڈ لائف کے ترجمان کا کہنا ہے پرندوں کو قید کرنے والوں کے خلاف تسلسل سے کارروائیاں کرتے ہیں۔ شہریوں سے بھی اپیل ہے کہ وہ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کریں۔ ان سے پرندے لے کر آزاد کرانے کے بجائے فوراً اس کی اطلاع وائلڈ لائف یا پھر پولیس ہیلپ لائن پر دیں تاکہ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