ٹی ٹی پی کے پاس امریکی اسلحہ ہے کے پی پولیس ان سے نہیں لڑسکتی عمران خان
پہلے بھی کہا تھا قبائلی علاقے متاثر ہونگے تو پورا ملک متاثر ہوگا، جب تک بیٹھ کر بات نہیں کریں گے دہشت گردی نہیں رکے گی
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے پاس امریکا کا اسلحہ ہے خیبرپختونخوا پولیس دہشت گردوں سے مقابلہ نہیں کرسکتی، جب تک بیٹھ کر بات نہیں کریں گے دہشت گردی نہیں رکے گی۔
اپنے ویڈیو بیان میں عمران خان نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے، دہشت گردی سے وقت پر نہ نمٹا گیا تو اس کے منفی اثرات ہوں گے، ماضی میں بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو نقصان ہوا، کیا وجہ تھی کہ ماضی میں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ دار بنایا گیا، ہم 20 سال تک امریکی جنگ کا حصہ رہے ہیں، ابھی تک امریکی جنگ کے اثرات پاکستان میں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو مدعو کیا، مشرف نے کہا کہ ہم امریکا کی صرف لاجسٹک سپورٹ کریں گے، نائن الیون کے واقعے میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، میرا ہمیشہ سے موقف رہا کہ امریکا کی جنگ میں نہیں پڑنا چاہیے لیکن میرے موقف کے بعد مجھے برا بھلا کہا گیا، تنقید کی گئی اور طالبان خان کہا گیا۔
عمران خان نے کہا کہ ہمارے قبائلی علاقے سب سے پرامن سمجھے جاتے تھے، قائد اعظم نے 1948ء میں قبائلی علاقے سے فوج واپس بلائی اور کہا کہ قبائلی علاقے ہماری فوج ہیں وہاں فوج کی ضرورت نہیں، افغان جنگ پاکستان کے قبائلی علاقے سے لڑی گئی جب امریکا افغانستان آیا تو مجاہدین دہشت گرد قرار دیئے گئے، تحریک طالبان پاکستان امریکا کی مدد کرنے پر ہمارے خلاف ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ امریکی انخلاء کے بعد پاکستان کے پاس افغانستان کے ساتھ دوستی کا سنہری موقع تھا، افغانستان میں پہلی بار پاکستان حامی حکومت آئی، ہمارے دور میں افغانستان کی نئی حکومت سے اچھے تعلقات تھے۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ نقصان خودکش حملوں سے ہوا، امریکا کے پاس بھی خود کش حملے روکنے کا طریقہ کار نہیں تھا، افغانستان میں مختلف گروپس لڑ رہے تھے، ہمارے دشمنوں نے بھی موقع سے فائدہ اٹھایا اور کارروائیاں کیں، ہم نے اشرف غنی حکومت سے تعلقات بہتر کرنے کی بہت کوشش کی، طالبان اور اشرف غنی حکومت کے درمیان سیاسی حل نکالنے کے لیے کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ 35 سے 40 ہزار لوگ تحریک طالبان پاکستان میں شامل ہیں، ٹی ٹی پی کے پاس 5 ہزار لوگ لڑنے والے ہیں، افغان طالبان نے ٹی ٹی پی سے کہا واپس جائیں، طالبان نے ٹی ٹی پی پر دباؤ ڈالا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ فاٹا انضمام سیاسی کوششوں سے ممکن ہوا، حکمرانوں نے کیا کیا؟ فاٹا انضمام کے بعد صوبوں نے 3 فیصد بجٹ فاٹا کو دینے کا اعلان کیا، پنجاب اور خیبرپختونخوا نے پیسے دیئے باقی دونوں صوبوں نے انکار کردیا۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا بہت پیچھے تھا وہاں پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت تھی مگر ہمارے پاس نہیں تھا اور (ن) لیگ کی وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا کے فنڈز روک دیئے حالاں کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں فیصلہ ہوا تھا فاٹا کو زیادہ فنڈز دینے ہیں، افغانستان سے واپس آنے والے 40 ہزار لوگوں کو سیٹ کرنے کی ضرورت تھی۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ ہمارے دور میں ملک 6 فیصد پر ترقی کررہا تھا لیکن اب معاشی صورتحال بدتر ہے، حکومت کی عدم توجہ کے باعث دہشت گردی بڑھ رہی ہے، سرحدوں کا کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہے، پولیس دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی، ٹی ٹی پی کے پاس امریکا کا اسلحہ ہے خیبرپختونخوا پولیس دہشت گردوں سے نہیں لڑسکتی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ قبائلی علاقوں میں دوبارہ مسائل ہوئے تو پورا پاکستان متاثر ہوگا، این ایف سی فنڈ میں سے پیسے دینے کا دعوی ٰ کیا گیا لیکن نہیں دیئے گئے، حکمرانوں سے کہتا ہوں لوگوں کو گمراہ نہ کریں، غیر ذمہ دارانہ بیانات دے رہے ہیں کہ افغانستان میں یہ کر لیں گے وہ کر لیں گے، جب تک بیٹھ کر بات نہیں کریں گے دہشت گردی نہیں رکے گی، ہم نے شاہ محمود کو افغانستان بھیجا تھا ہم نے ان کے ساتھ پورا تعاون کیا۔
