باطن کی عجیب دنیا

خلوت نشینی کو تطہیر کردار کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے لیکن کیا اس پرشور صنعتی عہد میں ہم ان ہدایات پر عمل کرسکتے ہیں؟

waqar.ahmed@express.com.pk

گزشتہ کالموں میں ہم نے خلوت نشینی پر بحث کی، جس کے ردعمل میں متضاد آرا سامنے آئیں اور کئی سوال بھی کیے گئے۔ دوسرے لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ شاید ہم ان کالموں کے ذریعے صوفی ازم کی طرف میلان بڑھا رہے ہیں۔ پہلے اس نکتے کی وضاحت کردیں کہ ہمارے کالموں میں آپ کو نفسیات ومابعد نفسیات سے متعلق مختلف جہات پر معلومات ملیں گی، ایسے میں کسی خاص نظریے یا مخصوص فرقے، مذہب کی تخصیص نہیں ہوگی، جو علم جہاں سے ملے گا وہ پیش کر دیا جائے گا۔

خلوت نشینی کو تطہیر کردار کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے لیکن کیا اس پرشور صنعتی عہد میں ہم ان ہدایات پر عمل کرسکتے ہیں؟ کیا مخلوق سے قطع تعلق ممکن ہے؟ کرہ ارض کی اربوں نفوس پر مشتمل آبادی میں سے محض چند سو یا چند ہزار افراد ہی بمشکل ان ہدایات پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔ عام آدمی کے لیے جو خود میں ارتکاز توجہ کی صلاحیت پیدا کرکے ذہنی صحت مندی کی منزل تک پہنچنا چاہتا ہے اور اس طرح عملی زندگی میں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے، نہ خلوت نشینی کی ضرورت ہے نہ عملی دنیا سے قطع تعلق کی، البتہ چند افراد ضرور ان مشقوں پر عمل کرکے روحانی کیفیات کے ادراک پر قادر ہوسکتے ہیں، لیکن ان کا ہونا نہ ہونے کے برابر ہے، وہ خرد بینی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہم اپنے گزشتہ کالموں میں بھی بار بار کہہ چکے ہیں کہ خارق العادات اور ماورائی علوم کی مشقوں میں بے انتہا ریاضت کی ضرورت ہے اور ٹیلی پیتھی یا اسی قبیل کے دیگر علوم سیکھنے کے لیے طالب علم کو برسوں بیت جاتے ہیں، بلاشبہ خلوت نشینی کے بے پناہ فوائد ہیں لیکن ترک دنیا کا مشورہ ہم نہیں دیں گے کہ بہرحال انسان ایک سماجی جاندار ہے۔ دوسرے یہ بھی واضح رہے کہ قدرت نے عملی شعور کی کنجی سے دماغ کے اس حصے کو مقفل کردیا ہے جو خارق العادات کا مرکز ہے۔ مستقبل بینی ہو، خارق العادات مظاہر ہوں، ان کا مقابلہ کرنا، ان کو سمجھنا اور انھیں برداشت کرجانا بچوں کا کھیل نہیں۔ اس صبر آزما مرحلے سے گزرنے کے لیے بڑے سخت جان اور پہلوان دل کی ضرورت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ باطن کی دنیا عجیب دنیا ہے، ماہ و مریخ سے بھی حیرت انگیز۔ انسان کو کائنات صغیر اس لیے نہیں کہا گیا کہ اس کا قد پانچ فٹ، چھ انچ اور اس کی دو ٹانگیں، دو ہاتھ، دو آنکھیں اور ایک ناک ہے بلکہ انسان کائنات صغیر اپنے نفس کی بنا پر ہے، اس کے باطن میں وہ سب کچھ موجود ہے جو ہمیں کائنات حاضر میں نظر آتا ہے۔ مولانا روم فرماتے ہیں:

چشم بند و گوش بند و لب بہ بند


گر نہ بینی نور حق برمن بخند

(آنکھ بند کر، کان بند کر، اور ہونٹ بند کر، اس کے بعد اگر نور حق نظر نہ آئے تو میرا مذاق اڑانا)۔ مولانا روم نے اس شعر میں ارتکاز توجہ کا طریقہ تعلیم کیا ہے۔ مراقبے میں آنکھیں بند کرکے ایک نقطہ تصور (خیال) پر تمام تر توجہ مرکوز کردی جاتی ہے اور مشاہدے (مثلاً شمع بینی، ماہ بینی) میں کسی ایک شے کو مرکز توجہ بنادیا جاتا ہے۔ توجہ جس قدر گہری اور مسلسل اور دیرپا ہوگی، مشاہدات اتنے ہی حیرت انگیز اور رنگ رنگ ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ ارتکاز توجہ سے ارادے میں مضبوطی کس طرح پیدا ہوجاتی ہے۔ ارتکاز توجہ کا بنیادی اصول یا بنیادی تعلیم یہ ہے کہ ذہن و نظر کو صرف ایک مرکز (خواہ وہ شے ہو یا تصور) پر جما دیا جائے۔ ذہن اس پابندی کو قبول نہیں کرتا، شعور کی تازہ لہریں ہر لمحہ ذہن کی سطح سے گزرتی رہتی ہیں۔ ان گوناگوں خیالات کی لہروں کو روک کر صرف ایک خیال کو قائم رکھنا اور بار بار ذہن کو دوسری طرف سے ہٹا کر ایک نقطہ تصور پر لانا مشکل امر ہے (لیکن ناممکن نہیں)۔ ہم ارتکاز توجہ کی مشقوں (ماہ بینی، آفتاب بینی، شمع بینی، التسخیر، التصویر، بلور بینی، سایہ بینی، آئینہ بینی وغیرہ وغیرہ) میں بار بار ذہن کو اپنی گرفت میں لاتے ہیں اور بار بار بھٹکتے ہوئے خیال کو ایک مرکز پر جماتے ہیں۔ یہ کام آسان نہیں، ایک سیکنڈ میں بے شمار خیالات، تصورات اور یادیں ذہن کی سطح پر ابھرتی اور ڈوب جاتی ہیں۔

اس سیلاب پر بند باندھنا آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنا مشکل اور دقت طلب معرکہ ہوگا، تاہم لوگ (سو میں ساٹھ فیصد) رفتہ رفتہ ارتکاز توجہ کے عادی ہوجاتے ہیں، بشرطیکہ مستقل مزاجی سے مشقیں کریں۔ لامحالہ ان کی قوت ارادی ترقی کرتی جاتی ہے کیونکہ بار بار وہ اپنے ارادے کو استعمال کرکے ذہن کو ایک مرکز کی طرف لاتے ہیں، پلک جھپکائے بغیر کسی چمکدار شے پر نظریں جما دینے سے دماغ پر تھکن طاری ہوجاتی ہے اور دماغی تھکان کے سبب شعور کی اچھل کود ڈھیلی پڑ جاتی ہے اور نقطہ خیال (شمع کی لو، چاند یا سورج کی سطح یا ناک کی نوک یعنی البصیر، ناک کی جڑ یعنی التجلی، نقطہ بینی یعنی التسخیر و التصویر یعنی بلور بینی وغیرہ) پر توجہ پوری طرح مرکوز ہونے لگتی ہے۔ اس طرح ارادے کی قوت ابھرتی اور قوت ارادی کے سبب خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔

یہ ہے ارتکاز توجہ کے ذریعے ذہنی استحکام حاصل کرنے کا طریق عمل۔اور اب پھر وہی مسئلہ کہ ان تمام علوم کا ماہر استاد کہاں سے لائیں؟ ہمارے کالموں کے جواب میں قارئین کی جانب سے سب سے زیادہ یہی سوال بار بار اٹھایا گیا ہے۔ جب تک آپ کسی معتبر استاد کی تلاش میں کامیاب نہیں ہوجاتے ہم یہی مشورہ دیں گے کہ کالموں میں دی گئی مشقیں اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ شروع کردیں لیکن ہم سے متعلق رابطے میں رہیں۔ ہر شخص کی ذہنی و جسمانی استعداد دوسرے سے مختلف ہوتی ہے اس لیے مشقوں میں ہلکی پھلکی تبدیلی بھی اسی تناظر میں کی جاتی ہے، کوئی بھی مشق شروع کرنے سے پہلے بذریعہ ای میل ہم سے مشورہ ضرور کریں، تاکہ ہم آپ کی قابلیت کے مطابق مشق تجویز کرسکیں۔

 
Load Next Story