لاہور ہائی کورٹ اور اعتماد کا ووٹ
لاہورہائی کورٹ نے جب گورنرپنجاب کا نوٹیفکیشن معطل کیاتھا، تب وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد کاووٹ لینے کا پابندنہیں کیا تھا
وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اعتماد کا ووٹ نہیں لیا۔ شنید یہی ہے کہ اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے ووٹ پورے کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے لیکن ووٹ پورے نہیں ہو سکے ہیں۔
ویسے تو نو جنوری کے اجلاس کے لیے جو ایجنڈا جاری کیا گیا تھا، اس میں اعتمادکا ووٹ لینا شامل نہیں تھا، لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اندازہ ہو گیا تھاکہ ووٹ پورے نہیں ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے جب گورنر پنجاب کا نوٹیفکیشن معطل کیا تھا، تب وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند نہیں کیا تھا۔کہا گیا تھا کہ اگر وہ خود چاہیں تو اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیںلہٰذا اعتماد کا ووٹ لینا کوئی قانونی ضرورت بھی نہیں تھی۔ لیکن اعتماد کا ووٹ نہ لیناظاہر کرتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے پاس پنجاب اسمبلی میں اکثریت نہیں ہے۔
اب تمام نظریں لاہور ہائی کورٹ پر لگ گئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے ذرایع کے مطابق ان کی کوشش ہو گی کہ گیارہ جنوری کی سماعت پر التوا مل جائے۔ وکلا کو یہی ہدایت کی گئی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کیس کو لمبا کیا جائے، اسمبلی نہ توڑنے کی یقین دہانی کو بڑھا دیا جائے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جائے گا۔
ادھر گورنر کے وکیل کی کوشش ہو گی کہ ہائی کو رٹ وزیر اعلیٰ کو فوری اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کر دے۔ پی ڈی ایم کی بھی یہی کوشش ہو گی۔
تحریک انصاف کے رہنما بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ صدر مملکت کسی بھی وقت وزیر اعظم کو اعتما دکے ووٹ کا کہہ سکتے ہیں۔
جب تحریک انصاف یہ مانتی ہے کہ صدر مملکت وزیر اعظم کو کہہ سکتے ہیںتو پھر گورنر وزیر اعلیٰ کو کیوں نہیں کہہ سکتا۔بہر حال امید یہی ہے کہ پرویزالٰہی کو التوا کی رعایت تو مل سکتی ہے۔
لیکن بالا آخر انھیں اعتماد کا ووٹ لینا ہی پڑے گا، سیاسی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ حکومت کے وکلاء کیس کوفروری تک التوا میں رکھنے کی کوشش کریں گے،بنچ ٹوٹنے کی بھی بازگشت ہے۔ پی ڈی ایم سپریم کورٹ جانے کا سوچ رہی تھی۔
لیکن پھر یہی فیصلہ ہوا کہ گیارہ جنوری کی تاریخ کو دیکھا جائے کہ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اگر گیارہ جنوری کو کیس ملتوی ہو گیا تو پھر سپریم کورٹ جانے کی بھی تیاری ہے۔ تا ہم پہلی کوشش یہی ہے کہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں ہی حل ہو جائے۔ لاہور ہائی کورٹ ہی پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند کر دے۔
تحریک انصاف اور ق لیگ کے لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر فرض کر لیں پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ نہ لے سکیں تو پھر وزیر اعلیٰ کا دوبارہ انتخاب ہو گا اور تحریک انصاف اور ق لیگ دوبارہ انتخاب جیت جائے گی، اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ لیکن دوسری طرف بھی یہی کہا جارہا ہے کہ جس طرح ووٹ ہوتے ہوئے پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکتے۔
اسی طرح دوبارہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب جیتنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ (ن ) کے اندر سے ایسی خبریں آرہی ہیں کہ انھوں نے بھی دوبارہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی مکمل تیاری کر لی ہے۔ اس بار معرکہ مختلف ہو گا۔ اس لیے ایسا لگ رہا ہے کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے نئے انتخاب کی تیاری کی جا رہی ہے ، دونوں طر ف صف بندی ہو گئی ہے۔
