خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
آپ کا دور خلافت اسلامی تاریخ کا بہترین اور شاندار دور تھا تاریخ انسانی ایسے دور کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے
ہر مسلمان کے لیے ماہِ جمادی الثانی کی فضلیت و مرتبت اس لیے ہے کہ اس مہینے کی نسبت انبیاء کے بعد کائنات کی سب سے افضل شخصیت یعنی خلیفہ بلافصل امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے۔
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت و کردار کے یوں تو ہزاروں درخشندہ پہلو ہیں مگر جو پہلو اْن سب میں زیادہ روشن اور نمایاں نظر آتا ہے وہ آپ کا عشقِ رسولﷺ ہے۔ یہ وہ محور و مرکز ہے جس کے گرد آپ کی ساری زندگی گھومتی معلوم ہوتی ہے۔ آپ کی زندگی میں عشقِ رسول کی ابتداء کب ہوئی؟ ہم اسے آپ کے ایمان لانے کے روزِ اول ہی سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔
آپ کا شمار مکہ کے ممتاز تاجروں میں ہوتا تھا۔ آپ کو معلوم تھا کہ اسلام قبول کرنے کا صاف مطلب ہے کہ آپ کو تاجرانہ منفعت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ آپ اس بات سے بھی بے خبر نہ تھے کہ کسی معاشرے میں اپنے آبائی مذہب کو چھوڑ کر ایک نئے مذہب میں شامل ہونا اس معاشرے سے بالکل ہی کٹ جانے کے مترداف ہے۔
آپ نے عشق رسول ﷺ کا عملی مظاہرہ کیا اور اپنے معاشرے سے کٹ کر حضورﷺ کے دامن سے لپٹ گئے۔ رسول اللہﷺ کی نبوت و رسالت کے پہلے گواہ ہونے کا اعزاز آپ ہی کے پاس ہے۔ آپ کو رسول اللہﷺ اپنا خلیل بنانا چاہتے تھے، جن کو قرآن کریم میں اللہ نے سچائی کی تائید کرنے والا اور حق و سچ کا پیکر و پرتو قرار دیا، جنھوں نے زمانۂ جاہلیت میں بھی شراب و جوا اور ہمہ جہتی منکرات سے اجتناب کیا۔
جن کے بارے میں خلیفہ عادل حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ''میں ان کے مقام و مرتبہ تک کبھی نہیں پہنچ سکتا، وہ جنھیں آپﷺ نے مسلمانوں کی امامت تفویض کی، جنھیں جنت کے سبھی دروازے داخل ہونے کی دعوت دیں گے''، وہ جس نے اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ پر اس قدر احسان کیے کہ خود رسول اللہﷺ کو ارشاد فرمانا پڑا کہ: ان کے احسانات کا بدلہ خود اللہ تعالیٰ چکائیں گے، وہ جو صرف عشرہ مبشرہ میں ہی شامل نہیں، بلکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: تم میرے حوضِ کوثر پر بھی رفیق ہوگے جیسے سفرِ ہجرت میں میرے ساتھ تھے۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ آپﷺ پر سب سے پہلے ایمان لائے۔ ہجرت سے پہلے کا دور ایسا پْر خطر تھا کہ اسلام کا اظہار کرنا مشکل تھا تو دوسروں کو اسلام کی دعوت دینا ایسا تھا جیسا کہ اژدھے کے منہ میں ہاتھ دینا، ایسے دور میں دوسروں کو مسلمان بنانا آپ ہی کی ہمت تھی چنانچہ آپ کی کوشش سے اشراف قریش میں سے ایک جماعت مشرف بہ اسلام ہوئی جن کے نام یہ ہیں:حضرت طلحہ، حضرت عثمان، حضرت زبیر،حضرت سعد بن وقاص،حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم، ان حضرات کے ایمان لانے سے کفر کی تیز چھری کند ہوگئی۔
خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ غزوہ کے موقع پر آپﷺ نے کچھ مال راہ خدا میں خرچ کرنے کا حکم فرمایااس وقت حضرت عمرؓ کے دل میں خیال آیا کہ آج میں حضرت ابوبکر صدیقؓ سے آگے بڑھ جاؤں گا چنانچہ میں کچھ مال لایا۔آپﷺ نے پوچھا عمر اپنے اہل و عیال کیلے کس قدر چھوڑ آئے ہو تو عمرؓ نے کہا کہ آدھا (آدھا مال لے کرآیا ہوں اور آدھا چھوڑ آیا ہوں) پھر ابوبکرؓ اپنا مال لے کرآئے۔
آپﷺ نے ابوبکر سے پوچھا، ابوبکر اپنے اہل و عیال کیلے کس قدر چھوڑا ؟ تو ابوبکرؓ نے کہا کہ میں نے اپنے اہل و عیال کیلے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے (کل مال لے کر آیا ہوں ) اس وقت حضرت عمرؓ نے بیساختہ کہا کہ میں حضرت ابوبکر سے کبھی سبقت نہیں لے سکتا۔
جب کامل تیرہ برس تک کفار کے ظلم و ستم کا سلسلہ چلتا رہا آپﷺ اور آپ کے صحابہ امتحان خداوندی میں کامل ہوچکے تھے تو وحی الٰہی کے ذریعہ آپﷺ کو حکم ملا کہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے جائیں، خدا اور خدا کے رسولﷺ نے اس سفر ہجرت میں تمام جماعت صحابہ میں سے صرف حضرت ابوبکرؓ کو ہی منتخب فرمایا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ آپﷺ کے ساتھ اس سفر ہجرت میں شامل تھے اور رفیق سفر بنے اور حضرت ابوبکر ؓ نے قدم قدم پر ایسی جانی و مالی خدمات انجام دیں کہ عشق و محبت کی داستانوں میں بھی کوئی واقعہ اس سے مافوق نہیں مل سکتا۔
اللہ نے ہجرت ہی نہیں مزار میں بھی آپ کو رسول اللہﷺ کا ساتھ نصیب فرما دیا۔ جب نبی کریم ﷺ کی وفات کی خبر سن کر عرب کے بعض قبائل مرتد ہوگئے اور طرح طرح کی بغاوتیں رونما ہوئیں مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے جن میں ایک مسیلمہ کذاب تھا جس نے رسول اللہﷺ کے اخیر وقت میں سر اٹھایا تھا اور ایک خط بھی بھیجا تھا ان ہی مدعیان نبوت میں اسود عنسی بھی تھا اور سجاح نامی ایک عورت بھی تھی۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان سب مرتدوں اور مدعیان نبوت کے قتال کیلے حکم قطعی نافذ کیا ادھر ایک یہ بھی امر در پیش تھا کہ آپﷺ نے اپنی آخری وصیت میں کہا کہ اسامہ کے لشکرکو ملک شام کی طرف روانہ کردیا جائے، حضرت صدیقؓ نے اس لشکر کی روانگی کا حکم دیا تمام صحابہ اس رائے میں حضرت ابوبکرؓ کے مخالف تھے، کہتے تھے کہ ایسے پر آشوب وقت میں جب کہ اندرون ملک میں متعدد قبائل بغاوت کے شعلے بلند کررہے ہیں فی الحال لشکر کو روانہ کرنا مناسب نہیں ہے حتی کہ صحابہ کرام میں قتال کے سب سے زیادہ حامی حضرت عمر و علیؓ ہوسکتے تھے مگر یہ دونوں بھی حالات کی نزاکت سے متاثر ہوئے اور لڑائی کو مصلحت نہیں سمجھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا: یا خلیفہ رسول اللہﷺ یہ وقت سختی کا نہیں ہے۔
اس وقت تالیف سے کام لیجیے تو حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ کی اس بات پر غصہ ہوئے اور کہا اے عمر تم تو زمانہ جاہلیت میں بڑے تند خو تھے اور اسلام میں آکر نرم ہوگئے۔ سنو: دین کامل ہوچکا ہے وحی بند ہوگئی کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میرے جیتے جی دین میں کمی آجائے۔