اپنے ویڈیو بیان میں عمران خان نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے، دہشت گردی سے وقت پر نہ نمٹا گیا تو اس کے منفی اثرات ہوں گے، ماضی میں بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو نقصان ہوا، کیا وجہ تھی کہ ماضی میں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ دار بنایا گیا، ہم 20 سال تک امریکی جنگ کا حصہ رہے ہیں، ابھی تک امریکی جنگ کے اثرات پاکستان میں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو مدعو کیا، مشرف نے کہا کہ ہم امریکا کی صرف لاجسٹک سپورٹ کریں گے، نائن الیون کے واقعے میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، میرا ہمیشہ سے موقف رہا کہ امریکا کی جنگ میں نہیں پڑنا چاہیے لیکن میرے موقف کے بعد مجھے برا بھلا کہا گیا، تنقید کی گئی اور طالبان خان کہا گیا۔
عمران خان نے کہا کہ ہمارے قبائلی علاقے سب سے پرامن سمجھے جاتے تھے، قائد اعظم نے 1948ء میں قبائلی علاقے سے فوج واپس بلائی اور کہا کہ قبائلی علاقے ہماری فوج ہیں وہاں فوج کی ضرورت نہیں، افغان جنگ پاکستان کے قبائلی علاقے سے لڑی گئی جب امریکا افغانستان آیا تو مجاہدین دہشت گرد قرار دیئے گئے، تحریک طالبان پاکستان امریکا کی مدد کرنے پر ہمارے خلاف ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ امریکی انخلاء کے بعد پاکستان کے پاس افغانستان کے ساتھ دوستی کا سنہری موقع تھا، افغانستان میں پہلی بار پاکستان حامی حکومت آئی، ہمارے دور میں افغانستان کی نئی حکومت سے اچھے تعلقات تھے۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ نقصان خودکش حملوں سے ہوا، امریکا کے پاس بھی خود کش حملے روکنے کا طریقہ کار نہیں تھا، افغانستان میں مختلف گروپس لڑ رہے تھے، ہمارے دشمنوں نے بھی موقع سے فائدہ اٹھایا اور کارروائیاں کیں، ہم نے اشرف غنی حکومت سے تعلقات بہتر کرنے کی بہت کوشش کی، طالبان اور اشرف غنی حکومت کے درمیان سیاسی حل نکالنے کے لیے کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ 35 سے 40 ہزار لوگ تحریک طالبان پاکستان میں شامل ہیں، ٹی ٹی پی کے پاس 5 ہزار لوگ لڑنے والے ہیں، افغان طالبان نے ٹی ٹی پی سے کہا واپس جائیں، طالبان نے ٹی ٹی پی پر دباؤ ڈالا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ فاٹا انضمام سیاسی کوششوں سے ممکن ہوا، حکمرانوں نے کیا کیا؟ فاٹا انضمام کے بعد صوبوں نے 3 فیصد بجٹ فاٹا کو دینے کا اعلان کیا، پنجاب اور خیبرپختونخوا نے پیسے دیئے باقی دونوں صوبوں نے انکار کردیا۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا بہت پیچھے تھا وہاں پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت تھی مگر ہمارے پاس نہیں تھا اور (ن) لیگ کی وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا کے فنڈز روک دیئے حالاں کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں فیصلہ ہوا تھا فاٹا کو زیادہ فنڈز دینے ہیں، افغانستان سے واپس آنے والے 40 ہزار لوگوں کو سیٹ کرنے کی ضرورت تھی۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ ہمارے دور میں ملک 6 فیصد پر ترقی کررہا تھا لیکن اب معاشی صورتحال بدتر ہے، حکومت کی عدم توجہ کے باعث دہشت گردی بڑھ رہی ہے، سرحدوں کا کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہے، پولیس دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی، ٹی ٹی پی کے پاس امریکا کا اسلحہ ہے خیبرپختونخوا پولیس دہشت گردوں سے نہیں لڑسکتی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ قبائلی علاقوں میں دوبارہ مسائل ہوئے تو پورا پاکستان متاثر ہوگا، این ایف سی فنڈ میں سے پیسے دینے کا دعوی ٰ کیا گیا لیکن نہیں دیئے گئے، حکمرانوں سے کہتا ہوں لوگوں کو گمراہ نہ کریں، غیر ذمہ دارانہ بیانات دے رہے ہیں کہ افغانستان میں یہ کر لیں گے وہ کر لیں گے، جب تک بیٹھ کر بات نہیں کریں گے دہشت گردی نہیں رکے گی، ہم نے شاہ محمود کو افغانستان بھیجا تھا ہم نے ان کے ساتھ پورا تعاون کیا۔