بس عدالت کے فیصلے کا انتظار ہے،اس لیے سب نظریں لاہور ہائی کورٹ پر ہیں۔ تخت پنجاب کا فیصلہ وہیں ہوگا۔
ویسے تو نو جنوری کے اجلاس کے لیے جو ایجنڈا جاری کیا گیا تھا، اس میں اعتمادکا ووٹ لینا شامل نہیں تھا، لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اندازہ ہو گیا تھاکہ ووٹ پورے نہیں ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے جب گورنر پنجاب کا نوٹیفکیشن معطل کیا تھا، تب وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند نہیں کیا تھا۔کہا گیا تھا کہ اگر وہ خود چاہیں تو اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیںلہٰذا اعتماد کا ووٹ لینا کوئی قانونی ضرورت بھی نہیں تھی۔ لیکن اعتماد کا ووٹ نہ لیناظاہر کرتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے پاس پنجاب اسمبلی میں اکثریت نہیں ہے۔
اب تمام نظریں لاہور ہائی کورٹ پر لگ گئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے ذرایع کے مطابق ان کی کوشش ہو گی کہ گیارہ جنوری کی سماعت پر التوا مل جائے۔ وکلا کو یہی ہدایت کی گئی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کیس کو لمبا کیا جائے، اسمبلی نہ توڑنے کی یقین دہانی کو بڑھا دیا جائے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جائے گا۔
ادھر گورنر کے وکیل کی کوشش ہو گی کہ ہائی کو رٹ وزیر اعلیٰ کو فوری اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کر دے۔ پی ڈی ایم کی بھی یہی کوشش ہو گی۔
تحریک انصاف کے رہنما بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ صدر مملکت کسی بھی وقت وزیر اعظم کو اعتما دکے ووٹ کا کہہ سکتے ہیں۔
جب تحریک انصاف یہ مانتی ہے کہ صدر مملکت وزیر اعظم کو کہہ سکتے ہیںتو پھر گورنر وزیر اعلیٰ کو کیوں نہیں کہہ سکتا۔بہر حال امید یہی ہے کہ پرویزالٰہی کو التوا کی رعایت تو مل سکتی ہے۔
لیکن بالا آخر انھیں اعتماد کا ووٹ لینا ہی پڑے گا، سیاسی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ حکومت کے وکلاء کیس کوفروری تک التوا میں رکھنے کی کوشش کریں گے،بنچ ٹوٹنے کی بھی بازگشت ہے۔ پی ڈی ایم سپریم کورٹ جانے کا سوچ رہی تھی۔
لیکن پھر یہی فیصلہ ہوا کہ گیارہ جنوری کی تاریخ کو دیکھا جائے کہ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اگر گیارہ جنوری کو کیس ملتوی ہو گیا تو پھر سپریم کورٹ جانے کی بھی تیاری ہے۔ تا ہم پہلی کوشش یہی ہے کہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں ہی حل ہو جائے۔ لاہور ہائی کورٹ ہی پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند کر دے۔
تحریک انصاف اور ق لیگ کے لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر فرض کر لیں پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ نہ لے سکیں تو پھر وزیر اعلیٰ کا دوبارہ انتخاب ہو گا اور تحریک انصاف اور ق لیگ دوبارہ انتخاب جیت جائے گی، اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ لیکن دوسری طرف بھی یہی کہا جارہا ہے کہ جس طرح ووٹ ہوتے ہوئے پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکتے۔
اسی طرح دوبارہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب جیتنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ (ن ) کے اندر سے ایسی خبریں آرہی ہیں کہ انھوں نے بھی دوبارہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی مکمل تیاری کر لی ہے۔ اس بار معرکہ مختلف ہو گا۔ اس لیے ایسا لگ رہا ہے کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے نئے انتخاب کی تیاری کی جا رہی ہے ، دونوں طر ف صف بندی ہو گئی ہے۔
بس عدالت کے فیصلے کا انتظار ہے،اس لیے سب نظریں لاہور ہائی کورٹ پر ہیں۔ تخت پنجاب کا فیصلہ وہیں ہوگا۔