اللہ اکبر۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تقریباً دو سال سات ماہ مسند خلافت کو سنبھالا۔ بہت سے چیلنجز آپ کے سامنے تھے۔ آپؓ نے اپنی دور اندیشی اور منصوبہ بندی کے تحت ان پر قابو پا لیا اور ملت اسلامیہ کو نہایت مستحکم بنیادوں پر استوار کیا، آپؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ایران اور روم کی دو عظیم سلطنتوں کو متعدد شکستیں دے کر ملت اسلامیہ کے وقار اور دبدبے کا ڈنکا بجا دیا۔مالیات کا جو نظام عہد نبویﷺ سے چلا آ رہا تھاحضرت ابو بکر صدیق ؓنے ابتداء سے وہی نظام جاری رکھا رقم آتی تو اس کو عوامی بہبود و فلاح کے لیے خرچ کر دیا جاتا یا پھر تقسیم کر دیا جاتا لیکن بعد میں آپ نے بیت المال کے لیے ایک عمارت تعمیر کروائی جس میں ساری رقم کو رکھا جاتا تھا۔
صحابہ کرام پورے شوق اور جذبہ کے ساتھ جہاد کیا کرتے تھے ہر وقت اس انتظار میں رہتے کہ ہمیں حکم ہو اور ہم اسلام کی سر بلندی کی خاطر جہاد کریں، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ نے فوجی نظام میں سپہ سالار کے ایک عہدے کا اضافہ کیا اور حضرت خالد بن ولیدؓ کو پہلا سپہ سالار مقرر فرمایا جن کے تحت پوری فوج کا دستہ ہوتا، حضور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے آپ جنگ پر جانے سے پہلے فوج کی تربیت فرماتے اور وہی ارشاد فرماتے جو نبی کریمﷺ اپنی حیات مبارکہ میں صحابہ کرام کو فرمایا کرتے تھے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ فوج کو ساز و سامان مہیا کرنے کا انتظام کیا، اونٹوں اور گھوڑوں کے لیے ایک چراگاہ بنائی، مال غنیمت کا ایک حصہ فوجداری نظام کے لیے مقرر فرمایا جہاں کوئی کمی بیشی نظر آتی خود اصلاح فرماتے۔ دور صدیقی کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ مسائل کی تحقیق و تدوین کے لیے ایک ادارہ قائم کیا گیا جس میں حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ کی ذمے داری لگائی۔
وہ وہاں لوگوں کے مسائل سنتے اور قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے فرماتے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ کے دور خلافت کا سب سے اہم کارنامہ قرآنِ مجید کو جمع کرنا ہے جنگ یمامہ میں حفاظ کی کثیر تعداد شہید ہو گئی اس پر حضرت عمر فاروق ؓ نے خلیفہ وقت حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو قرآن مجید محفوظ کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ صحابہ کرام کی شہادتیں جاری رہیں تو قرآن مجید کا بہت سا حصہ ضایع ہو جائے گا اس لیے آپ قرآن مجید کو جمع کرنے کا حکم جاری کریں تا کہ کتاب اللہ محفوظ رہے آپ کے اس مشورہ پر غور وفکر کے بعد آپ راضی ہو گئے اور حضرت زید بن حارثؓ کو قرآن مجید کو جمع کرنے کا حکم دیا۔
آپؓ نے ملت اسلامیہ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اس کو متعدد صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کر دیا اور ان تمام علاقہ جات پر گورنر مقرر کر دیے آپؓ کا یہ عمل اس لیے تھا کہ ایک شخص ایک جگہ بیٹھ کر با آسانی سارے معاملات کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔
اس لیے اگر علیحدہ علیحدہ لوگ مقرر کیے جائیں گے تو لوگوں کے تمام تر معاملات کو توجہ کے ساتھ دیکھا جائے گا۔ آپ کا دور خلافت اسلامی تاریخ کا بہترین اور شاندار دور تھا تاریخ انسانی ایسے دور کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپ کا وصال 22 جمادی الثانی کوہوا۔ یوں اس دن عہد صداقت کا باب بند ہوگیا لیکن اس کی روشنائی سے انسانیت قیامت تک فیض یاب ہوتی رہے گی۔
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت و کردار کے یوں تو ہزاروں درخشندہ پہلو ہیں مگر جو پہلو اْن سب میں زیادہ روشن اور نمایاں نظر آتا ہے وہ آپ کا عشقِ رسولﷺ ہے۔ یہ وہ محور و مرکز ہے جس کے گرد آپ کی ساری زندگی گھومتی معلوم ہوتی ہے۔ آپ کی زندگی میں عشقِ رسول کی ابتداء کب ہوئی؟ ہم اسے آپ کے ایمان لانے کے روزِ اول ہی سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔
آپ کا شمار مکہ کے ممتاز تاجروں میں ہوتا تھا۔ آپ کو معلوم تھا کہ اسلام قبول کرنے کا صاف مطلب ہے کہ آپ کو تاجرانہ منفعت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ آپ اس بات سے بھی بے خبر نہ تھے کہ کسی معاشرے میں اپنے آبائی مذہب کو چھوڑ کر ایک نئے مذہب میں شامل ہونا اس معاشرے سے بالکل ہی کٹ جانے کے مترداف ہے۔
آپ نے عشق رسول ﷺ کا عملی مظاہرہ کیا اور اپنے معاشرے سے کٹ کر حضورﷺ کے دامن سے لپٹ گئے۔ رسول اللہﷺ کی نبوت و رسالت کے پہلے گواہ ہونے کا اعزاز آپ ہی کے پاس ہے۔ آپ کو رسول اللہﷺ اپنا خلیل بنانا چاہتے تھے، جن کو قرآن کریم میں اللہ نے سچائی کی تائید کرنے والا اور حق و سچ کا پیکر و پرتو قرار دیا، جنھوں نے زمانۂ جاہلیت میں بھی شراب و جوا اور ہمہ جہتی منکرات سے اجتناب کیا۔
جن کے بارے میں خلیفہ عادل حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ''میں ان کے مقام و مرتبہ تک کبھی نہیں پہنچ سکتا، وہ جنھیں آپﷺ نے مسلمانوں کی امامت تفویض کی، جنھیں جنت کے سبھی دروازے داخل ہونے کی دعوت دیں گے''، وہ جس نے اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ پر اس قدر احسان کیے کہ خود رسول اللہﷺ کو ارشاد فرمانا پڑا کہ: ان کے احسانات کا بدلہ خود اللہ تعالیٰ چکائیں گے، وہ جو صرف عشرہ مبشرہ میں ہی شامل نہیں، بلکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: تم میرے حوضِ کوثر پر بھی رفیق ہوگے جیسے سفرِ ہجرت میں میرے ساتھ تھے۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ آپﷺ پر سب سے پہلے ایمان لائے۔ ہجرت سے پہلے کا دور ایسا پْر خطر تھا کہ اسلام کا اظہار کرنا مشکل تھا تو دوسروں کو اسلام کی دعوت دینا ایسا تھا جیسا کہ اژدھے کے منہ میں ہاتھ دینا، ایسے دور میں دوسروں کو مسلمان بنانا آپ ہی کی ہمت تھی چنانچہ آپ کی کوشش سے اشراف قریش میں سے ایک جماعت مشرف بہ اسلام ہوئی جن کے نام یہ ہیں:حضرت طلحہ، حضرت عثمان، حضرت زبیر،حضرت سعد بن وقاص،حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم، ان حضرات کے ایمان لانے سے کفر کی تیز چھری کند ہوگئی۔
خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ غزوہ کے موقع پر آپﷺ نے کچھ مال راہ خدا میں خرچ کرنے کا حکم فرمایااس وقت حضرت عمرؓ کے دل میں خیال آیا کہ آج میں حضرت ابوبکر صدیقؓ سے آگے بڑھ جاؤں گا چنانچہ میں کچھ مال لایا۔آپﷺ نے پوچھا عمر اپنے اہل و عیال کیلے کس قدر چھوڑ آئے ہو تو عمرؓ نے کہا کہ آدھا (آدھا مال لے کرآیا ہوں اور آدھا چھوڑ آیا ہوں) پھر ابوبکرؓ اپنا مال لے کرآئے۔
آپﷺ نے ابوبکر سے پوچھا، ابوبکر اپنے اہل و عیال کیلے کس قدر چھوڑا ؟ تو ابوبکرؓ نے کہا کہ میں نے اپنے اہل و عیال کیلے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے (کل مال لے کر آیا ہوں ) اس وقت حضرت عمرؓ نے بیساختہ کہا کہ میں حضرت ابوبکر سے کبھی سبقت نہیں لے سکتا۔
جب کامل تیرہ برس تک کفار کے ظلم و ستم کا سلسلہ چلتا رہا آپﷺ اور آپ کے صحابہ امتحان خداوندی میں کامل ہوچکے تھے تو وحی الٰہی کے ذریعہ آپﷺ کو حکم ملا کہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے جائیں، خدا اور خدا کے رسولﷺ نے اس سفر ہجرت میں تمام جماعت صحابہ میں سے صرف حضرت ابوبکرؓ کو ہی منتخب فرمایا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ آپﷺ کے ساتھ اس سفر ہجرت میں شامل تھے اور رفیق سفر بنے اور حضرت ابوبکر ؓ نے قدم قدم پر ایسی جانی و مالی خدمات انجام دیں کہ عشق و محبت کی داستانوں میں بھی کوئی واقعہ اس سے مافوق نہیں مل سکتا۔
اللہ نے ہجرت ہی نہیں مزار میں بھی آپ کو رسول اللہﷺ کا ساتھ نصیب فرما دیا۔ جب نبی کریم ﷺ کی وفات کی خبر سن کر عرب کے بعض قبائل مرتد ہوگئے اور طرح طرح کی بغاوتیں رونما ہوئیں مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے جن میں ایک مسیلمہ کذاب تھا جس نے رسول اللہﷺ کے اخیر وقت میں سر اٹھایا تھا اور ایک خط بھی بھیجا تھا ان ہی مدعیان نبوت میں اسود عنسی بھی تھا اور سجاح نامی ایک عورت بھی تھی۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان سب مرتدوں اور مدعیان نبوت کے قتال کیلے حکم قطعی نافذ کیا ادھر ایک یہ بھی امر در پیش تھا کہ آپﷺ نے اپنی آخری وصیت میں کہا کہ اسامہ کے لشکرکو ملک شام کی طرف روانہ کردیا جائے، حضرت صدیقؓ نے اس لشکر کی روانگی کا حکم دیا تمام صحابہ اس رائے میں حضرت ابوبکرؓ کے مخالف تھے، کہتے تھے کہ ایسے پر آشوب وقت میں جب کہ اندرون ملک میں متعدد قبائل بغاوت کے شعلے بلند کررہے ہیں فی الحال لشکر کو روانہ کرنا مناسب نہیں ہے حتی کہ صحابہ کرام میں قتال کے سب سے زیادہ حامی حضرت عمر و علیؓ ہوسکتے تھے مگر یہ دونوں بھی حالات کی نزاکت سے متاثر ہوئے اور لڑائی کو مصلحت نہیں سمجھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا: یا خلیفہ رسول اللہﷺ یہ وقت سختی کا نہیں ہے۔
اس وقت تالیف سے کام لیجیے تو حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ کی اس بات پر غصہ ہوئے اور کہا اے عمر تم تو زمانہ جاہلیت میں بڑے تند خو تھے اور اسلام میں آکر نرم ہوگئے۔ سنو: دین کامل ہوچکا ہے وحی بند ہوگئی کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میرے جیتے جی دین میں کمی آجائے۔
اللہ اکبر۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تقریباً دو سال سات ماہ مسند خلافت کو سنبھالا۔ بہت سے چیلنجز آپ کے سامنے تھے۔ آپؓ نے اپنی دور اندیشی اور منصوبہ بندی کے تحت ان پر قابو پا لیا اور ملت اسلامیہ کو نہایت مستحکم بنیادوں پر استوار کیا، آپؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ایران اور روم کی دو عظیم سلطنتوں کو متعدد شکستیں دے کر ملت اسلامیہ کے وقار اور دبدبے کا ڈنکا بجا دیا۔مالیات کا جو نظام عہد نبویﷺ سے چلا آ رہا تھاحضرت ابو بکر صدیق ؓنے ابتداء سے وہی نظام جاری رکھا رقم آتی تو اس کو عوامی بہبود و فلاح کے لیے خرچ کر دیا جاتا یا پھر تقسیم کر دیا جاتا لیکن بعد میں آپ نے بیت المال کے لیے ایک عمارت تعمیر کروائی جس میں ساری رقم کو رکھا جاتا تھا۔
صحابہ کرام پورے شوق اور جذبہ کے ساتھ جہاد کیا کرتے تھے ہر وقت اس انتظار میں رہتے کہ ہمیں حکم ہو اور ہم اسلام کی سر بلندی کی خاطر جہاد کریں، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ نے فوجی نظام میں سپہ سالار کے ایک عہدے کا اضافہ کیا اور حضرت خالد بن ولیدؓ کو پہلا سپہ سالار مقرر فرمایا جن کے تحت پوری فوج کا دستہ ہوتا، حضور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے آپ جنگ پر جانے سے پہلے فوج کی تربیت فرماتے اور وہی ارشاد فرماتے جو نبی کریمﷺ اپنی حیات مبارکہ میں صحابہ کرام کو فرمایا کرتے تھے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ فوج کو ساز و سامان مہیا کرنے کا انتظام کیا، اونٹوں اور گھوڑوں کے لیے ایک چراگاہ بنائی، مال غنیمت کا ایک حصہ فوجداری نظام کے لیے مقرر فرمایا جہاں کوئی کمی بیشی نظر آتی خود اصلاح فرماتے۔ دور صدیقی کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ مسائل کی تحقیق و تدوین کے لیے ایک ادارہ قائم کیا گیا جس میں حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ کی ذمے داری لگائی۔
وہ وہاں لوگوں کے مسائل سنتے اور قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے فرماتے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ کے دور خلافت کا سب سے اہم کارنامہ قرآنِ مجید کو جمع کرنا ہے جنگ یمامہ میں حفاظ کی کثیر تعداد شہید ہو گئی اس پر حضرت عمر فاروق ؓ نے خلیفہ وقت حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو قرآن مجید محفوظ کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ صحابہ کرام کی شہادتیں جاری رہیں تو قرآن مجید کا بہت سا حصہ ضایع ہو جائے گا اس لیے آپ قرآن مجید کو جمع کرنے کا حکم جاری کریں تا کہ کتاب اللہ محفوظ رہے آپ کے اس مشورہ پر غور وفکر کے بعد آپ راضی ہو گئے اور حضرت زید بن حارثؓ کو قرآن مجید کو جمع کرنے کا حکم دیا۔
آپؓ نے ملت اسلامیہ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اس کو متعدد صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کر دیا اور ان تمام علاقہ جات پر گورنر مقرر کر دیے آپؓ کا یہ عمل اس لیے تھا کہ ایک شخص ایک جگہ بیٹھ کر با آسانی سارے معاملات کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔
اس لیے اگر علیحدہ علیحدہ لوگ مقرر کیے جائیں گے تو لوگوں کے تمام تر معاملات کو توجہ کے ساتھ دیکھا جائے گا۔ آپ کا دور خلافت اسلامی تاریخ کا بہترین اور شاندار دور تھا تاریخ انسانی ایسے دور کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپ کا وصال 22 جمادی الثانی کوہوا۔ یوں اس دن عہد صداقت کا باب بند ہوگیا لیکن اس کی روشنائی سے انسانیت قیامت تک فیض یاب ہوتی رہے گی۔